ڈی ایٹ کانفرنس ،معاشی ترقی کے لئے باہمی تعاون کا عہد

ملک منظور احمد  منگل 27 نومبر 2012
ڈی 8 کانفرنس میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی شرکت کی۔ فوٹو : فائل

ڈی 8 کانفرنس میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھی شرکت کی۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد: آٹھ ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی ایٹ کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے ۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود چاروں صوبوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں اسلامی ممالک کے بعض اہم سربراہان کی موجودگی کے دوران دہشت گردی کے واقعات نے ملک کی بدنامی میں مزید اضافہ کردیا۔ حکومتی حلقوں میں یہ تاثر اب واضح طور پر پایاجاتا ہے کہ ان حساس دنوں میں اس کانفرنس کا انعقاد کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہ تھا۔ حکومت نے اسلامی ممالک کے سربراہان کو ملک میں امن وامان،سافٹ امیج اور سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے قائل کرنا تھا، تاہم دہشت گردی کے واقعات نے ان حکومتی کوششوں پر پانی پھیردیا۔7 محرم کے روز اسلامی ممالک کی تنظیم ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس کے انعقاد کو اپوزیشن بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔

ڈی ایٹ کی سربراہ کانفرنس میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے دعوت ملنے کے باوجود شرکت نہ کی۔ اگرچہ صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایت پر وزیرخارجہ حنا ربانی نے ڈھاکہ جا کر بنگلہ دیشی وزیراعظم کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے پاکستان سے 1971ء کے واقعات پر معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے مطالبات کو پذیرائی نہ دی، بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے وزیر خارجہ کو کانفرنس میں نمائندگی کیلئے بھیجنے کا فیصلہ کررکھاتھا تاہم آخری وقت پر وزیرخارجہ کی جگہ ایک مشیر کو بھیج کر محض خانہ پری کرنے پر اکتفا کیا۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نے بھی سکیورٹی خدشات کی آڑ میں کانفرنس میں شرکت نہ کی،ان کی نمائندگی ان کے نائب وزیراعظم نے کی۔ اسلام آباد کے کسی فائیوسٹار ہوٹل میں اس کانفرنس کا انعقاد کرنے کی بجائے ایوان صدر کے پرشکوہ ہال میں افتتاحی اجلاس منعقد کیاگیا۔کانفرنس ڈھائی گھنٹہ کی تاخیر سے شروع ہوئی۔ باخبر حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ کانفرنس میں غیرضروری تاخیر کی وجہ ملائیشیا کے نائب وزیراعظم کی سیکورٹی حکام کے طرزعمل پر ناراضگی تھی۔

کانفرنس کے اختتام پر 35نکاتی اعلان اسلام آباد جاری کیاگیاجس میں سابقہ روایات کی طرح بلند و بانگ دعوے کئے گئے ہیں اور کہاگیا ہے کہ رکن ممالک اسلامی بینکاری سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے باہمی تعاون کوفروغ دیاجائے گا۔ امن ،جمہوریت ،اقتصادی خوشحالی،عوام کی فلاح وبہبود، گڈ گورننس ،جمہوری اقدار،منصفانہ معاشی نظام،عالم گیریت سے نپٹنے کیلئے مکالمہ،دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے سمیت دیگر چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق کیاگیا ہے۔ رکن ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر زور دیاگیا ہے۔ اعتدال پسندی کو فروغ دیاجائے گا۔

صدر آصف علی زرداری نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ آٹھ جمہورتیں دہشت گردی کا مقابلہ کریں گی،ڈی ایٹ ممالک تجارتی و ترقیاتی بنک قائم کریں ،تنظیم کے رکن ممالک سرمایہ کاری اورصنعت کاری کو فروغ دیں۔ صدر نے کہاکہ ہم ایک ارب انسانوں کو جوابدہ ہیں، اسلام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ فلسطین کے عوام پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی حملہ کھلی دہشت گردی ہے،دہشت گرد پاکستان پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں مگر ان عناصر کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ڈی ایٹ ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان اگر مذکورہ بالا اعلامیہ پر عملدرآمد شروع کر دیں تو بلاشبہ ایک ارب لوگوں کی فلاح وبہبود کے کئی راستے نکل آئیں گے اور معاشی اوراقتصادی خوشحالی کو یقینی بنایاجائے گا۔

ایران کے صدر ڈاکٹرمحموداحمدی نژاد توجہ کامحور رہے ۔ ڈاکٹر احمدی نژاد نے اسلام آباد میں آتے ہی ایرانی سفارت خانے میں صحافیوں اور سیاستدانوں کے ایک مخصوص گروپ کے ساتھ ملاقات کی اور بین الاقوامی معاملات ،علاقائی صورتحال بالخصوص خطے کی صورتحال اور پاک ایران ایشوز پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ ایرانی صدر نے کانفرنس سے بھی خطاب کے دوران کئی اہم عوامل پر روشنی ڈالی۔ ایران کے صدر ڈاکٹر محموداحمدی نژاد نے اسلام آباد میں اسی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر فوری سفارتخانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ پریس کانفرنس4گھنٹے کی غیرمعمولی تاخیر سے شروع ہوئی۔

بتایاجاتا ہے کہ ایرانی صدر پاکستان کے عوام سے ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے براہ راست مخاطب ہونے کی خواہش رکھتے تھے حکومت نے اس پریس کانفرنس کی براہ راست کوریج نہ کرنے دی ۔ ایران کے صدر نے پاکستان کے عوام کیلئے لائق تحسین جذبات کا اظہار کیااور کہاکہ پاکستان کے عوام بہادر،محنتی اور مہمان نواز ہیں۔انہوں نے امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور واضح طور پر کہا کہ امریکہ پاکستان کو خوشحال اور پرامن ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتایہی وجہ ہے کہ امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک دانستہ پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار کرنے کے درپے ہیں۔

محرم الحرام کے دوران دہشت گردی انتہاپسندی اور خودکش حملوں کے خطرات کے پیش نظر ملک بھر میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے۔ ان تمام تر اقدامات کے باوجود دہشت گردی کے واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔ وزیرداخلہ رحمٰن ملک کی طرف سے مسلسل دو دنوں کیلئے 50سے زائد شہروں میں موبائل فون کی بندش، موٹرسائیکل پر پابندی جیسے اقدامات پر بعض حکومتی وزراء نے بھی کھل کر تنقید کی ہے اور حکومتی شخصیات نے بھی رحمٰن ملک کے اس فلسفہ کی تائید نہیں کی ہے۔

سینیٹ میں حکومت کی حکمت عملی مکمل طور پر اس وقت ناکام ہوگئی جب اعلان کے باوجود حکومت سینیٹ میں دوہری شہریت کا بل پیش نہ کرسکی۔ حکومتی ارکان کے دانستہ ایوان میں نہ آنے سے یہ بل منظور نہ کرایا جا سکا۔ صدر نے اس صورتحال کا سخت نوٹس لیا ہے۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ بعض حکومتی ارکان نے ایک الگ سے پریشرگروپ بنالیا ہے اور یہ پریشرگروپ اگر واقعی وجود میں آگیا ہے تو حکومت کو قانون سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔