ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں

عارف عزیز  پير 26 نومبر 2012
’’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ‘‘ سماج اور اس کے بعض کرداروں سے جڑی ایک اور کہانی ’’تلخیاں‘‘ کے نام سے پیش کرنے جارہا ہے جس میں سینیر اداکارہ شمیم ہلالی بھی نظر آئیں گی۔ فوٹو : فائل

’’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ‘‘ سماج اور اس کے بعض کرداروں سے جڑی ایک اور کہانی ’’تلخیاں‘‘ کے نام سے پیش کرنے جارہا ہے جس میں سینیر اداکارہ شمیم ہلالی بھی نظر آئیں گی۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں ٹیلی ویژن چینلوں کے ناظرین کی دل چسپی کے لیے تفریحی پروگرام پیش کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ’’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ‘‘ آگے ہے۔

اس ٹی وی چینل پر خصوصاً ڈراموں کے شائقین کے لیے بامقصد اور پُراثر کہانیاں پیش کی جارہی ہیں، جنھیں دیکھنے والوں میں بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ ان ڈراموں میں نئے اور باصلاحیت آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ ملک کے نام ور فن کار اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ’’ایکسپریس انٹرٹینمینٹ‘‘ سماج اور اس کے بعض کرداروں سے جڑی ایک اور کہانی ’’تلخیاں‘‘ کے نام سے پیش کرنے جارہا ہے، جس میں سینیر اداکارہ شمیم ہلالی بھی نظر آئیں گی۔ پچھلے دنوں ایک ملاقات کے دوران ’’تلخیاں‘‘ کی کہانی اور اس میں اپنے کردار سے متعلق انھوں نے ہم سے بات چیت کی، جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

٭ اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
میں نے تقسیم ہند سے چند روز قبل ممبئی میں آنکھ کھولی، لیکن جلد ہی میرے گھر والوں نے ہجرت کر کے لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ اس طرح میرا بچپن لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم کے تمام مدارج طے کیے۔ میں نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا اور شعبۂ تدریس سے وابستہ رہی۔ زمانۂ طالب علمی میں مختلف ثقافتی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کیا اور بعد میں ٹیلی ویژن پر اداکاری کا موقع ملا۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے اور اب ناظرین مجھے ’’تلخیاں‘‘ کا ایک کردار نبھاتے ہوئے دیکھیں گے۔

٭اداکاری کی طرف کیسے آنا ہوا؟
ہمارے زمانے میں اسکول اور کالج کی سطح پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ اُس دور میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد بہت اہمیت رکھتا تھا اور ان میں اسکولوں اور کالجوں کے طلباء بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ گلوکاری، ڈانس پرفارمینس اور ڈراموں کے علاوہ رنگا رنگ کلچرل شوز کا انعقاد تعلیمی اداروں کی مضبوط روایت تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ لاہور کے ادبی اور ثقافتی ماحول نے مجھے بھی متأثر کیا اور میں نے زمانۂ طالب علمی میں کالج کی سطح پر پروگراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس میں ڈراما بھی شامل تھا۔ یوں اداکاری کا شوق پروان چڑھتا رہا، کالج کے بعد ایک تھیٹر گروپ کے ساتھ ڈراما کیا، جسے میری پہلی باقاعدہ پرفارمینس کہہ سکتے ہیں۔

1964 میں پی ٹی وی آیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرلی۔ ان دنوں پی ٹی وی نے یونیورسٹی میگزین کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جس میں طلباء کو مدعو کیا جاتا اور ان کی تعلیم اور رحجانات پر بات چیت کی جاتی تھی۔ مجھے بھی اس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ پی ٹی وی پر اس پروگرام میں شرکت ایک نیا اور خوب صورت تجربہ تھا۔ وہاں مجھے ڈراموں میں کام کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ ایک مشکل بات تھی، کیوں کہ اس وقت سب کچھ ’لائیو‘ ہوتا تھا۔ میں نے انکار کردیا اور کہا کہ یہ میں نہیں کر سکتی، لیکن قسمت میں ٹیلی ویژن آرٹسٹ بننا لکھا تھا، سو پہلا پلے ’الف نون‘ کیا، کمال احمد رضوی کی تحریر کردہ ایک کامیڈی سیریز میں مجھے ایک ایسی طالبہ کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا، جو ’الف نون‘ کی دکان پر اپنی سائیکل ٹھیک کروانے آتی ہے۔ یوں ایکٹنگ کا سلسلہ چل نکلا۔

٭ تلخیاں کے بارے میں کچھ بتائیے۔
یہ میرا نیا ڈراما ہے، جس میں ہمارے معاشرے کو عورت کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے۔ یہ ڈراما مشہور ناول The God of Small Things سے ماخوذ ہے، جسے انڈیا سے تعلق رکھنے والے ناول نگار ارون دھتی رائے نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ناانصافی اور دکھوں پر مبنی ایسی کہانی ہے، جس میں عورت کے مختلف روپ کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس میں ہر کردار کی زندگی کی تلخیوں اور تکلیفوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ عام ڈگر سے ہٹ کر ایک کہانی ہے، جس کی بُنت نہایت مضبوط ہے اور اس میں کام کرنے والے تمام فن کاروں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنے کرداروں کو حقیقت سے قریب تر کر دیا ہے۔

٭اپنے کردار کی تفصیلات بتائیے؟
میں اس ڈرامے میں ہیروئن کی ماں کا کردار ادا کررہی ہوں، جسے سب ’ماما جی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عورت کا کردار ہے، جو اپنے شوہر کی بدمزاجی اور ستم کا نشانہ بنتی ہے، لیکن معاشرے کی عام عورتوں کی طرح دوسروں کے سامنے اپنی زندگی کی تلخیوں اور تکالیف کا اظہار نہیں کرتی، بلکہ اپنے شوہر کے برے رویے کو جھیلتے ہوئے، اسے دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔

دراصل اس عورت کا شوہر ایک نام ور سول سرونٹ ہے، جو ریٹائرمنٹ کے بعد ڈپریشن کا شکار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ خوشامد اور سفارش کی بنیاد پر اس کے ساتھی سروس کے دوران اس سے بہت آگے نکل گئے جب کہ اسے وہ شناخت اور مقام نہیں ملا، جس کا وہ مستحق تھا۔ ایک طرح سے وہ احساس محرومی کا شکار ہے اور اسے دور کرنے کے لیے اپنے اہلِ خانہ اور خاص طور پر اپنی بیوی کو طنز اور ظلم وستم کا نشانہ بناتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی بیوی پر تشدد بھی کرتا ہے جب کہ ماما جی ایک رکھ رکھائو والی خاتون ہے اور یہ سب برداشت کر رہی ہے۔

٭ اپنا کردار سمجھنے اور اسے اپنانے میں کتنا وقت لگا؟
دیکھیے، ایک اچھے اداکار کی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے ڈرامے کے کیریکٹر میں مکمل طور پر ڈھل جائے اور اسے اپنے اوپر طاری کر لے۔ اسی صورت میں وہ کام یابی حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عورتوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اور برتاؤ عام بات ہے جب کہ وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔ مجھے یہ کردار حقیقت سے نہایت قریب معلوم ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اسے اپنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

٭ ماما جی کا کردار آپ کے ماضی کے کرداروں سے کس طرح مختلف ہے؟
یہ میرے کیریر کا جان دار کیریکٹر ہے اور ماضی میں مجھے اس قسم کا رول نبھانے کو نہیں ملا۔ ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے منفرد پرفارمینس دینے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ یہ ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے، جب کہ اس سیریل کی مضبوط کہانی بھی میرے لیے یادگار ثابت ہو گی۔

٭’’تلخیاں‘‘ کی ٹیم کے بارے میں اپنی رائے دیں؟
میرے تمام ساتھی فن کار اور اس سیریل کی پوری ٹیم بہت اچھی اور محنتی ہے، ان کے ساتھ کام کر کے مزہ آیا، طویل عرصے کے بعد مجھے کسی مضبوط ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس ڈرامے میں چند نئے چہرے بھی کام کررہے ہیں، جنھوں نے نہایت عمدہ پرفارمینس دی ہے۔ انھیں دیکھ کر یقین آتا ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ اس شو کے ڈائریکٹر خالد احمد ہیں اور وہ 20 سال کے بعد تلخیاں کی صورت میں ٹیلی ویژن کے لیے کسی بڑے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کر کے بہت خوشی محسوس کر رہی ہوں۔

٭ اپنے پرستاروں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
میں کہوں گی کہ ڈراما تلخیاں ضرور دیکھیں۔ یہ ایک منفرد اور شان دار ڈراما ثابت ہو گا اور آپ اسے ضرور پسند کریں گے۔ جہاں تک اس ڈرامے میں میرے کردار کی بات ہے تو ہمیشہ کی طرح میں نے اپنے مداحوں کا دل جیتنے اور عمدہ پرفارمینس دینے کی کوشش کی ہے، امید کرتی ہوں کہ میرا کردار آپ کو پسند آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔