ناشائستگی بھی اور مسلم دشمنی بھی!

تنویر قیصر شاہد  پير 4 جولائی 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارتی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھارتی مسلمانوں سے جتنی محبت ہے، یہ ہم سب پر بخوبی الم نشرح ہے۔ مگر سیکولرازم کا بھرم رکھنے، رسمِ دنیا نبھانے اور ایک عالم کو یہ دکھانے کے لیے کہ بھارتی حکمران اپنے وطنی مسلمانوں کے مذہبی تہواروں اور مقدس ایام کا بھرپور احترام کرتے ہیں، گزشتہ کئی عشروں سے بھارتی صدور اور وزرائے اعظم ہر سال ماہِ صیام میں اپنے ہاں افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین بھارتی مسلمان شخصیات کو خصوصاً مدعو کیا جاتا ہے اور بھارت میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں کو بھی۔

ممتاز ہندو، سکھ اور مسیحی رہنما بھی اس افطار ڈنر میں شریک ہوتے ہیں اور اسے ایک بڑی اعزازی تقریب کا مقام حاصل رہا ہے۔ ہر سال دلّی میں بھارتی صدر اور وزیراعظم کی طرف سے دی گئی افطاری کئی روز تک سماجی، سیاسی اور ثقافتی گپ شپ کا موضوع بنی رہتی ہے کہ اس بار کن کن نامور اور نمایاں شخصیات نے اس تقریب میں شرکت کی۔ بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد سے لے کر موجودہ بھارتی صدر جناب پرنب مکھرجی تک اور پہلے بھارتی وزیراعظم جناب جواہر لال نہرو سے لے کر پچھلے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک، تمام صدور اور وزرائے اعظم اس متنوع مذہبی ہم آہنگی کی حامل تقریب میں خود بھی شامل رہے ہیں اور اس کے مہمان بھی۔

مگر نریندر مودی بھارت کے اخلاقیات سے عاری پہلے ایسے وزیراعظم ہیں جو گزشتہ مسلسل دو سال سے نہ تو خود اپنے ہاں افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں نہ انھوں نے اپنے صدر صاحب کی طرف سے دئیے گئے افطار ڈنر میں شرکت کی ہے۔ بھارت بھر کے سیاسی اور سماجی حلقوں ہی میں اس بارے میں تشویش نہیں پائی جا رہی بلکہ نئی دہلی کے مسلمان سفارتی حلقوں میں بھی اسے سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ حرکت نریندر مودی کی بیہودگی کو بھی ظاہر کرتی ہے اور ان کے مسلم دشمن جذبات کی بھی ترجمان ہے۔

مودی جی نے اب تیسری بار پھر مسلمانوں کے اعزاز میں دئیے گئے گرینڈ افطار ڈنر میں دانستہ شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یکم جولائی 2016ء بروز جمعۃ المبارک، جب کہ رمضان المبارک کی 25 تاریخ تھی، بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) میں ایک گرینڈ افطار ڈنر کا اہتمام تو کیا مگر وزیراعظم شریک ہوئے نہ دلّی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ۔ جنگ صاحب نے تو اپنے وزیراعظم کے نقشِ قدم پر چلنا تھا۔ نریندر مودی کی اس ناشائستہ حرکت سے بیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کی دل شکنی اور توہین تو ہوئی ہی ہے، بھارتی صدر بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ہیں۔

نریندر مودی یہ ناپسندیدہ حرکت 2014ء اور 2015ء میں بھی کرچکے ہیں۔ 2014ء میں تو انھوں نے یہ بہانا بنایا تھا کہ وہ صدرِ ہند کی طرف سے دئیے گئے افطار ڈنر میں اس لیے شرکت کرنے سے معذور ہیں کہ بیرونِ ملک دَورے پر جارہے ہیں۔ اگر وہ چاہتے اور ان کے دل میں بھارتی مسلمانوں کے لیے ذرا سا بھی احترام و اکرام ہوتا تو بیرونِ ملک روانگی سے قبل تھوڑی دیر کے لیے تقریب میں آسکتے تھے لیکن ان کے پیشِ نظر تو دراصل بھارت کی متعصب ہندو جماعتوں کو خوش کرنا اور انھیں یہ بتانا تھا کہ دیکھا، مَیں مسلمانوں کے ساتھ افطاری میں شریک نہیں ہوا۔

اگلے برس، 2015ء میں، بھی صدرِ ہند کی طرف سے دئیے گئے افطار ڈنر میں مودی جی پھر شریک نہ ہوئے۔ اس بار یہ بہانا بنایا کہ وہ چونکہ دلی میں نہیں ہیں اور دلی سے دور ایک شہر میں بھارت کے تمام وزرائے اعلیٰ کی پہلی اجتماعی میٹنگ لے رہے ہیں، اس لیے شرکت نہ کرسکیں گے۔ مودی جی کی خوشنودی اور ہندو مزاج کے عین مطابق اگرچہ راشٹر پتی بھون نے خصوصی کھانے تیار کروائے تھے۔ ان میں سبزی ترکاری سے تیار کردہ بریانی سرِفہرست تھی جو مبینہ طور پر مودی صاحب کو بہت پسند ہے لیکن صاحب آئے ہی نہیں۔ انھوں نے دوسری بار جان بوجھ کر بھارتی مسلمانوں کی توہین کی۔ یہ ان کے تکبر و نخوت اور مسلم دشمنی کی بدترین مثال ہے۔ اور اس بار، یکم جولائی 2016ء کو، مودی جی دلّی میں ہونے کے باوجود بھارتی صدر کے افطار ڈنر میں پھر شریک نہیں ہوئے ہیں، وہ تیسری بار اس بدتمیزی اور بیہودگی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

بھارتی میڈیا، ڈی این اے، کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے یہ کہہ کر افطار میں شرکت کرنے سے انکار کیا ہے کہ وہ اس طرح کے مذہبی Symbolism پر یقین نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کا دورہ کرتے ہوئے اگر کیرالہ کی قدیم ترین مسجد (چیرامن جمعہ مسجد) کا طلائی ماڈل بنوا کر فرمانروائے سعودیہ کو پیش کرکے Symbolism نبھا سکتے تھے اور اگر مودی جی دَورہ ایران میں ایرانی صدر اور سپریم لیڈر کو مبینہ طور پر حضرت علیؓ کے دستِ مبارک سے لکھے گئے قرآنِ شریف کی نقل اور دیوانِ غالب کا ایک قدیم نسخہ پیش کرکے Symbolism کی روایت آگے بڑھا سکتے تھے تو کیا وہ بھارتی مسلمانوں کے اعزاز میں دئیے گئے افطار ڈنر میں شرکت کرتے ہوئے ’’سمبل ازم‘‘ کا عملی اظہار نہیں کرسکتے تھے؟

یکم جولائی 2016ء کو بھارتی صدر کے افطار ڈنر میں اگرچہ بھارت کے دیگر بڑے بڑے سیاسی لیڈر بھی شریک ہوئے اور مسلمان سفیر بھی۔ اس میں نائب صدر حامد انصاری بھی تشریف لائے اور اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی اور ان کا بیٹا راہول گاندھی بھی۔ بھارتی اقلیتوں کے وزیرِمملکت مختار عباس نقوی بھی آئے اور وزیرخزانہ ارون جیٹلی بھی۔ بھارتی سینیٹ (راجیہ سبھا) میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد بھی مدعو تھے اور کمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مرکزی صدر سیتا رام یچری بھی آئے۔ دلّی کے معروف وزیراعلیٰ اروند کجریوال بھی وہیں تھے اور سابق وزیراعلیٰ دلّی شیلا ڈکشٹ بھی موجود تھیں۔

مگر جس روایت کو نہرو، اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ ایسے وزرائے اعظم نبھاتے رہے اور بھارت کے سابقہ سولہ صدور بھی (سوائے عبدالکلام کے، جو اسے ’’فضول خرچی‘‘ پر محمول کرتے تھے) اب اس روایت کی بے حرمتی کرکے نریندر مودی نے مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے تمام مسلمان بھی مودی کے اس اقدام پر خود سے سوال کررہے ہیں کہ کیا یہی نریندر مودی ’’صاحب‘‘ ہیں جنھیں افغانستان ایسے مسلم ملک میں سب سے بڑے اعزاز ’’امان اللہ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا؟ کیا بھارتی مسلمانوں کی اجتماعی بے عزتی کرنے والے یہی وہ بھارتی وزیراعظم ہیں جنھیں دورہ سعودی عرب میں مملکتِ سعودیہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا؟ کیا بھارت کے ایسے وزیراعظم کو ایران کی روحانی لیڈر شپ اور منتخب حکومت کی طرف سے زبردست عزت دی جانی چاہیے تھی؟

کیا متحدہ عرب امارات کے حکمران کی طرف سے مودی ایسے مسلم دشمن بھارتی وزیراعظم کی توقیر کرتے ہوئے اسے بھارت میں چھیاسی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی خوشخبری دینی چاہیے تھی؟ اب جب کہ نریندر مودی کی اس دل شکن حرکت کی وجہ سے انھیں بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، بھارتی وزیراعظم کے ترجمان کی طرف سے تازہ اعلان کیا گیا ہے کہ چند روز بعد آے والی عیدالفطر کے موقع پر مودی جی بھارتی مسلمانوں کو خصوصی تحائف دیں گے۔ بھارتی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے نریندر مودی کی طرف سے ابھی یہ اعلان نہیں کیا گیا ہے کہ یہ ’’تحائف‘‘ کیا ہوں گے؟ بھارتی مسلمان مگر جانتے ہیں کہ یہ ’’تحائف‘‘ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے سے زیادہ اہمیت کے حامل نہ ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔