ذلت سے کیسے اُٹھا جائے

غلام محی الدین  پير 26 نومبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

18 ستمبر کے دن کو چین میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

1931ء میں اسی دن جاپان کی شاہی فوج نے چین کے شمالی علاقے منچوریا پر قبضہ کر لیا تھا۔ شاید ہم پاکستانیوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ چینی قوم ہر برس 18 ستمبر کو اپنی اس شکست کی یاد مناتی ہے۔ منچوریا کے مرکزی شہر شن یانگ میں اس لڑائی کے ساتھ مخصوص ایک عجائب گھر بھی قائم ہے جس میں اس عبرتناک شکست کی نشانیاں محفوظ ہیں۔ 18ستمبر کے دن ہزاروں چینی باشندے بالخصوص نوجوان اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جاپان منچوریا کے اقتصادی فوائد پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے انھیں ہتھیانے کا خواہاں تھا۔ منچوریا میں مکڈن شہر کے قرب و جوار میں جسے آج شن یانگ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ بچھی ہوئی ریلوے لائن جاپان کی ساؤتھ منچورین ریلوے کے تصرف میں تھی۔

(1904-05ء) میں روس کے ساتھ جاپان کی جنگ معاہدہ پورٹس ماؤتھ کے ذریعے اختتام پذیر ہوئی تو چائنا فارایسٹ ریلوے کی چنگ چن اور لوشوان کے درمیان ریلوے لائن جاپان کو ٹھیکے پر دے دی گئی۔ جاپانی سپاہی اپنے علاقے سے باہر نکل کر چینی دیہات میں پہنچ کر من مانی کیا کرتے اور چینی حکومت کی شکایات کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ (چین کے احتجاج کی نوعیت بالکل ڈرون حملوں پر پاکستان کے احتجاج جیسی ہوا کرتی تھی)۔ جب چنگ کائی شیک حکومت نے صلاح مشورے کے بعد منچوریا پر اپنی عملداری کو سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو جاپانی فوجی افسروں نے اس ریلوے لائن کے قریب دو دھماکے کرا دیے جو اتنے بے ضرر قسم کے تھے کہ دھماکے سے کچھ دیر بعد ریل گاڑی صحیح سلامت وہاں سے گزر گئی۔ جاپانیوں نے پہلے ہی کُڈن میں اپنے آفیسرز کلب میں سوئمنگ پول بنانے کے بہانے کھدائی کر کے وہاں 9.2 انچ دھانے کی دو توپیں چھپا رکھی تھیں۔

دھماکوں کے اگلے روز یعنی 19 ستمبر کو ان بھاری توپوں نے چینی فوج کے قریبی ٹھکانے پر گولہ باری شروع کر دی۔ اس لڑائی کا سب سے زیادہ ذلت آمیز پہلو یہ تھا کہ صرف 500 جاپانی سپاہیوں نے اس چینی گیریژن پر دھاوا بولا جہاں 7 ہزار چینی فوجی تعینات تھے لیکن شام ہوتے ہوتے یہ چینی فوجی 500 لاشیں چھوڑکر پسپا ہو گئے۔ کُڈن پر قبضے کی اس لڑائی میں صرف دو جاپانی سپاہی ہلاک ہوئے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر جاپان نے منچوریا کے دیگر شہروں پر بھی قبضہ کر لیا اور پھر اگلے 14 برس تک چینیوں کو بدترین جاپانی جبر کا سامنا رہا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنی تذلیل کی تاریخ کو اس اہتمام کے ساتھ محفوظ کرنے سے کیا مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں؟۔ گزشتہ صدی میں ہمیں قومی تذلیل سے نمٹنے کی دو اہم مثالیں نظر آتی ہیں جو بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ فرانس اور چین وہ دو ملک ہیں جنھیں غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں بدترین ہزیمت اٹھانا پڑی۔ آج ان دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی ماضی میں ہونے والی اس تذلیل کے زیر اثر ترتیب پاتی ہے لیکن دونوں ملکوں نے اس تجربے کا بالکل مختلف انداز میں سامنا کیا ہے۔

19 ویں صدی میں مغربی طاقتوں کی چین میں دلچسپی عروج پر تھی۔ وہ چین میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم کرنا چاہتے تھے۔ برطانیہ نے اپنی روایتی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے ساتھ افیون کی تجارت شروع کی اور چینی معاشرے کو بربادی سے دو چار کر دیا۔ چین سے سرمایہ باہر منتقل ہو گیا۔ انتشار اور بے چینی حد سے بڑھ گئی۔ 1839ء میں چنگ حکومت نے افیون کی تجارت پر پابندی لگائی تو برطانیہ کے ساتھ جنگ لڑنی پڑی۔ اسے پہلی جنگ افیون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

چین یہ جنگ ہار گیا جس کے بعد چین پر بدترین ذلت اور رسوائی مسلط کر دی گئی۔ اسے ایسے تجارتی معاہدوں پر مجبور کیا گیا جو سراسر برطانیہ کے مفاد میں تھے۔ سزا کے طور پر 1842ء میں معاہدہ نین جنگ کے ذریعے ہانگ کانگ کو چین سے ہتھیا لیا گیا‘ چین پر برطانیہ کے ساتھ پسندیدہ ملک Most favoured nation کا اصول ٹھونس دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں چین کے کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی معاہدوں سے فوائد میں برطانیہ بھی شریک ہو گیا۔ 1851ء میں دوسری جنگ افیون نے چین پر برطانوی غلبے کو مزید تقویت دی اور وہ ایک نو آبادی بن کر رہ گیا۔ 1844ء میں برطانیہ نے معاہدہ وانگ پوا کے ذریعے امریکا کو بھی اس لوٹ مار میں شامل کر لیا اس معاہدے کے ذریعے امریکا کو بھی وہی تجارتی مراعات حاصل ہو گئیں جو برطانیہ کو حاصل تھیں۔

فرانس کی قومی تذلیل کی کہانی بھی طویل ہے۔1870ء میں پروشیا نے سلطنت فرانس کا خاتمہ کر دیا جسے یورپ کی مضبوط ترین ریاستوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ بات اس لیے بھی غیر معمولی تذلیل کا باعث تھی کہ فرانس نے خود پروشیا پر حملہ کیا تھا۔ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم میں بھی فرانس کو جرمنی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا تھا۔ اور اس نے فرانس کی قومی شناخت پر غیر معمولی منفی اثرات مرتب کیے۔ یہ شکست اس قدر غیر معمولی اثرات کی حامل تھی کہ فرانس کی افواج کی ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر نیک نامی پر ایک دھبہ تصور کی جاتی ہے۔ یہ شکست فرانس کے اندر سے نازی جرمنی کے ساتھ مجرمانہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی۔ فرانس نے اس تاثر کا مقابلہ جنگوں کی تاریخ کو اپنے حق میں لکھ کر کرنے کی کوشش کی۔ فرانس کے اپنے محقق یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے خود کو فاتح ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ فرانس نے اپنے لٹریچر اور تاریخ میں اسے حکمرانوں اور اشرافیہ کی غلطی کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ یوں لگتا ہے جسے فرانس کی معاشرت نے اس تذلیل کا علاج یہ تجویز کیا کہ ان حقائق کو نظر انداز کیا جائے۔ ان سے نظریں ہی نہ ملائی جائیں۔ فرانس کی مطبوعات اور تعلیمی نصاب میں یہی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور یہ حکمت عملی چین کی حکمت عملی کے بالکل برعکس ہے جس نے اپنی تذلیل سے نظریں چرانے کے بجائے اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا۔

اس تاثر نے فرانس کے شہریوں کے لیے شناخت کے بحران جیسی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ فرانس نے اس صورتحال کا سامنا اس طرح کیا کہ ان واقعات کاتذکرہ ہی ختم کر ڈالا۔ فرانس کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں اس دور کے صرف ان واقعات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں فرانس کی اخلاقی برتری کا اظہار ہوتا ہے۔ فرانس کے لیے یہ تدبیر اس لیے کام کر گئی کہ یورپی اتحادیوں نے فرانس کی اقتصادی حیثیت کو بحال کرنے میں مدد دی اور قوم نے محنت کر کے دنیا میں دوبارہ اہم مقام حاصل کرلیا۔

فرانس کا یہ جھوٹ اس لیے مؤثر ہے کہ فرانس ایک طاقتور ملک ہے۔ اقتصادی معاشی اور بین الاقوامی اثرورسوخ کے لحاظ سے اسے ایک اہم ملک تصور کیا جاتا ہے یوں اپنی قومی شناخت کی بحالی میں وہ کامیاب رہا۔ امور خارجہ میں اس کی رائے کا وزن ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے مستقل رکن کی نشست دے کر بھی اس کی حیثیت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا گیا۔

دیانت داری سے بات کی جائے تو ہم بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ہم بھارت سے 1971کی جنگ میں بدترین ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ سیاچن میں نو سو مربع میل کا علاقہ ہتھیا لیا گیا۔ کشمیر کے تنازع پر ہمیں مسلسل پسپائی کا سامنا ہے۔ ملک کے اندر ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں جو کھلی جنگ سے بھی زیادہ مہلک ہیں۔ ہم مسلسل امریکی حملوں کی زد پر ہیں اور تاثر یہ ہے کہ امریکا سے ملے ہوئے ہیں۔ لیکن قومی سطح پر کبھی بھی اس بات کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا کہ فکری سطح پر تذلیل کے احساس کا تدارک کیسے کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دی جائے کیونکہ ذہنی تبدیلی کے بعد ہی کسی حقیقی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ فرانس کا ماڈل ہمارے لیے کام نہیں کر سکتا۔ حالانکہ ہم کم وبیش غیر محسوس انداز میں اسی کی پیروی کر رہے ہیں اور یہ سب بغیر کسی پلاننگ کے ہو رہا ہے۔

جیسے دنیا کے طاقت ور ملک فرانس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے زور لگا رہے تھے‘ ہمارے لیے ویسا ماحول نہیں بلکہ صورتحال برعکس ہے۔ ہمارے قومی وقار کی بحالی کا راستہ چینی ماڈل میں ہے۔ ہمیں اپنی حالت کو اپنے عوام پر ظاہر کرنا چاہیے۔ اپنی تاریخ میں گزرنے والے کرداروں کے اصل چہرے قوم کے سامنے لانے چاہئیں۔ اہم واقعات کے پس پردہ محرکات اور شخصیات کے کردار کو سب کے سامنے پیش کر دینا چاہیے۔ تاریخ کے بدنما ادوار کو اسی طرح لوگوں کے سامنے رکھ دینا چاہیے جیسے چین کا شن ینگ عجائب گھر ہے۔ ہم اپنی اصل کو جان لیں تو شاید دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ ہو جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔