روزہ ہمارا فریضہ افطاری ہمارا کلچر

ایکسپریس اردو  پير 23 جولائی 2012
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

لیجیے رمضان المبارک کی سواری باد بہاری آن پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی چاند نے بھی اپنا جلوہ دکھانا شروع کر دیا۔ اب تک وہ کہاںسویا ہوا تھا۔ ویسے تو ہجری کیلنڈر اسی کا مرہون منت ہے۔ مگر باقی مہینوں میں وہ اپنی نمود ایسی ضروری نہیں سمجھتا۔ بس وہ ایک مہینے کے لیے اس شان سے نمودار ہوتا ہے کہ چاند چڑھے کل عالم دیکھے۔ رمضان کی چاند رات سے عید کی چاند رات تک ہم اس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

یہ وہ ایام ہوتے ہیں یا یہ وہ شامیں ہوتی ہیں جب خلقت اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب ہوتی ہے۔ اور انھیں شاموں میں وہ خلقت کو بہت انتظار کرا کے اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ انتظار کرنے والوں کا اصرار ہوتا ہے کہ اسے اپنی دید 29 کی شام کو کرا دینی چاہیے۔ اور یہی وہ شام ہوتی ہے جب اسے اپنی اہمیت جتانے کا موقع ملتا ہے، اس لیے وہ دیدۂ بینا کو بھی اس طرح نظر آتا ہے کہ دیکھنے والا حیران ہو کر سوچتا ہے کہ وہ نظر آیا بھی تھا یا نہیں۔

نئے زمانے کی ایجادات پر ایمان رکھنے والے معترض ہیں کہ اب چاند کو آنکھ سے دیکھنا چنداں ضروری نہیں ہے۔ کیا ضروری ہے کہ خلقت اونچی چھتوں پر چڑھ کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے کہ چاند کہاں ہے

کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے

جدید حساب کتاب کو اپنائو۔ چاند رات سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ چاند 29، اور 30 کی شاموں میں سے کونسی شام کو طلوع ہوتا ہے۔ ارے بھائی اسی قسم کی سائنسی دریافتوں اور ایجادوں نے آدمی اور فطرت کے بیچ عہد قدیم میں جو جیتا جاگتا رشتہ تھا اسے فنا کر دیا۔

بقول ڈی ایچ لارنس اب چاند سورج ستارے اور آسمان ہمارے لیے مردہ حقیقتیں ہیں۔ قدیم انسان کے لیے وہ جیتی جاگتی حقیقتیں تھیں۔ خیر مغرب کی حد تک تو یہ بالکل صحیح بات ہے۔ مگر مشرق ابھی پوری طرح جدید نہیں بنا ہے۔ عناصر فطرت کے بارے میں آدمی کا قدیمی تجربہ کسی حد تک آج بھی جوت جگاتا ہے۔ چاند ہی کی مثال لے لو۔ کم از کم رمضان اور عید کے ایام میں چاند ہمیں ایک زندہ وجود کے طور پر اپنے سے کتنا قریب نظر آتا ہے۔ اسی سے تو وہ انسانی ڈرامہ جنم لیتا ہے جسے ہم چاند رات کہتے ہیں۔ عید سے پہلے جو چاند رات آتی ہے وہ خود اپنی جگہ پر ایک تہوار کی شان رکھتی ہے۔

یہ جو سال کے سال مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ چاند 29 کو نظر آیا تھا یا نظر نہیں آیا تھا۔ اسی تجسس نے رمضان اور رمضان سے بڑھ کر عید کی تقریب میں کتنی کشش، کتنی گہما گہمی، کتنی رنگارنگی پیدا کر دی ہے۔

خیر عید ابھی دور ہے۔ درمیان میں انتیس تیس روزے ہیں یعنی انتیس تیس افطاریاں اور انتیس تیس سحریاں۔اس کا مطلب ہے ایسے تہوار کا آغاز جو انتیس تیس شاموں اور شبوں کی گہما گہمی میں ہمیں غرق رکھے گا۔

روزہ دینی فریضہ ہے۔ افطاری کلچر ہے۔ پہلے افطاری پھر اس کے بعد سحری۔ دونوں کی اپنی اپنی روایات ہیں اور اپنے اپنے ذرایع ہیں۔

روزہ تو خیر ہوا۔ مگر یہ روزہ کشائی کیا ہوتی ہے۔ اور روزہ خوری کسے کہتے ہیں۔ لیجیے روزہ کشائی پر داغ کا ایک شعر سنیے

قسمت ہی میں زاہد کے ہیں دن رات کے فاقے

کیا پیر مغاں روزہ کشائی نہیں دیتا

روزہ کھولنا یا روزہ افطار کرنا، لیجیے اس پر بھی ایک شعر سن لیجیے

دیتا نہیں ابر رحمت ایک جرعۂ آب

افطار کرے زمین کیونکر روزہ

افطار خور کسے کہتے ہیں، یہ مت پوچھو۔ یہ وہ لوگ ہیں جوروزے سے جان چراتے ہیں اور افطار کے وقت روزہ داروں سے بڑھ کر روزہ دار نظر آتے ہیں۔

روزہ کیوں نہیں رکھا۔ اس کے لیے روزہ خوروں کے پاس سو بہانے ہیں۔ شاعری میں سب سے بڑھ کر بہانہ بازی غالب نے کی ہے۔ دیکھیے کیا خوب بہانہ روزہ نہ رکھنے کا تراشا ہے

روزہ مرا ایمان ہے لیکن غالب

خس خانۂ و برفاب کہاں سے لائوں

خس خانے کی جگہ اب اے سی تصور کیجیے۔ اے سی کی ٹھنڈک برحق۔ مگر خس کی خوشبو خس کے پردوں کے ساتھ چلی گئی۔

ایسے فرائض کے سلسلہ میں بہانہ تراشنے میں غالب نے بہت ہنر دکھایا ہے۔ ایک بہانہ آپ نے سنا۔ اب دوسرا بہانہ سنیے۔ یہ پہلے سے بڑھ کر ہے

افطارِ صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو

اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

ہاں یہ روزہ اچھلنا کیا ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ کیا ہوتا تھا۔ اب یہ محاورہ مشکل سے کسی کی زبان پر آتا ہے۔ روزے میں اگر کوئی جھنجھلا کر بات کرتا تو بڑی بوڑھیاں کہتیں کہ اس بی بی کا روزہ اچھل رہا ہے۔

اہل تقویٰ کس پابندی سے روزہ رکھتے ہیں۔ رہا افطار کا معاملہ تو وہ سیدھے سچے روزہ دار بھی ہوتے ہیں جو ایک کھجور کا دانہ منہ میں رکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے روزہ افطار کر لیا۔ مگر ان کے برعکس وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا سارا زور افطاری پر ہوتا ہے۔ اصل میں وہ افطاری کے واسطے ہی سے اپنے آپ کو روزہ دار سمجھتے ہیں۔ سو جب افطاری کے نام ایک رنگارنگ دسترخوان سجا نظر آئے جس میں رنگ رنگ کے میٹھے اور قسم قسم کے میٹھے نمکین پکوان نظر آئیں۔ اور ہاں ساتھ میں شربت کے گلاس تو سمجھ لیجیے کہ یہ روزہ نہیں، روزے کا دم چھلا ہے۔ یعنی روزوں کے بیچ سے ابھرنے والا کلچر اسے روزہ کلچر کہیے یا افطار کلچر کہیے۔

افطاری۔ تھوڑے وقت کے بعد کھانا تھوڑا سو لیں۔ پھر سحری کے اوقات میں اٹھ کر سحری کھانی ہے اور روزے کی نیت کر کے پھر سو جانا ہے۔ سحری کا اپنا رومانس ہے۔ اگلے زمانے میں سحری کے وقت کے اعلان کے لیے نقارہ بجتا تھا جس کی آواز دور دور تک جاتی تھی جو کہہ رہی ہو کہ اٹھو سونے والو، سحری کا وقت آن پہنچا۔ گلیوں میں لڑکے بالے ٹین کا کنستر پیٹتے ہوئے چلے جا رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں کہ سحری والو اٹھو، سحری کھائو۔ ٹولیاں نعتیں مناجاتیں پڑھ رہی ہیں۔کوئی فقیر اپنی مناجات سے یا کوئی دوہا کافی پڑھ کر رات کی خاموشی میں اپنا جادو جگاتا۔ ایک فقیر کی آواز کانوں میں گونج رہی ہے۔ یہ دوہا پڑھتا ہماری گلی سے گزرتا تھا،

پتا ٹوٹا ڈال سے لے گئی پون اُڑائے

اب کے بچھڑے کب ملیں دور پڑے ہیں جائے

اب زمانہ اور ہے۔ گھروں میں اہتمام کم ہوتا ہے۔ پورے پورے خاندان گھر سے باہر ہوٹلوں میں جا کر افطار کرنا پسند کرتے ہیں۔ کمرشلائزیشن کا زمانہ ہے۔ فوڈاسٹریٹ کا چلن ہے۔ شہر میں ان دنوں ایسے اشتہار نظر آ رہے ہیں کہ فلاں کوچے میں فوڈ اسٹریٹ پر سحری کا خاطر خواہ انتظام ہے تشریف لایئے۔

گھروں کی رونق ہوٹلوں فوڈ اسٹریٹوں میں منتقل ہوگئی۔ پورا کلچر ہی کمرشلائزیشن کی زد میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔