ملتان کا ضمنی الیکشن اور رجعت پسند قوتیں

ایکسپریس اردو  پير 23 جولائی 2012
زمرد نقوی

زمرد نقوی

اس ہفتے کی سب سے اہم خبر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد ان کی خالی نشست پر ان کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کی کامیابی ہے۔ نو منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالقادر گیلانی نے کہا کہ آج 64 ہزار عوام پر مشتمل عوامی لارجر بنچ نے فیصلہ سنادیا ہے۔ دوسری طرف سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ملتان کے ضمنی انتخابات میں تین پارٹیاں اور صوبائی حکومت ایک طرف اور پیپلزپارٹی تنہا دوسری جانب تھی۔ اس الیکشن میں صوبائی حکومت کی پوری مشینری ہمارے خلاف سرگرم رہی۔

ملتان کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر ماضی کی یاد آگئی جب آئی جے آئی کی شکل میں پیپلزپارٹی کے خلاف متحدہ محاذ بنا جس کا سہرا آئی ایس آئی کوجاتا ہے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے کہ اپوزیشن اس قابل نہیں کہ اکیلی اکیلی جماعتیں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ پیپلزپارٹی کا خوف ہی ہے کہ جس نے یہ پھر سوچ پیدا کردی ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد ہوکر پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنا چاہیے ورنہ جیت ان کا مقدر نہ بن سکے گی۔

اینٹی پیپلزپارٹی قوتیں ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی کے خلاف اکٹھی ہورہی ہیں جس کا ثبوت ملتان کا حالیہ ضمنی انتخاب ہے۔ پیپلزپارٹی کے قیام کے 44 سال بعد بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پارہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج بھی آئی جے آئی کی طرز پر پیپلزپارٹی کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ملتان کا حالیہ ضمنی انتخاب اس صوبے میں لڑا گیا جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے جہاں پیپلزپارٹی کو رعایت میسر نہیں تھی۔ دوسرے طرف جماعت اسلامی دفاع پاکستان کونسل سمیت تمام مذہبی گروپس اور تحریک انصاف مقابلے پر تھے اور پھر بھی پیپلزپارٹی جیت گئی۔

میڈیا کا پیپلزپارٹی کے خلاف دن رات کا پروپیگنڈا بھی کام نہیں آیا۔ ملتان کے ضمنی انتخابات میں شکست میڈیا کے ایک بڑے حصے کے لیے بھی سانحہ تھی۔ کہ اگلے دن کے اخبارات میں پیپلزپارٹی کی جیت کو غیر اہم بنانے کی کوشش کی گئی اور ایسے احمقانہ تبصرے کیے گئے کہ لگا پیپلزپارٹی جیتی نہیں بلکہ ہار گئی ہے۔ یہ ہمارے ’’آزاد میڈیا‘‘ کی بددیانتی کی انتہا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اگر پیپلزپارٹی کا مخالف امیدوار جیت جاتا تو نہ صرف ہیڈلائن لگتیں بلکہ اس فتح کا اگلے الیکشن تک وہ ڈھول پیٹا جاتا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی لیکن اس میں ہمارے اینکر حضرات بھی قصور وار نہیں۔

وہ تو بے چارے تنخواہ دار ہیں۔ انھیں تو جو ایجنڈا ملتا ہے اسے پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ تو یہ ہے جناب ہمارے اینکرز کی ’’حقیقت‘‘۔ انھیں پچھلے چار سال سے مکمل طور پر یہ آزادی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دن رات گالیاں دیں، ان کی کردار کشی کرے کیوں کہ یہ ایک ثواب کا کام اور جنت کے لیے پروانہ ہے۔ اب تو آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ ہمارے پاکستانی آزاد میڈیا کی اوقات کیا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ ریاست کے اندر ریاست کسے کہتے ہیں اور ہم پاکستانی 65 سال گزرنے کے باوجود کتنے آزاد کتنے غلام ہیں۔

نادیدہ قوتوں کی طاقت میں اس وقت جو خوفناک اضافہ ہوچکا ہے وہ ماضی میں پہلے کبھی نہ تھا۔ نادیدہ قوتوںکے ہاتھوں میڈیا ایک ننگی تلوار بن چکا ہے۔ اس ننگی تلوار سے جب بھی وہ چاہیں کسی کا بھی سر قلم اور کسی کی بھی کردار کشی کرسکتے ہیں۔ ہر شام اینکرزکی عدالت لگتی ہے اور نادیدہ قوتوں کے اشارے پر وہ قوالی شروع کردیتے ہیں۔ بڑا آسان طریقہ انھوں نے اپنایا ہے کہ پاکستانی سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کرتے ہوئے الزام لگائو اور اسے بار بار دن رات دہرا کر ملزم کو مجرم بنادو۔

اب تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ آخر وہ کونسا ایجنڈا تھا ۔اس کا مقصد پاکستانی عوام کے ذہنوں پر حملہ کرتے ہوئے انھیں مزید غلام بنانا ہے۔ اب تو آپ کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کی مقبولیت کے حوالے سے جو آئے دن سروے اور پولز شایع ہوتے رہتے ہیں، وہ ’’کس کی‘‘ ضرورت ہے۔ آخر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو‘ ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ (عوامی عدالت) کا فیصلہ ان کے فیصلوں سے ہمیشہ ہی الٹ کیوں ہوتا ہے۔

اب ایک اور اہم خبر پر نظر کہ سینئر امریکی سفارت کار نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج 2024ء تک افغانستان میں موجود رہیں گی اور نیا منصوبہ پاکستان کے لیے بھی قابل قبول ہوگا۔ یعنی اگلے بارہ سال مزید امریکی افواج موجودرہیں گی۔ اس وقت پاکستان کے موجودہ اور مستقبل میں رونما ہونے والے تمام مسائل کا تعلق افغانستان میں موجود امریکی افواج سے ہے۔ پاکستان میں وہ تمام لوگ جو پچھلے کئی سال سے امریکی افواج کے 2014ء میں انخلا کے حوالے سے خوشیاں منارہے تھے ان کے لیے یہ خبر سانحے سے کم نہیں۔

9 جولائی کو ہمارے دوست لطیف چوہدری نے ’’کمی کے بیٹے‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں پیش گوئی نما تجزیہ پیش کیا جس کی تصدیق امریکی سینئر سفارت کار ریان سی کروکر نے بھی 17 جولائی کو کردی۔ جب میں نے ان کا تجزیہ پڑھا تو میرے آنکھوں کے سامنے نیشنل جیوگرافکس کے وائلڈ لائف کے حوالے سے وہ تصویری مناظر گھوم گئے جس میں شیر سمیت دوسرے طاقتور جانور جنگل کے قانون کے تحت کمزور جانوروں کو شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’وہ لکھتے ہیں کہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ امریکا نہیں بلکہ نیٹو تنظیم ہے۔

البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اس تنظیم کا روح رواں، سب سے طاقتور اور وسائل کا حامل ملک ہے۔ اسی لیے مال غنیمت میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن ترکی جیسے ملک بھی اچھا خاصا مال وصول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں ترک کمپنیاں بھی اچھی خاصی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ نیٹو صرف 28 ملک نہیں ہیں بلکہ یہ 60 کے قریب ملکوں کا ’’گینگ‘‘ ہے۔ امریکا برطانیہ اور فرانس مل کر شکار پر پہلا حملہ کرتے ہیں پھر دوسرے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں جب شکار گر جاتا ہے تو ترکی یونان جرمنی اٹلی جیسے ملک اس کے جسم میں دانت گاڑ دیتے ہیں۔

جب شکار بے جان ہوجاتا ہے تو چھوٹے موٹے اتحادی شکار کی ہڈیوں اور انتڑیوں وغیرہ کی تلاش میں آدھمکتے ہیں۔ افغانستان عراق اور لیبیا کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان تباہ حال ملکوں میں تعمیر نو کے نام پر نیٹو ممالک اور ان کے دوست ممالک کی کمپنیاں اپنی دولت میں دھڑا دھڑ اضافہ کررہی ہیں۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا 2014ء میں افغانستان سے چلا جائے گا وہ دن میں خواب دیکھنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو امریکا اور نیٹو ایک طویل المیعاد منصوبے پر کام کررہے ہیں ان کا ہدف محض افغانستان نہیں بلکہ وسطی ایشیا سے قازقستان اور منگولیا تک کے وسائل کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت لانا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں منصوبہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کو نکال کر ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی کو لایا جائے تاکہ اتحادی افواج کے جانی نقصان کا خاتمہ ہوسکے جو ان کا اصل مسئلہ ہے جب کہ افغانستان میں نو تعمیر شدہ انتہائی جدید فوجی چھائونیوں امریکی افواج بدستور موجود رہتے ہوئے طالبان کے مقابلے میں افغان نیشنل آرمی کی مدد کرتی رہیں گی۔‘‘

حرف آخر:۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے محترم و معزز قارئین کا ایک بار پھر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محترم قارئین کو شکایت تھی کہ رابطے میں دقت پیش آرہی ہے۔ قارئین کے شدید اصرار پر میں نے رابطے کے دن بڑھا کر پیر تا جمعہ کردیے ہیں۔ آپ مجھ سے رابطہ دوپہر2 بجے تا شام 6 بجے تک سیل فون نمبر 0346-4527997 پر کرسکتے ہیں۔

دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے 2013ء سب سے مشکل اور خطرناک سال ہے اور پاکستان اس ’’فیز‘‘ میں اگست ستمبر 2012ء سے داخل ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔