بے قراراورآرزومند روحیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 9 جولائی 2016

اگر یہ طے ہوجاتا کہ نیک کے معنی عاقل ہیں اورخیر سے دانش مراد ہے تو انسان اپنا حقیقی مفاد دیکھنے کا درس لے سکتے، اپنے اعمال کے نتائج کو مستقبل میں دیکھ سکتے۔ اپنی تمناؤں پر نکتہ چینی کرسکتے اور ان کو منظم کرکے ایک خود کش ابتری کی بجائے ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوسکتی جس میں سب ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوتے، احترام ومحبت کررہے ہوتے، سب آزاد اورخوشحال ہوتے ۔ بیکن کہتا ہے ’’ پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو باقی چیزیں یا تو مل جائیں گی یا ان کی کمی کا احساس بھی نہ ہوگا۔‘‘

افلاطون کہتا ہے کہ انسانی عمل کے بڑے بڑے ماخذ تین ہیں۔ 1۔ خواہش 2 -جذبہ 3 -علم ۔ خواہش کا مرکز جسم ہے، جذبے کا مرکز دل ہے اور علم کی مسند دماغ ہے، یہ قوتیں اور اوصاف سبھی انسانوں میں ہوتے ہیں۔ اختلاف مدارج کا ہوتا ہے اکثر لوگ اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں ان کی بے قرار اور آرزومند روحیں ہر وقت تعیش اور نام ونمود کی آرزوکی بھٹی میں جلتی رہتی ہیں اس لیے انھیں جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے۔

اس پرکبھی خوش نہیں ہوتیں، ہمیشہ اورکی خواہش مند رہتی ہیں ۔ان کے مقابلے میں کچھ اورلوگ بھی ہوتے ہیں جوجذبے اور شجاعت سے لبریز ہوتے ہیں دنیا کی بری فوجوں اور بحری بیڑوں کے سپاہی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔سب سے آخر میں تھوڑے سے آدمی وہ بھی ہوتے ہیں ، جو سو چ وبچار میں خوش رہتے ہیں ان کو نہ تو متاع دنیاوی کی ضرورت ہوتی ہے نہ میدان جنگ میں فتح کی ۔ یہ صداقت کی جنت میں رہتے ہیں انسانی تاریخ ہمیشہ ہی سے خواہشات کے ہاتھوں زخمی ہوتی آرہی ہے۔ انسانی تاریخ کا ہر صفحہ خواہشات کے ہاتھوں لہولہان ہے ۔

آیے! تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو لہوسے رنگتے ہیں، یورپ میں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک شخصی تسلط اور مذہب کے نام پر انسانوں پرکونسا ایسا ظلم ہے جو روا نہ رکھاگیا لیکن آج وہ تمام اذیت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہوچکی ہیں وہ محلات وہ جیلیں وہ قید خانے وہ عبادت گاہیں جہاں ہزاروں انسانوں کو چند انسان ذلیل وخوار کرتے پھرتے تھے۔

جہاں چند انسان اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، آج ان کی ویرانیاں دیکھ کر وحشت ہونے لگتی ہے اور ان خداؤں کی اب صرف ہڈیاں ہی صحیح سلامت ہیں، باقی جسموں سے لے کر تخت وتاج ، جاہ وجلال اور شان و شوکت سب کے سب فنا ہوچکے ہیں اور صرف ان کی نشانیاں باقی ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے جب آج کا آزاد ، بااختیار،خودمختار،خوشحال انسان چند سوکا ٹکٹ خریدکر ان محلات ان قیدخانوں ان عبادت گاہوں میں داخل ہوتا ہے تو تصویروں میں موجود بادشاہوں کے سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ درو دیوار کانپنے لگ جاتے ہیں۔

ایک وہ وقت تھا جب ان جگہوں پر عام انسانوں کا داخلہ منع تھا کیونکہ ان جگہوں میں انسان نہیں بلکہ خدا رہتے تھے ۔آج وہ سب تخت و تاج خداؤں سے خالی پڑے ہیں وہ سب تخت و تاج آج عام انسانوں کو دیکھ دیکھ کر خوف سے لزرتے رہتے ہیں وہ جھوٹی شان وعظمت اور جاہ وجلا ل کی نشانیوں سے آج بچے اوربڑے کھیلتے پھرتے ہیں انھیں پہنتے پھرتے ہیں انھیں اچھالتے پھرتے ہیں وہ عیش و عشرت کی خواب گاہیں جہاں معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کو ذلیل ورسوا کیاجاتا تھا۔ آج ویران پڑی ہوئی ہیں وہ اذیت گاہیں اور قید خانے جہاں سے سارا وقت انسانی چیخوںکی آواز آتی رہتی تھیں جہاں معصوم اور بے گناہ انسان بلک بللک کر روتے تھے آج ان اذیت گاہوں اور قید خانوں کے درودیوار کی چیخیں آپ کو صاف سنائی دیتی ہیں۔

ان کے رونے کی آوازیں آپ صاف سن سکتے ہیں ان کی معافیاں آپ کو دہلادیتی ہیں اورآپ کو ایسامحسوس ہونے لگتا ہے کہ چاروں طرف سے ہوا آنا بندہوگئی ہے اور آپ گھبرا کر وہاں سے باہر نکل آتے ہیں اورکھلی فضا میں آجاتے ہیں ۔اس احساس کے ساتھ کہ ہم جیت گئے ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں ہماری تکلیفیں اور ہماری اذیتیں بے نام نہیں رہیں، ہم سب جیت گئے آج ہم سب آزاد ہیں آج ہمیں تمام زمینی خداؤں سے نجات مل چکی ہے۔

دوسری طرف جب ہم آج پاکستان کو دیکھتے ہیں توحیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ ہی سب کچھ جو صدیوں پہلے یورپ میں ہورہا تھا وہ ہی سب کچھ آج یہاں ہورہا ہے، بس صرف فرق اتنا سا ہے کہ وہ تو سب کے سب کردار اصلی تھے، اصلی بادشاہ، اصلی ملکہ، اصلی شہزادیاں، اصلی شہزادے ، اصلی نوکر چاکر، اصلی مشیر اور وزیر اصلی، پجاری لیکن ہمارے ہاں تو سب کے سب نقلی ہیں سب کے سب اداکار ہیں سب کے سب بہروپیے ہیں کوئی بادشاہ بننے کی ایکٹنگ کررہاہے تو کوئی وزیر اور مشیرکی ۔ کوئی شہزادہ بنا ہوا ہے توکوئی شہزادی ۔ ان ہی طرح سے رہنا،کھانا، بیٹھنا، اٹھنا،لوٹ مارکرنا، دورے کرنا، فیصلے اورحکم صادرکرنا ۔رعایا پر ظلم وستم کرنا لوگوں کو ذلیل وخوار کرنا ۔ لوگوں کو تکلیفیں اور اذیت پہنچانا یہ سب کچھ ان ہی کی طرح کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں ۔ وہ ہی جھوٹی شان وشوکت وہ ہی جاہ وجلال وہ ہی عیش وعشرت وہ ہی لوٹ مار، سب کچھ وہ ہی اور ویسا ہی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ وہ سب اصلی تھے اور ہمارے سارے کردار نقلی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو تاریخ کے شاگرد ہیں وہ ہمارے سب کرداروں کی ایکٹنگ دیکھ دیکھ کر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نمبر دو تو پھر بھی ٹھیک ہوتے ہیں یہ تو دس، بیس،تیس،چارنمبری ہیں نقلی، ڈھونگی، بہروپیے، اصلیوں کے انجام سے بے خبر،عقل کے اندھے، تاریخ کے جاہل آپ اپنے کو اصلی ثابت کرتے نقلی کردار ۔ ہنری برگساں نے کہا ہے ’’کسی انسان کے لیے اس چیزکو جاننا ناممکن ہے جس کے متعلق سوچتا ہو کہ وہ اسے پہلے سے معلوم ہے‘‘ جب کہ ولیم شیکسپیئرکہتا ہے ’’ آنکھ وہ ہی کچھ دیکھتی ہے ۔

جسے سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہو ‘‘ اس لیے آؤ اس سے پہلے کے وقت گذرجائے بیکن کی اس بات پر کہ ’’ پہلے ذہنی خوبیاں حاصل کرو‘‘ پر عمل کرلیتے ہیں اوراگر ہوسکے تو اس سے پہلے گذرے اصل کرداروں کی اجڑی قبروں کا مشاہدہ ضرور کرلیں اور ان کے انجام پر ضرور نظریں ڈال لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔