بے آواز بیس کروڑ انسان

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 2 جولائی 2016

سوال زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، ایک سوال جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے کہ آخر پاکستان کے عوام ملک کے سیاسی، سماجی، معاشرتی کے ساتھ ساتھ اپنے تمام معاملات سے اتنے لا تعلق کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ماتمی جلوسوں کے علاوہ ان کی آوازیں کیوں سنائی نہیں دیتی ہیں یہ بیس کروڑ انسان بے آواز کیوں ہوگئے ہیں، یہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیتے ہیں ، آخر ایسا اور کونسا ظلم اور ستم ان پر ہوگا کہ جب ان کی آوازیں لوٹ آئیں گی۔

خلیل جبران نے کہا تھا ’’ قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سرتن سے جدا کرنے کے لیے تلواراور لکڑی کے درمیان رکھا جاچکا ہو‘‘ ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب کے سب اپنے آپ سے ناراض ہیں یا اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں یا اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں ۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر آئیں مل کر اپنی آوازیں تلاش کرتے ہیں جو کہیں گم ہوگئی ہیں لیکن اس سے پہلے، پہلے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے ملک میں آج جو لوگ اختیارات کے مالک بنے ہوئے ہیں جو ملک اور قوم کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں یا جو اب تک فیصلے کرتے آئے ہیں وہ انسانی فطرت کی مکمل اوردرست ترین تفہیم ہی نہیں رکھتے ۔ وہ لوگوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

تفہیم اور ادراک کا یہ فقدان انھیں اعلیٰ تر ترغیبات، جوہر اور ذہانت کو بروئے کار لانے سے روکے رکھتا ہے، آج جب آپ انسانوں کو چیزوں کی طرح برتتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ وہ توہین محسوس کرتے ہیں اور الگ تھلگ ہوجاتے ہیں کام میں ذاتی دلچسپی نہیں لیتے وہ اعتماد سے محروم ہوجاتے ہیں آپ سے اجنبی ہوجاتے ہیں اور ملکی اور قومی معاملات میں سے اپنی ذات کو نفی کر دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے طور پر قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر سماج میں بے بسی ، بے حسی اور انتشار کے بھوت جنم لینا شروع کردیتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے بعد بھوتوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں پھر ایسے سماج میں انسان کم اور چاروں طرف بھوت ہی بھوت نظر آنے لگتے ہیں پھر شخصیات مضبوط تر ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔

قوم اور ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں یہ صورتحال ان شخصیات کے لیے آئیڈیل ہوجاتی ہے جو جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو ہمیشہ ملک اور قوم پر مسلط رکھنا چاہتے ہیں جو اپنے آپ کو ناگزیر اور ہر مسئلے کا حل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنے کے لیے یہ صورتحال پیدا کرنا ضروری ہے ۔ ’’آیے، ایک ہالی ووڈ فلم Max & Max کا تذکرہ کرتے ہیں جو اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ہے یہ ایک فکشن اسٹوری ہے، جس میں ایک میکس شکاری کتا اور دوسرا میکس نیا ملازم کسٹمر ز سروس کا نمایندہ ہے۔

اس کہانی میں ایک باس مسٹر ہیرالڈ ہے، جو اپنے ملازمین کے امور دیکھتا ہے۔ ہیرالڈ کا طرز عمل اپنے ملازمین کے ساتھ جن میں نیا ملازم میکس بھی شامل ہے ویسا ہی ہے جیسا وہ اپنے کتے میکس کے ساتھ روا رکھتا ہے اس فلم کا سیٹ ’’ کام کی جگہ ‘‘ ہے یاد رہے کہ ہر ایک کی کام کی اپنی جگہ ہوتی ہے طالب علموں ، اساتذہ اور ایڈمنسٹریٹرز کے لیے یہ اسکول، کالج ، یونیورسٹی ہوتی ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ ان کا کاروباری مقام ہوتا ہے سرکاری ملازمین کے لیے ان کے آفس کام کی جگہ ہوتے ہیں خاندانوں کے لیے ان کا گھر ، کسانوں کے لیے ان کھیت ، مزدوروں کے لیے ان کی ملیں، ان کے علاوہ بھی کچھ مقامات کام کی جگہیں ہوتی ہیں۔ مثلاً مسجد، مندر، چرچ ، چنانچہ یہ بات کام کے متعلق نہیں بلکہ انسانی تعلقات اوران افراد کے باہمی افعال کے متعلق ہے جو ایک مشترکہ مقصد میں بندھے ہوتے ہیں۔اس فلم کی کہانی کو ہر اس ماحول میں تلاش کیا جاسکتا ہے، جہاں آپ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ فلم کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ میکس ہم میں سے بہت سوں کی طرح جو ایک نئی ملازمت شروع کرتے ہیں ۔

جوش و جذبہ سے لبریز ہے جب وہ گاہکوں کو اپنی فرم سے متعارف اور مربوط کرنے کے لیے ازخود پیش قدمی کرتا ہے تو مسٹر ہیرالڈاس سے کچھ باتیں چھپا لیتا ہے۔ میکس کواس انداز میں کنٹرول اور بے اختیارکیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی بصیرت اپنی صلاحیتوں اور انتخاب کی آزادی سے محروم ہوجاتا ہے وہ اپنی آواز کھو بیٹھتا ہے وہ قسم کھالیتا ہے کہ اب اپنے طور پر کوئی قدم نہیں اٹھائے گاچنانچہ میکس اپنے باس کا دست نگر ہوجاتا ہے اور اب وہ میکس نامی کتے کی طرح ہر اگلے قدم کے لیے باس کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ ہیرالڈ کا رویہ مسٹرمیکس کے ساتھ بھی وہی ہے جو اپنے کتے میکس کے ساتھ ہے اور اس طرح کا توہین آمیز انتظام وبا کی طرح پوری کمپنی میں پھیلا ہوا ہے کمپنی کا ہر ملازم باس کادست نگر ہے ۔‘‘

بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز نہیں جسے ہانکا اور قابو کیا جائے ۔ قدیم دور میں انسانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے انھیں ہانکا اور قابو میں رکھا جاتا تھا پھر جیسے جیسے شعور ترقی کرتا چلا گیا تو انسان آزاد اورخود مختار ہوتا چلا گیا اور آج پوری دنیا میں انسان آزاد اور خود مختار ہے اسی لیے انسان خوشحال اور خوش و خرم بھی ہے ا ب وہاں کوئی بھی ہیرالڈ کسی دوسرے انسان سے اپنے کتے میکس کی طرح برتاؤ نہیں کررہا ہے اور نا ہی وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے اب اسے کیا کہا جائے کہ آج ہمارے ملک کے ہیرالڈ ملک کے بیس کروڑ انسانوں کو میکس سمجھتے ہوئے اسی طرح کا برتاؤ ان سے کررہے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیرکہ آج کے دور میں یہ رویہ اور برتاؤ برداشت کرنا نا ممکن ہے انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتا ۔

اگر ہمارے ہیرالڈوں کا یہ ہی رویہ اور برتاؤ اسی طرح سے اور جاری رہا تو پھر وہ ہی سب کچھ ہوگا جو فرانس، روس اوردیگر ممالک میں ہوچکا ہے۔ملک اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں جب اس کے عوام ملکی اور قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی اور حصہ لے رہے ہوں اور جب عوام ملکی اور قومی معاملات سے لا تعلق ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ملک انتہائی کمزور ہوجاتے ہیں یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتناہی ہمارے حق میں بہتر ہے ورنہ آسمان پر لکھاصاف نظر آرہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔