کچھ ڈی ایٹ کانفرنس کے بارے میں

نصرت جاوید  منگل 27 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ذوالفقار علی بھٹو سے آج بھی اس ملک میں بہت سے لوگ بڑی نفرت کرتے ہیں۔

مگر ان کا شدید ترین مخالف بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے تعلقات بنانے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ مشرقی پاکستان کھو دینے کے بعد ان کے ہاتھ میں اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ میں مذاکرات کرنے کے لیے کوئی بھی کام کا پتہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود دوسری جنگِ عظیم کے بعد پہلی بار انھوں نے اپنے ملک کی دشمن کے قبضے میں گئی زمین کو واپس لیا اور ایک ایسا تحریری معاہدہ بھی کرایا جس میں کشمیر کو ’’باہمی‘‘ ہی سہی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسا قضیہ ضرور تسلیم کیا گیا جسے حل کیے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔

عرب دُنیا نے تیل کا ہتھیار دریافت کرنے کے بعد جب اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تو بھٹو ان کے ساتھ جڑ گئے۔ عرب دُنیا میں اپنی جگہ بنانے کے  لیے انھوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی۔ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کو قدامت پرست بادشاہوں کے ساتھ بٹھایا اور وہ تمام راستے تلاش کیے جن کی بدولت بے روزگار اور پسماندہ پاکستانیوں کی ایک بے پناہ تعداد عرب ممالک میں محنت مزدوری کرنے کے بعد اپنے خاندان والوں کو دیہاتوں کے کچے مکانوں سے شہروں میں لا کر بہتر تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر سکی۔

یہ الگ بات ہے کہ اپنی معاشی بہتری میں مصروف ہو جانے والے معاشرے میں پیدا ہوجانے والی خود غرضی کو جنرل ضیاء نے اپنے جابرانہ تسلط کے لیے استعمال کیا اور خلیجی ممالک سے دولت کے حصول کے بعد ہمارے ہاں ایک ایسا متوسط طبقہ بھی پیدا ہو گیا جو معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے بجائے Status-Quo کا محافظ بن گیا اور انتہاء پسند فرقہ واریت کا پرچارک بھی۔ یہ سب کچھ مگر بے تحاشہ آبادی والے ان دوسرے مسلم معاشروں میں بھی ہوا جو تیل کی دولت سے مالامال نہیں تھے۔ آج کا مصر اس کی ایک واضح مثال ہے۔

میں یہ کالم مگر سماجی حرکیات کو بیان کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا۔ ایک رپورٹر کے طور پر عمرانیات کی اُلجھنوں اور باریکیوں کو سمجھنا میرے لیے ممکن ہی نہیں۔ مجھے پریشانی تو یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے ہماری وزارتِ خارجہ مسلسل زوال پذیر ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ان لوگوں کے قبضے میں چلی گئی ہے جو محض نوکری کرتے ہیں۔ حاکموں کو خوش رکھتے ہیں اور ان ممالک میں پوسٹنگ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں جہاں ان کے بچوں کا مستقبل سنورنے کی راہیں بن سکیں۔ 1975سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے میں نے وزارتِ خارجہ کے ’’بابو‘‘ لوگوں کو مضحکہ خیز کلرکوں میں تبدیل ہو جانے کا عمل بہت قریب سے دیکھا ہے۔ حال ہی میں D-8 کانفرنس کے نام پر جو محفل سجائی گئی، اس کا حال آج کل کی وزارتِ خارجہ کی  حالت زار کو سمجھنے میں بڑا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

یقیناً یہ وزارتِ خارجہ کی ناکامی نہیں ہے کہ دوسرے ممالک کے سربراہوں یا اعلیٰ ترین افسران نے اسلام آباد آنا چھوڑ رکھا ہے۔ اس شہر کے ایک زمانے تک واحد پنج ستاری ہوٹل پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد آپ کا  بہترین دوست بھی آپ کے ہاں آنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ حال ہی میں حرمت رسولﷺ کے نام پر اسلام آباد میں ڈپلومیٹک انکلیو کی طرف جانے والی شاہراہ پر جو کچھ ہوا، وہ ہماری بچی کھچی ساکھ کو ختم کرنے کے  لیے آخری کیل ثابت ہوا۔ اس کے باوجود یہ کمال کی بات تھی کہ ایک نہیں آٹھ بڑے اسلامی ملکوں کے سربراہ D-8  کانفرنس کے  لیے آپ کے ہاں آنے کو تیار ہو گئے۔

بنگلہ دیش کی حسینہ واجد  نے آخری لمحات میں آنے سے معذوری ظاہر کی  تو اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے سربراہان مملکت اور حکومت کیوں نہ آئے، مجھے ابھی تک اس کا جواب نہیں ملا۔ پاکستان کے مخصوص حالات اور افغانستان کے تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایران کے صدر اور ترکی کے وزیر اعظم کا بیک وقت اسلام آباد میں موجود ہونا ایک بڑا ہی اہم واقعہ تھا۔ بہتر ہوتا کہ مصر کے صدر بھی یہاں آ پاتے۔ وہ آ جاتے تو 1950سے جاری پاک مصر دوریوں کے عمل کا قصہ بھی تمام ہو جاتا۔ مگرغزہ میں بیٹھے چند ’’مجاہدین‘‘ نے بغیر سوچے سمجھے اسرائیل پر راکٹ برسانا شروع کر دیے۔ ان راکٹوں کو فضاء میں ہی ناکارہ کر دیا جاتا تھا۔ مگر غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے بھرپور حملے کو روکنے کے لیے صدر اوباما بالآخر مجبور ہوئے کہ کمبوڈیا سے اپنی وزیر خارجہ کو فوراََ مصر بھیجیں۔

ہیلری کلنٹن نے قاہرہ پہنچ کر جنگ بندی کرائی غزہ والے مصر کے صدر سے ان کا ’’محافظ‘‘ بننے کی امیدیں باندھ رہے تھے۔ مگر کسی ٹھوس حکمت عملی کے بغیر برسائے گئے راکٹوں کی وجہ سے صدر مرسی کو بجائے ’’محافظ‘‘ بننے کے ’’ضامن‘‘ کا کردار ادا کرنا پڑا اور اسی جھنجھٹ میں D-8 کانفرنس سے دوری کا فیصلہ بھی ہوا۔ مصر کے صدر پر آ پڑی مصیبت سے قطع نظر میں اب تک یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ D-8 کانفرنس کے لیے محرم کے عشرے کا انتخاب کیوں، کیسے اور کس طرح ہوا۔ ترکی اور ایران کے سربراہان مملکت و حکومت جب اپنے وفود سمیت اسلام آباد اُترے تو اس شہر میں کرفیو جیسا ماحول تھا۔

جب یہ لوگ اپنے کمروں میں شب بسری کے لیے پہنچے تو ان کے ٹیلی وژن اسکرینوں پر کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں والی خبریں واویلا کرتی آوازوں کے ساتھ مسلسل چلے جا رہی تھیں۔ دُنیا بھر کے ممالک اپنے ہاں بین الاقوامی کانفرنسیں کرتے ہیں تو ان کا ایک بڑا مقصد اپنے بارے میں Feel Good تاثر پھیلنا بھی ہوتا ہے۔ کرفیو زدہ اسلام آباد میں دو دن تک اپنے کمروں اور سرکاری مصروفیات میں محصور رہتے ہوئے ہمارے مہمان ’’دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت‘‘ کے بارے میں کیا تاثرات لے کر واپس گئے ہوں گے؟ آپ خود فیصلہ کر لیجیے۔

ماضی میں جب کبھی کوئی بین الاقوامی اجتماع اسلام آباد میں منعقد ہوتا تو اس سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ ترین افسران امور خارجہ کے بارے میں لکھنے اور رپورٹنگ کرنے والے لوگوں کو لمبی بریفنگوں کے لیے بلایا کرتے تھے۔ ان آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں کھل کر سوال و جواب ہوتے اور صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کو پوری طرح علم ہو جاتا کہ پاکستان اس کانفرنس کا اہتمام کن مقاصد کے حصول کی خاطر کر رہا ہے۔ میں نے D-8 کے انعقاد سے پہلے اس کے بارے میں ایسا کوئی مضمون نہیں پڑھا۔ نہ ہی شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک پیچیدہ ترین بین الاقوامی مسائل کو منٹوں میں حل کر دینے کے طریقے بتانے والے ٹاک شوز میں اس کا کوئی ذکر سنا۔

اس ضمن میں میری لاعلمی بڑی وضاحت سے یہ بات عیاں کرتی ہے کہ وزارتِ خارجہ میں بیٹھے ’’بابوئوں‘‘ نے میڈیا کو اس کانفرنس کے مقاصد کو اُجاگر کرنے کی غرض سے ملنے اور بات چیت کرنے کے لیے کوئی تردد ہی نہیں کیا تھا۔ چونکہ مجھے کچھ بھی بتایا نہیں گیا ہے اسی لیے میں آپ کو یہ تفصیلات بتا کر بھی مایوس نہیں کرنا چاہتا کہ کیسے ہمارے دو ’’برادر ممالک‘‘ ترکی اور ایران اس پوری کانفرنس کو شام کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کو ٹھونسنے کے لیے استعمال کرتے رہے اور ترکی کے وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ کے بارے میں کون سی وجوہات بتانے کے بعد مکمل مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد سے اپنے وطن واپس چلے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔