’کے الیکٹرک‘ ’مرض‘ یا ’مرض کی دوا‘؟

کاشف نصیر  پير 4 جولائی 2016
’کے الیکڑک‘ کا مسئلہ اسکا سرکاری یا نجی شعبے میں ہونا نہیں ہے بلکہ اسکا اصل مسئلہ اسکے اعلیٰ افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے۔

’کے الیکڑک‘ کا مسئلہ اسکا سرکاری یا نجی شعبے میں ہونا نہیں ہے بلکہ اسکا اصل مسئلہ اسکے اعلیٰ افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے۔

’کے الیکڑک‘ کی نجکاری کے بعد اگر کہیں کوئی واضح تبدیلی دیکهنی ہو تو ایک اس کے اعلیٰ افسران کا روز بروز بڑهتا ہوا شاہانہ انداز ہے، اور دوسرا نام کی تبدیلی۔ دوسری طرف شدید گرمی ہو یا رواں ماہ مبارک میں 33 ملی لیٹر بارش، ’کے الیکڑک‘ عام صارفین کے لئے بدستور اسی طرح درد سر ہے جیسے 10 سال قبل بطور سرکاری ادارہ تهی۔ بارش کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے لیکن کئی علاقے بدستور متاثر ہیں۔ کہیں بجلی غائب ہے تو کہیں والٹیج 180 پر دهرا ہے اور کہیں سڑک کے بیچ و بیچ ننگے تار اہلیان کراچی کی بے بسی کا مذاق اڑارہے ہیں۔ فیڈرز ٹرپ ہونے کا معاملہ بهی کم باعث تشویش نہیں ہے، سال میں کئی بار پورا پورا شہر ان نازک اندام فیڈرز کی بدولت اندهیرے میں ڈوب جاتا ہے۔

ایک طرف تو ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات سے لیکر مختلف سیمینارز تک تو کنڈا سسٹم کے خلاف کارروائیوں کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف ہیلپ لائنز پر لاتعداد شکایتوں کے باوجود عملے کی ملی بهگت سے بجلی چوری کا کاروبار جاری و ساری ہے۔ یعنی ایماندار صارفین تو زیادہ بل کے خوف سے اپنے اضافی پنکهے بهی نہ کهولیں اور چور مزے سے ائیر کنڈیشن کی ٹهنڈی ہواؤں میں خواب خرگوش کے مزے لیں۔ اس سے بهی بڑھ کر ’کے الیکٹرک‘ خود چائنہ کٹنگ، کچی آبادیوں، تجاوزات اور بغیر لیز کے مکانات کو ’’کنڈا کنیکشن‘‘ فراہم کررہی ہے۔ اس طرح یہ صارف ایک مقرر رقم ادا کرکے جتنی مرضی چاہیں بجلی استعمال کرسکتے ہیں۔

ایک دوسری ناانصافی لوڈ شیڈنگ کے غیر مساویانہ اوقات کار ہیں۔ ادارہ کہتا ہے کہ جس علاقے میں انکی وصولی زیادہ ہے وہاں لوڈشیڈنگ کم ہوگی، جہاں وصولی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوگی اور جہاں وصولی برابر ہے اس علاقے کو لوڈ شیڈنگ سے استشنیٰ حاصل ہوگا۔ اس طرح آپ ان صارفین کو خوامخوا نشانہ بنارہے جو خود تو ایمانداری سے بجلی استعمال کررہے ہیں لیکن ان کے محلے یا علاقے کے کچھ افراد چوری میں ملوث ہیں۔ اگر کسی علاقے میں بجلی چوری ہورہی ہے یا وصولی کم ہے تو اسکے ذمہ دار اس علاقے کے تمام صارف کیسے ہوگئے؟ ذمہ داری تو بہرحال ’کے الیکڑک‘ پر بحثیت ادارہ، اسکے نااہل اور بدعنوان عملے پر بحثیت معاون اور ملوث صارفین پر بحیثیت چور عائد ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک ایماندار صارف کا کیا قصور ہے کہ اسکے علاقے یا محلے کے ساتھ کچھ چائنہ کٹنگ اور کچی آبادیاں ملحق ہیں، جنہیں خود ’کے الیکڑک‘ نے کنڈا کنیکشن فراہم کر رکها ہے یا یہ کہ اس کےعلاقے میں کچھ میٹر خراب اور پرانے ہیں۔

لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں پیپلزپارٹی دور یوں کسی حد تک بہتر تها کہ حکومت نے اتوار اور تعطیل کے ایام کو لوڈ شیڈنگ سے مستشنیٰ قرار دے رکها تها۔ لیکن اب لوڈ شیڈنگ کے اس نئے ڈهنگ کے بعد چهٹی کے دن بهی عام دنوں کی طرح ہی بجلی بند کی جاتی ہے۔ اس سے بهی بڑھ کر پچهلے چند ماہ سے رات 12 بجے کے بعد بهی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی حالانکہ چند سالوں قبل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حکم پر رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ پر مکمل پابندی تهی۔

’کے الیکڑک‘ کا اہم مسئلہ اسکے میٹرز بهی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ جس طرح تمام شہر میں بجلی کے نرخ یکساں ہیں اسی طرح میٹرز بهی یکساں ہوں۔ لیکن آپ کو جابجا مختلف قسم کے میٹرز نظر آئیں گے۔ کہیں 40 سال پرانے میٹر ہیں تو کہیں اینالوگ، کہیں جدید ڈیجیٹل میٹر ہیں تو کہیں دوسرے۔ یہ مختلف قسم کے میٹرز ایک ہی قسم کی ریڈنگ نہیں دیتے بلکہ بعض اوقات ایک ہی قسم کے میٹر بهی مختلف ریڈنگ دیتے نظر آتے ہیں۔ سونے پر سہاگا ’کے الیکڑک‘ کا انتظامی طریقہ کار بهی ہے۔ ہر زون کے ایم ڈیز کو زیادہ سے زیادہ وصولی پر اضافی بونس اور مراعات دی جارہی ہیں، جن کے حصول کے لئے یہ ایم ڈیز انسانیت فراموش کرچکے ہیں۔ جو صارف انکے ہتھے چڑهتا ہے، یہ اسکو بلی کا بکرا بنا کر پورے محلے کی چوری اسکے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر کسی صارف کے یہاں پرانا میٹر لگا ہوا ہے یا اسکا میٹر خراب ہوجاتا ہے، اب ’کے الیکڑک‘ اس صارف کو ہر دوسرے تیسرے مہینے ’’اے ایس ایس ڈی‘‘ کے عنوان سے من مرضی کا بل جاری کردیتا ہے۔ بے چارہ صارف جب شکایت لیکر پہنچتا ہے تو اسے اضافی بل کی تفصیل اور بریک اپ دینے کے بجائے، قسطیں تهما دی جاتی ہیں۔

’کے الیکڑک‘ میں بدعنوانی بهی اپنے عروج پر ہے، بااثر افراد کو رشوت دیکر یا سفارش حاصل کرکے تو آپ بل کم کروا سکتے ہیں لیکن فیکٹ اینڈ فیگرز کی بنیاد پر ادارے کو چیلنج کرکے اضافی بل سے خلاصی حاصل نہیں کرسکتے۔ لائن مین سے لیکر میٹر ٹیکنیشن اور ایم ڈی زون سے لیکر سینٹر بلنگ آفس تک ہر جگہ رشوت کا بازار اور سفارش کی ریت عام ہے۔

’کے الیکڑک‘ کسی مسئلے پر خود کو جوابدہ نہیں سمجهتی ہے، خاص طور پر ’’اے ایس ایس ڈی‘‘ بلز کے معاملے میں آپ ان سے سوال و جواب نہیں کرسکتے۔ جو بل بن گیا، خاموشی سے ادا کریں۔ بدقسمتی سے حکومت نے کوئی ایسا سہل نظام ترتیب نہیں دیا ہے جہاں صارفین ’کے الیکڑک‘ کے خلاف ناجائز بلنگ کے کیسز لے جائے جاسکیں۔ چند سال قبل جب میں خود زائد بلنگ کا شکار ہوا تو ’کے الیکڑک‘ کے رویے سے تنگ آکر میں نے قانونی کارروائی کی کوشش کی۔ صوبائی اور وفاقی محتسب نے یہ کہہ کر واپس بهیج دیا کہ وہ کسی نجی ادارے کی شکایت نہیں سن سکتے، پهر کئی روز سندھ سیکرٹریٹ کا چکر لگانے کے بعد کہا گیا کہ وفاقی ادارے کی شکایت کے لئے پاکستان سیکرٹریٹ کا رخ کریں۔ بڑی مشکل سے پاکستان سیکرٹریٹ تلاش کرکے انسپیکٹر جنرل ’کے الیکٹرک‘ کے دفتر پہنچا تو انہوں نے جس قدر طویل اور مشکل راستہ تجویز کیا، اسکا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب متاثرہ صارف نوکری چهوڑ کر اسی کام پر لگ جائے۔

معمول کی شکایتوں کے نظام کا بهی حال یہ ہے کہ کہنے کو تو جناب کال سینٹر اور سوشل میڈیا پر بڑے نرم گفتار پروفیشنل نوجوان بیٹهائے ہوئے ہیں لیکن برسرِ زمین کوئی والی وارث نظر نہیں آتا۔ اگر کسی صارف کا مین لائن سے جمپر ڈهیلا ہے، وولٹیج کا مسئلہ ہے، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہے یا کہیں کوئی تار ٹوٹ گیا ہے تو وہ کمپلین لائنز پر شکایتیں کرتا رہ جائے گا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ کسی نجی الیکٹریشن کو پیسے دیکر اپنا مسئلہ خود حل کروائے۔ جس طرح ہم پی ٹی سی ایل میں کمپلین لائنز کی خود کار فالونگ کا نظام دیکهتے ہیں، ’کے الیکڑک‘ اس سے کوسوں دور ہے۔

’کے الیکڑک‘ کا مسئلہ اسکا سرکاری یا نجی شعبے میں ہونا نہیں ہے بلکہ اسکا اصل مسئلہ اسکے اعلیٰ افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نجکاری کے معاہدے کی روح کے عین مطابق ادارے کے معاملات پر نظر رکهیں اور ملازمین کے حقوق کے ساتھ ساتھ کچھ توجہ صارفین کے حقوق پر بهی دیں۔ اس ضمن میں نظام کو اپ ڈیٹ نہ کرنے، صارفین کے درمیان عدم مساوات، ناجائز بلنگ اور ظالم لوڈ شیڈنگ کے باب میں کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس کے علاوہ ’کے الیکڑک‘ کے خلاف عوامی شکایت کے ازالے کے لئے ایک بااختیار اور متحرک ادارے کا قیام بهی وقت کی اشد ضرورت ہے۔

’کے الیکٹرک‘ کے حوالے سے بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

کاشف نصیر

کاشف نصیر

مصنف اردو بلاگر ہیں اور سوشل میڈیا پر اردو زبان کے فروغ کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔