شرم و حیا سے فحاشی و عریانی تک (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 1 جولائی 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

صابن اور سگریٹ کے یہ اشتہار جن میں عریانیت محض نام کو تھی لیکن چونکہ مغربی معاشرہ اس کا بالکل عادی نہ تھا‘ اس لیے شروع شروع میں انھیں حیرت اور لطف دونوں کے ملے جلے جذبات سے دیکھا گیا چونکہ یہ دونوں اشتہار اس چیز یعنی ’’پراڈکٹ‘‘ پر چسپاں تھے جیسے صابن جس کاغذ میں لپٹا ہوا تھا اس پر یہ تصویر نمایاں تھی اور سگریٹ کی ڈبیا میں وہ کارڈ رکھے ہوئے تھے، اس لیے یہ دونوں اشتہار گھروں کی معمولات کا حصہ بن گئے اور ساتھ ساتھ وہ تصویریں بھی کاروباری زبان میں ’’ہاؤس ہولڈ آئٹم‘‘ بن گئیں۔

یوں ایک زمانے میں جس طرح کی تصویروں کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی تھیں۔ لیکن اب صابن کا کور اتارتے یا سگریٹ کا پیکٹ کھولتے کوئی ان پر نظر بھی نہ ڈالتا تھا۔ عریانی کے بارے میں جب یہ پہلا بندھن توڑا گیا تو وہ لوگ جو اپنا مال بیچنے کے لیے عورت کو ایک ’’پراڈکٹ‘‘ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے انھیں مکمل یقین ہو گیا کہ حساسیت کو آہستہ آہستہ ختم کرتے ہوئے ہم معاشرے کو اس نہج پر لے آئیں گے کہ اگر جسم پر چند چیتھڑے ہی موجود ہوں تو اسے لوگ عریانی تصور نہیں کریں گے بلکہ اس کی ابتدائی شکل ہی مکمل ننگا پن ہو گا۔

یہی وہ دور تھا جب اٹلی کی ایک مشہور کپڑے بنانے والی کمپنی نے 1905ء کے آس پاس بہت شہرت حاصل کی۔ اس کا آرٹ ڈائریکٹر آلیورو ٹوسکانی Oleviero Toscani نے دنیا بھر کی ماڈلز کو پہلے اپنے ملبوسات پہنا کر اشتہارات تیار کیے جس کی وجہ سے اس کی مصنوعات کو عالمی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ ان کے جسموں سے لباس سرکانا شروع کیے۔ چونکہ ماڈلز ہر رنگ، نسل اور علاقے سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے ہر علاقے کے لوگوں کی اپنی پسند و ناپسند کے معیارات تھے، یہی وجہ ہے کہ اس کمپنی کی مصنوعات کے بہانے وہ اپنی منظور نظر خواتین کے جسموں کی نمائش دیکھتے تھے اور کمپنی کا مال بکتا تھا۔ خواتین کے جسم کو مال فروخت کرنے کے لیے استعمال کی عالمی سطح پر یہ پہلی منظم کوشش تھی۔

جب اس طرح عریانی سے مال بکنے لگا اور آہستہ آہستہ لوگ بھی اس عریانی کے عادی ہوتے چلے گئے تو پھر انھیں نہ سینے سے سرکتے ہوئے ملبوس برے لگے اور نہ ہی برہنہ ٹانگیں، بلکہ لباس کی تراش خراش ایسی رکھی جاتی کہ دیکھنے والے کا تجسس مزید بڑھ جاتا‘ اس کے بعد اس کو ایک مکمل سائنس کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ ایک علم بن گیا جسے آج مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جانے لگا۔ لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں پینتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں۔

یہ مختلف قسم کی مصنوعات بناتی ہیں۔ سیمنٹ، سریا، ٹائر، کار، ٹیلی ویژن، ٹوتھ پیسٹ، شیو کا سامان وغیرہ، یعنی ضروریات زندگی کی ہر چیز۔ ان تمام مصنوعات کو بیچنے کے لیے اشتہار ساز کمپنیوں کی الگ ایک دنیا ہے۔ یہ کمپنیاں لوگوں کے مزاج کے مطابق اشتہار بناتی ہیں۔ لیکن ان کمپنیوں نے ایک غیر محسوس طریقے سے لوگوں کو اس بات کا عادی کر دیا کہ چیز کوئی بھی بیچنی ہو، عورت کو بازار میں لا کر ضرور کھڑا کیا جائے۔ ایک بہت مشہور ٹائر کی کمپنی کا اشتہار 1950ء کے آس پاس شایع ہوا، جس میں دور تک جاتی کول تار کی چمکدار سڑک پر ٹائر درمیان میں کھڑا ہے اور اس پر ہاتھ رکھے مارلن منرو، ایک ڈھیلا سا فراک پہنے ہوئے چوکڑی مارکر بیٹھی ہے۔ مال بیچنے کے لیے عورت کا استعمال، انسانی ذلت اور ذہنی پستی کی اس سے بری اور کیا علامت ہو سکتی ہے۔ یہ علم ایک سائنس بنا تو اس بات پر تحقیقات کا دروازہ کھل گیا کہ معاشرے میں کس حد تک عریانیت دکھائی جائے تو قابل قبول ہو گی اور پھر آہستہ آہستہ ’’خوراک‘‘ میں اضافہ کر دیا جاتا‘ جیسے نشے کی خوراک میں کیا جاتا ہے۔

مارکیٹنگ کی تعلیم میں ایک تحقیق کے بہت حوالے دیے جاتے ہیں۔ یہ تحقیق گیلپ اینڈ روبنسن Gallup & Robinson نے گزشتہ پچاس سال کے اشتہاری ماضی پر کی تھی۔ ان کے نزدیک سب سے کامیاب اشتہار وہ رہے جن میں عورت کے جسم کو نمایاں کیا گیا۔ جس کے لیے انھوں نے مشہور لفظ EROTIC استعمال کیا۔ جس کا مطلب تصویر کا ایسا استعمال ہے جس سے جنسی طلب میں اضافہ ہو۔ لیکن انھوں نے اشتہارات بنانے والوں کو متنبہ بھی کیا کہ جہاں کہیں کسی معاشرے میں اپنی حدود سے آگے نکلو گے تو اس کا الٹا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ لوگوں کے جذبات بھی بھڑک سکتے ہیں۔ کبھی بھی لوگوں کی حساسیت کے مخالف اشتہارات میں عریانیت کی زیادتی (Over Dose) نہ کرنا، البتہ ایک بات اس تحقیق اور اس سے متعلقہ ہزاروں تحقیقوں نے بتائی کہ ’’جنسیت بکتی ہے‘‘ یہیں سے ”Sex Sells” کا نعرہ مستانہ گونجا۔

اب کیسے بیچنا ہے، کس طرح بیچنا ہے، کیسے لوگوں کو اس کا عادی کرنا ہے، یہ سب اس قدر، منظم اور شاندار طریقے سے کیا گیا کہ اب ایسے معاشرے وجود میں آ گئے کہ جہاں مکمل عریانیت پر بھی لوگوں کو حیرانی نہیں ہوتی۔ دنیا کے ہر ’’تہذیب یافتہ‘‘ ملک میں سمندر کے ایسے ساحل موجود ہیں جنھیں ’’بے لباس ساحل‘‘ (Nude Beaches) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک دن میں وجود میں نہیں آ گئے۔ ان کے پیچھے تقریباً ایک صدی کی محنت ہے۔ ان کے پیچھے صرف اشتہارات کی دنیا نہیں بلکہ پوری فیشن انڈسٹری ہے جو عورت کو زینت بازار بنانے اور پرکشش بنا کر پیش کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ فلم اور ٹیلی ویژن کا ایک وسیع دائرہ ہے جو لوگوں میں طرز زندگی اور لائف اسٹائل کو متعارف کرواتا ہے۔ پہلے ہیرو اور ہیروئن زبردست کہانی اور اداکاری کے حوالے سے دلوں کی دھڑکن بنتے ہیں اور پھر ان کا طرز زندگی لوگوں کے لیے آئیڈیل ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی ایک منظم طریقے سے آہستہ آہستہ جنسیت کو متعارف کروایا گیا۔

فلموں میں یہ پابندی نہیں تھی کہ تم کیسی فلم بناؤ گے۔ تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے لیکن ہم ہر فلم کو Rate کریں گے یعنی ہم بتائیں گے کہ  کس عمر کے لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اس ریٹنگ کو PG ریٹنگ کہا جاتا ہے یعنی ”Parent Guidence” یعنی والدین کی ہدایت کے لیے کہ وہ بچوں کو اور کس عمر کے بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جو فلمیں PG18 یعنی اٹھارہ سال سے زیادہ کی عمر کے بچوں کے دیکھنے کے لیے تھیں، اب وہ PG13 یعنی تیرہ سال کی عمر والوں کو دیکھنے کے لیے میسر ہیں۔ ان میں مناظر ہوتے ہیں۔

اندازہ کیجیے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں جب ایک معمولی سا بوسہ بھی لوگوں میں ناراضی کے جذبات پیدا کر دیتا تھا اب PG18 میں وہ فلمیں شامل ہو چکی ہیں جن میں سیکس دکھائے جاتے ہیں۔ ان فلموں کے علاوہ نوے ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی انڈسٹری ہے جسے فحش فلموں کا کاروبار کہتے ہیں۔ وہاں کی حساسیت دیکھیے کہ 1904ء میں پہلی فحش فلم بیونس آئرس میں بنائی گئی۔ یعنی ابھی ایڈیسن کو موشن پیکچر ایجاد کیے صرف چودہ سال ہوئے تھے۔ یہ فلم ایک نیم فحش بلکہ آج کے دور کے مطابق نارمل فحش بھی نہ تھی۔ لیکن 1915ء میں جب دوسری فلم آئی تو دیکھنے والوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ سینما گھروں پر پابندی تھی کہ یہاں صرف مرد یہاں آ سکتے ہیں۔

آپ حیران ہوں گے آج بھی دنیا بھر میں جہاں جہاں فحش فلموں کے سینما گھر ہیں وہاں دیکھنے والوں کی ننانوے فیصد تعداد صرف مردوں کی ہوتی ہے۔ پانچ سال تک یہی فلم دیکھی جاتی رہی اور لوگ پھر اس طرح کی فحاشی اور عریانی کے عادی ہو گئے۔ اس کے بعد 1920ء میں تو جیسے بند ٹوٹ گیا۔ اور آج تقریباً ایک صدی کے بعد انسان کی ہوس، حرص اور طلب اس قدر بڑھی کہ جانور سے اختلاط، رشتوں کا عدم احترام جیسے موضوعات ان فلموں کا حصہ بن گئے۔

مین اسٹریم میڈیا کا یہ کمال ہے کہ وہ آہستہ آہستہ آپ کو تھوڑی سی فحاشی پر عادی کرتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے جس لباس میں کرینہ یا قطرینہ آئٹم گانے پر رقص کرتی تھیں وہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ لوگ بچوں کے سامنے اسے فاسٹ فاورڈ کر دیتے تھے۔ لیکن آج وہ عین خبروں کے بیچ میں دکھایا جاتا ہے اور کسی کو حیرانی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس ’’مولوی‘‘ کی آنکھوں میں جنس  بھری ہوئی ہے۔

ہمیں تو کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ اسے کہتے ہیں Desensitize ہونا۔ یعنی آپ کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے لیکن جو جانتے ہیں کہ اگر یہ کھیل شروع ہو گیا تو پھر یہ کہیں نہیں رکے گا۔ عریانیت اسے اپنی آخری منزل تک لے جائے گی۔ اسی لیے وہ اسے آغاز میں ہی روکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ گاڑی اس پٹڑی پر نہ چڑھے ورنہ بہت تیز رفتار ہو جائے گی۔ شرم و حیاء سے عریانی و فحاشی کا سفر بہت تیز بلکہ تیز تریں ہوتا ہے۔ شرم و حیاء ختم ہوئی تو سید الانبیاء کی حدیث کے مصداق ’’جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے‘‘ (صحیح بخاری)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔