ماہ رمضان کے پروگرام

نسیم انجم  ہفتہ 2 جولائی 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بعض ٹی وی پروگرامزکی لامحدود آزادی نے پاکستانی قوم کے تشخص  کو مجروح کیا ہے،  کسی بھی معاشرے کی عکاسی ٹی وی پروگراموں کے ذریعے پوری دنیا میں ہو جاتی ہے، ٹی وی ڈرامے ہوں یا ٹاک شوز یا تفریحی، دینی اور معلوماتی پروگرام ہوں۔

ان کے پروڈیوسرز اگر علم و دانائی سے محروم اور دور اندیشی، اچھے برے کی تمیز سے نا آشنا ہوئے تب نوجوان نسل اور معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بے حیائی پروان چڑھی ہے، جو لوگ اپنے ملک کو اسلامی ملک قرار دیتے نہیں تھکتے وہ جانتے ہیں اس کی بنیاد لاالہ الااللہ کے مفہوم اور مقصد سے آراستہ ہے۔ اور اسی کلمے نے استحکام بخشا ہے تو ان کے سر جھک گئے ہیں، عریاں لباس میں ملبوس اداکاراؤں، ماڈلز کو دیکھ کر ہمیں ایسا ہرگز محسوس نہیں ہوتا ہے کہ یہ پاکستانی پروگرامز ہیں، یہ آزادی دورِ مشرف کی پیداوار ہے۔ آج کل ٹی وی چینلز پر ماہ رمضان کے حوالے سے مختلف پروگرام دکھائے جا رہے ہیں، یہ پروگرام افطار سے پہلے شروع اور افطارکے بعد اختتام کو پہنچ جاتے ہیں، اس طرح جو عبادت کا ٹائم اور دعاؤں کی مقبولیت کا وقت ہے وہ ان پروگراموں کی نذر ہو جاتا ہے۔

آج کل ہر شخص غربت، بیماری، بیروزگاری اور ناانصافی کی وجہ سے پریشان ہے، پانی جیسی نعمت سے محروم بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بیزار، اغوا قتل و غارت جیسی فضا سے غمزدہ عدم تحفظ اور خوف و ہراس سے دل برداشتہ اور بے سکون۔ افسوس کہ ان مسائل کے حل کے لیے اس ماہ مقدس میں اپنے رب سے دعائیں اور استغفار کا ورد کیا جاتا، محض تھوڑے سے فائدے کے لیے اس قیمتی وقت کو گنوا دینا دانشوری تو نہیں۔ مجال ہے ان پروگراموں میں کوئی ڈھنگ کی بات کی جاتی ہو، علمی مباحثہ ہوتا ہو، قرآن و احادیث کی روشنی میں زندگی بسرکرنے کے بارے میں اصولوں سے مستفید کرنے کی راہیں ہموار کی جاتی ہوں۔

ہمارا ملک تخریب کاروں اور دہشتگردوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، بھارت دشمن ہے، افغانستان  کی طرف سے آئے دن چھیڑخانی ہوتی رہتی ہے، شام میں قیامت کا منظر ہے، دنیا بھر کے مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں، ہزاروں معصوم بچوں کو دربدر اور موت کی گود میں سلا دیا گیا ہے، ایسے سنگین اور قابل غور واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اس طرح کے پروگرام قوم کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔ ’’رمضان‘‘ کا لفظ چسپاں کر کے گویا اس ماہ کے تقدس کو پامال کر دیا گیا ہے۔

سوچیے ذرا کیا  مختلف کھیل کھلوا کر پروڈیوسر اور میزبان کون سا سبق ماہ رمضان کی مناسبت سے دینا چاہتے ہیں۔ قوم کو مشکلوں سے نکالنے کے لیے دوسروں کی نقالی کرنے سے کیا مسائل حل ہو جائیں گے؟ ان پروگراموں میں شرکا کی اکثریت عزت نفس سے محروم نظر آتی ہے، رہی سہی کسر میزبان حضرات تحفے تحائف کی ادائیگی کرتے وقت ان کی غیرت پر ضرب لگا کر پوری کرتے ہیں لیکن ان حضرات کو قطعاً شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ ڈھٹائی سے مزید مال و اسباب کے طلب گار ہوتے ہیں کیا یہ قیمتی یا معمولی چیزوں سے ان کی زندگی مسرت و سکون سے بھر جائے گی۔

ان کی غربت و افلاس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اور اللہ اور اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل ممکن ہوگی، اگر ایسا ہے تو پھرکامیابی کے حقدار ٹھہرے، اگر جواب نفی میں ہے تو دین و دنیا خراب ہوئے اور عزت وناموس جیسی دولت سے دورکردیے گئے اور رسوا ہوئے اپنے پرایوں میں۔

دوسرے ملکوں میں بھی پاکستانی پروگرام دیکھے جاتے ہیں وہ لوگ کیا سوچتے ہوں گے کہ چند ٹکوں میں یہ لوگ کتنی آسانی سے فروخت ہوجاتے ہیں، پھر ایسی قوم کو کیوں نہ وہ پیروں تلے کچلیں، سوچیں اور غورکریں کیا امریکا، برطانیہ، ہندوستان اور دوسرے ممالک میں مذہبی تہوار نہیں منائے جاتے ہیں؟ منائے جاتے ہیں ناں، تو کیا وہ اپنے مذہب کا اس طرح مذاق اڑاتے ہیں، لوگوں کو ہنسنے کے مواقعے فراہم کرتے ہیں، جواب اگر نفی میں ہے، تو  جناب انھیں اپنی قوم، اپنے مذہب سے محبت ہی نہیں بلکہ عقیدت بھی ہے۔

ہمارے ہاں تو رمضان میں ایسے ایسے ڈرامے دکھائے جاتے رہے ہیں، جہاں روزے دار بڑی آسانی اور بغیر کسی شرمندگی کے روزہ توڑ دیتے ہیں، عدت کے معنی سے ناواقف، بلکہ سونے پر سہاگہ زیادہ تر ڈراموں کی ہیروئنوں کو صرف اپنا بہنوئی نظر آتا ہے کوئی دوسرا نہیں، اپنی بہن کا گھر بھی اجاڑتی ہے اور گناہ کبیرہ کی بھی مرتکب ہوتی ہے لیکن اکثر کو معلوم ہی نہیں کہ حلال اور حرام میں کیا فرق ہے۔

بس بنا سوچے سمجھے یا تفنن طبع کے لیے انسانیت کا جنازہ دھوم دھام سے نکالتے ہیں، غیر لوگ، غیر قوم، غیرمذہب اسلام کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہوں ان کی بلا سے۔ خیر اس بات سے قطع نظر عاقل وبالغ لوگ بھی موجود ہیں، جو قرآن پاک کے مفہوم کواچھی طرح سمجھ کر مسلمان ہوجاتے ہیں۔ آج دنیا میں ہزاروں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں، وہ صرف اورصرف قرآن فہمی کے نتیجے میں اپنے مذہب کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو روح کی گہرائیوں میں اتار لیتے ہیں۔

اورایک ہم جو نسلاً پشت درپشت مسلمان ہیں، ہمارے اعمال کیا اس قابل ہیں کہ ہم فخرکریں کہ الحمد اللہ ہمیں اللہ نے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ہے، اب ہمیں دوسروں کوآگاہی پہنچانے کے لیے وہ کام کرنے ہیں جن کے کرنے سے معاشرہ روشنی کی طرف سفر کرتا ہے لیکن ہماری بداعمالیوں کے نتیجے امجد صابری جیسے قوال دن دہاڑے شہید کردیے جاتے ہیں۔

امن وآتشی کے لیے حقوق کی ادائیگی اور اخلاق کی بلندی کو اپنائیں نہ کہ روزوں کا بھی اہتمام کریں اورنمازیں بھی پڑھیں اور ساتھ میں اپنے پروگراموں کا نصف حصہ کچھ اچھی باتوں اور نصف حصہ گانوں کے لیے مختص کردیا جائے۔ ماہ رمضان میں نغمہ وموسیقی کا جال بچھا کر اپنے شرکا کو قیدکرلینا، جادوگرکا کمال ہے یہ کسی عالم کا نہیں۔ مغرب کو مسلمانوں کی یہی ادائیں تو پسند ہیں، اسی لیے ایسے لوگ ان کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں جنھیں انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے۔ ایسی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

اب وہ وقت ہے کہ جب اصلاح معاشرہ کے پہلو کو کوئی مد نظر نہیں رکھتا ہے اسی لیے جنگل اور شہر کی فضا ملی جلی ہوگئی ہے ،کسی زمانے میں نیلام گھر کو بے حد مقبولیت حاصل تھی،  جو دانش کدہ کا درجہ رکھتا تھا،  معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اور اہم شخصیات سے ملاقات بھی ناظرین کی تسکین و خوشی کا باعث تھی اور پھر طارق عزیز کا صوفیانہ اور درویشانہ انداز تکلم دلوں کو بھاتا تھا۔ لیکن آج سب کچھ الٹ ہوگیا ہے اس طرح کے پروگرام پاکستان اور پاکستانیوں کے وقار کو مجروح کرتے ہیں کہ یہ ساری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی عزت وغیرت کو ہرگز نیلام نہیں کرتی ہیں، اگر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہیں ، تب قومی  اور ملی تشخص کی حفاظت ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔