رحمن ملک کی ’’گولڈن جوبلی بیمہ پالیسی‘‘

طاہر سرور میر  منگل 27 نومبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

ہمارے حالات منیر نیازی کے خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ منیر نیازی نے کہاتھا کہ

کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر

ان روز و شب میں ایسا بھی ایک دن کمال ہو

خوشی کی خبر ہمارے لیے ’’کمال کا دن‘‘ جیسی صورت ہی اختیار کر چکی  ہے۔ نویں اور دسویں محرم کے دودنوں میں رحمن ملک نے ’’گولڈن جوبلی‘‘ مکمل کر لی۔ میڈیا نے چیخ، چیخ کر بیان کیا کہ 50شہروں میںموبائل ٹیلی فون بند کر دیے گئے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نزدیک موبائل فون پر پابندی عاید کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ شاید ظلم ہے۔ فی زمانہ موبائل فون پر پابندی عاید کرنا ظلم قرار دے دیا گیا ہے ۔کبھی ’حقہ پانی‘ بند کرنا اس کٹیگری میں شامل ہوا کرتا تھا۔ کسی کالم نگار کے نزدیک رحمن ملک کی مخالفت کرنا اسکوپ اور درجہ دوم قسم کے معرکے کے زمرے میںآتا ہے، مگر میں یہ ’’سقراطی‘‘ برپا کرنے سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

پنجاب کے وزیر قانون راناثنا اللہ سمیت کیل چھائیوں اور داغ دھبوں سے پاک ہمارے بعض قائدین کے نزدیک تو رحمٰن ملک کے کاموں سے کیڑے نکالنا عین ثواب کا کام ہے۔ یہ تاثر درست ہے کہ موبائل فون جو ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے۔ اس پر پابندی سے ہمارے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ نویں اور دسویں محرم کے دو دنوں میں رحمٰن ملک کی ’’گولڈن جوبلی بیمہ پالیسی‘‘سے دہشت گردی کے متوقع واقعات کو قدرے روک دیا گیا۔ موبائل فون پر پابندی بنیادی حقوق کے خلاف عمل ہے لیکن اس سہولت پر پابندی سے یہ تاثر بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ وطن عزیز میں موبائل ٹیلی فونز کے سستے پیکجز اور ایزی لوڈ دہشت گردوں کے سامنے انسانی زندگیوں کو سستا اور دہشت گردی برپا کرنے کو ’’ایزی‘‘ کیے ہوئے ہیں۔

یکم محرم سے عاشورہ تک ہمارے ہاں ملک میں لگ بھگ 42 ہزار سے زائد جلوس نکالے جانے کی اطلاعات تھیں۔ جن میں لاکھوں عزاداروں نے شرکت کرنا تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں مجالس عزا اور لاکھوں عزاداروں کی حفاظت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب اپنے ہی بچوں کی برین واشنگ کر کے انھیں اپنوں کے لیے خود کش بمبار بنا دیا گیا ہو۔ اس سے خوفناک صورت حال کیا ہو گی کہ صحن مین کھیلنے والا کوئی بچہ کھیلتے، کھیلتے اچانک اپنے گھر والوں کو جلاکر راکھ کر دے۔ بدقسمتی سے ہمیں ایک انتہائی غیر معمولی جنگ کا سامنا ہے جس سے بچ کر نکلنا معجزہ سے کم نہ ہو گا، بہر حال جاندار اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنی جبلی اور ایسی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے جسے وہ ریاضت اور تربیت سے بھی سیکھتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

محرم الحرام کے دنوں میں ملکی صورتحال کے حوالے سے ایوان صدر میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے اس عزم کو دہرایا کہ ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ تین بڑوں کی اس ملاقات کے حوالے سے سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری نے آرمی چیف کے جمہوریت کے لیے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ جنرل کیانی نے اس عہدے پر آتے وقت جو کہا تھا کہ ’’ فوج سیاست میں نہیں آئے گی‘‘ تو جنرل کیانی نے ان پانچ برسوں میں ایسا کر دکھایا ہے۔

سفارتی حلقوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس میں کوئی ذاتی تناؤ نہیں۔ چاروں بڑوں میں ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ اسی طرح کے ’’دعائیہ‘‘ سفارتی بیانات افہام و تفہیم کے جذبوں کے ساتھ دانستہ پھیلا ئے جاتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔‘‘ ان سب باتوں کے ساتھ خیر کی خبر یہ ہے کہ ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات میں صدر زرداری نے جنرل کیانی اور فوج کے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف کردار کو سراہنے کے ساتھ، ساتھ جمہوریت کو مظبوط کرنے کے لیے ان کو کوششوں کو سراہا۔ جنرل کیانی نے بھی یقین دلایا کہ پاک فوج دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے ساتھ، ساتھ جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔

وطنِ عزیز میں عجب رنگ و بو کی جمہوری اور فوجی بہاریں دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں منتخب وزیراعظم کو اپنے وقت کے آرمی چیف کو ڈیموکریسی ایوارڈ دینا پڑتا ہے۔ جنرل اسلم بیگ اس وقت کے چیف جسٹس کو پیغام بھجواتے ہیں کہ جونیجو حکومت بحال مت کیجیے گا، اس کے بعد صدر اسحاق خان اور آئی ایس آئی کو استعمال کر کے آئی جے آئی بناتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ 20 سال تک ڈیموکرٹیک ایوارڈ ہولڈر ریٹائرڈ جنرل کہلاتے ہیں اور پھر اصغر خان کیس میں ان کے ’’جمہوری اسٹارڈم‘‘  کا بھانڈا پھوڑ دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی 66 سالہ تاریخ میں جمہوریت اور آمریت کی ’’جنگوں‘‘ میں غریب زندہ درگور کر دیا گیا۔ اسے روٹی کپڑا مکان ملا اور نہ ہی اس کے جان و مال کی حفاظت ہو سکی۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے7  ہزار پاکستانی مارے جا چکے ہیں جس میں سویلین اور فوجی شامل تھے۔ سچ، سچ ماننا ہو گا کہ اس سونا اگلتی سوہنی دھرتی میں فرقہ واریت، بارود اور دہشت گردی کی فصلیں کن شہ دماغوں نے بوئی تھیں؟؟؟ گزشتہ 40 سال  سے ایٹم بم کے نام پر ہر کسی نے سیاست فرمائی ہے۔

کیا ایٹم بم ملکوں اور قوموں کی سلامتی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اگر ہوتا تو سوویت یونین شکست سے دوچار کیوں ہوتا؟ سوویت یونین کو پارہ، پارہ کرنے کا کریڈٹ ہم افغان مجاہدین اور اپنے ’’جہادی  اثاثوں‘‘ کو دیتے ہیں۔ اگر ہمارے جہادی اثاثے ایٹمی طاقتوں کو پاش، پاش کر سکتے تھے تو ہم نے ایویں قوم کا اربوں روپیہ اور بیش قیمت وقت اور بھٹو جیسا لیڈر ’’امریکی انتقام‘‘کا نشانہ بنوا دیا؟ ہمیں اپنے آپ دل و دماغ پر دفاعی ریاست کے چڑھائے ہیلمٹ کو اتار کر قوم کے ماتھے پر فلاحی ریاست کا جھومر سجانا چاہیے۔ پاکستانی قوم کے مقدر میں آزادی کے کچھ عرصہ بعد ہی دفاعی ریاست کی لکیریں کھینچ دی گئی تھیں۔ آمریت کے دیوتاوں نے براہ راست اور بلواسطہ جب کہ جمہوریت نے اپنے کمزور اور بانجھ سیاسی عمل کے ذریعے وطن عزیز کو اس دریائے فنا جیسا بنا دیا جس کی بربادی کا نقشہ منیر نیازی نے یوں کھینچا تھا

ایک  دریائے ِ فنا  ہے  اس کی  ہستی  اے  منیر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔