تاریخ کے دریچوں سے

ایکسپریس اردو  پير 23 جولائی 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ترقی کسی خطے یا علاقے کی میراث نہیں ہوتی۔جو اقوام یا انسانوں کے گروہ اپنی ذہانت، قابلیت اور اہلیت کا بروقت اور برمحل استعمال کرتے ہیں، دنیا میں وہی کامیاب وکامران ٹہرتے ہیں۔ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال امریکاکی ہے۔ جس کی آبادی کا90فیصد حصہ تارکین وطن پر مشتمل ہے اور جو چار سو برس تک برطانیہ کی نوآبادی رہا،لیکن دو سوبرس کی مستقل مزاجی سے جدوجہد کے نتیجے میںآج عالمی طاقت ہے۔

اس ملک کی بے مثل ترقی پوری دنیا کی قیادتوں، دانشوروں اور متوشش انسانوں کو دعوت دیتی ہے کہ اس کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور سبق سیکھنے کی کوشش کریں۔ آئیے آج اس مملکت کے قیام سے آج تک کے ان چند اہم اور قابل ذکرواقعات پر گفتگو کریں ،جو اس کی کامیابی کا زینہ اوراسے عالمی طاقت بنانے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔

12اکتوبر1492 کی صبح کولمبس کابحری بیڑا نئی دنیا کے ایک جزیرے پر لنگراندازہوا۔اسے اندازہ نہیں تھاکہ اس نے نئی دنیا دریافت کرلی ہے،کیونکہ وہ اسے ہندوستان سمجھ رہا تھا۔ اسے یہ اعزازبھی حاصل نہ ہوسکا کہ نئی دنیا کانام اس کے نام پر رکھا جائے۔بلکہ یہ اعزاز اس کے ہم وطن مہم جو ایمیریگوسپوچی کو حاصل ہوا، جس کے نام پر نئی دنیا کا نام امریکا رکھا گیا۔ سولہویں صدی کے آغازسے اس خطہ ارض پر یورپ سے تارکین وطن کی آمد کا ایک نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوا۔

1619ء میں جیمز ٹائون کے گرجاگھر میںاہم واقعہ رونماء ہوا یعنی کچھ لوگوں نے جمع ہوکراپنے مقامی مسائل کے حل کے لیے پنچایت قائم کی۔یہ امریکی کانگریس کے قیام کا غیر رسمی آغاز تھا۔اس پنچائیت کی کوششوں سے 1625ء میں بوسٹن میںایک لاطینی اسکول قائم ہواجس میں مفت تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا،جو امریکا میں پبلک اسکول کے نظام کی ابتداء تھی۔ بوسٹن ہی کے قریب 1636ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا۔یوں تعلیم اس نوآبادی کی اولین ترجیح ٹہری۔

1681ء میں ولیم پن نامی پادری نے، جس نے پنسلوانیاآبادکیاتھا،مذہبی آزادی کا میثاق تیار کیا،جس کا نعرہ تھاکہ ’’عوام کومذہبی آزادی، تعلیم کے حصول اوراپنے قوانین خود بنانے کا حق حاصل ہے۔‘‘یہ اصول بعد میںامریکی آئین کا حصہ بنے۔

اس دوران جان پیٹرزینگر نامی صحافی نے اپنے اخبار میں نیویارک کے گورنر پر تنقید کی، جس پر اسے گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔لیکن عدالت نے اسے باعزت بری کر کے امریکی تاریخ میں اظہار آزادی کا ایک باب رقم کیا۔جوآج امریکی معاشرے کی روایت کا حصہ ہے۔1774ء میں یورپی تارکین وطن نے جو اب خود کو امریکی کہلانے لگے تھے، برطانوی پالیسیوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا۔

1775ء میں جارج واشنگٹن کی قیادت میں امریکی فوجوں کی برطانوی فوجوںسے براہ راست جنگ شروع ہوئی۔اس دوران 13 نوآبادیات کے نمایندوں نے مل کر ایک آزاد مملکت کے قیام کا فیصلہ کیا۔ 1776کے اوائل میں ان نوآبادیات کے نمایندوں کا اجلاس ہوا جس میں ورجینیاکے نمایندے رچرڈہنری لی نے تجویز پیش کی کہ آزادی کا منشور تیارکیا جائے لی کی تجویز پر ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میںبنجامن فرینکلن اور ٹامس جیفرسن جیسے مدبر شامل تھے۔

4جولائی1776ء کو 13نوآبادیات کے نمایندوں کی اس مجلس نے جسے بعد میں کانگریس کا نام دیا گیا، منشورِآزادی کا مسودہ منظورکیا۔19اکتوبر1781ء کوسات برس تک جاری رہنے والی امریکاکی جنگ آزادی برطانوی جنرل کارنوالس کے ہتھیارڈالنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی۔ اب ایک نئے مگر ہیجان انگیز دور کا آغاز ہوا۔ریاستی نمایندے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔اغلب گمان تھا کہ برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والی ریاستوں کے وفاق کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

ایسے میں صاحب تدبیر 84سالہ بنجامن فرینکلن نے کانگریس سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ’’جب کسی میز کے تختے آپس میں برابر نہیں بیٹھتے تو بڑھئی دونوں کو تھوڑا تھوڑا چھیل کر ہموار کردیتا ہے۔ اس لیے ریاستی نمایندوں کو بھی اپنے مطالبات میں تخفیف و ترمیم کرنا چاہیے تاکہ یہ وفاق تادیر قائم رہ سکے۔‘‘ یہ ان کی آخری تقریر تھی،چند ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ 1779ء میں امریکی ریاستوں کے وفاق کا آئین تیار ہوکر نافذ ہو گیاجس میں 5اصولوں کو خاص اہمیت دی گئی۔’’مذہب کی آزادی،تحریروتقریرکی آزادی،اجتماع کی آزادی،پیشہ اختیار کرنے کی آزادی اورحرمتِ خانہ۔‘‘

1789ء میں جنگ آزادی کے ہیرو جارج واشنگٹن کو ملک کا پہلا صدر منتخب کیا گیا،جو اس نئے وفاق کی جمہوریت کی طرف آئین سازی کے بعد دوسری بڑی پیش قدمی تھی۔ بعد میںانہی کے دو وزیروںنے دو نئی سیاسی جماعتوں کی بنیاد رکھی، یعنی وزیر خزانہ الیگزینڈرہملٹن نے ریپبلکن پارٹی اور وزیر خارجہ ٹامس جیفرسن نے ڈیموکریٹک پارٹی تشکیل دی۔ اول الذکر جماعت طاقتور مرکز کی حامی تصور کی جاتی ہے، جب کہ موخرالذکر جماعت ریاستوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی حامی ہے۔

ان جماعتوں پر نہ کسی خاندان ، نہ کسی نسلی گروہ اور نہ کسی مسلک کی اجارہ داری ہے۔ رکنیت اور اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کے لیے شرط صرف امریکی شہری ہونا ہے۔ امریکا میں ہرچار برس بعد لیپ(Leap) سال کے اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں انتخابات ہوتے ہیں۔نیاصدر ڈھائی ماہ وائٹ ہائوس میں تربیت لینے کے بعد اگلے برس جنوری کے تیسرے ہفتے میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔سبکدوش ہونے والا صدر خاموشی سے اپنا سوٹ کیس اٹھا کر ایوان صدر یعنی وائٹ ہائوس سے رخصت ہوجاتا ہے۔یہ عمل گزشتہ سوادو سوبرس سے بغیر کسی تعطل کے جاری ہے۔شاید یہی اس قوم کی کامیابی کا بنیادی سبب بھی ہے۔

جمہوریت اور وفاقی نظام کے باضابطہ قیام کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکاکی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے پر عوام کی رضا اور منشاء سے اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے علم وآگہی اور تحقیق وتجربے کو فروغ دینے پر بھرپور توجہ دی۔زراعت میں تو خوشحال تھاہی، صنعتکاری نے اس کی معیشت کو چار چاند لگا دیے۔

اہمیت اس بات کی ہے کہ ہر حکمران نے اپنے عوام کو خوشحالی کی ایک نئی منزل عطا کرنے کے اس عزم اور عہد کو برقرار رکھا،جوجارج واشنگٹن کے حلف سے شروع ہوا تھا۔ جیسے جیسے وفاق مضبوط ہوتا گیا،نئی ریاستیںاس میں شامل ہوتی گئیں،حالانکہ مختلف اوقات میںایسے دور بھی آئے جب بہت سی ریاستیں وفاق سے علیحدہ ہوئیں، مگر یہ علیحدگی عارضی ثابت ہوئی اور وفاق کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلاگیا۔

1848ء سے امریکی خواتین نے ووٹ کے حق کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔بعض ریاستوں نے 1890ء کے لگ بھگ اس حق کو تسلیم بھی کیا، مگر خواتین کوووٹ کا حق26اگست1920ء کو اس وقت ملا جب کانگریس نے وفاقی آئین میں 19ویں ترمیم کے ذریعے اس حق کو قانونی شکل دی ۔لیکن سب سے بڑا قدم ابراہم لنکن نے اٹھایا، جنہوں نے صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد یکم جنوری1863ء کو ایک حکم نامے کے ذریعے غلامی کوممنوع قراردے کر انسانی مساوات کا ایک نیاچراغ روشن کیا،جو سماجی ناہمواری کے خلاف ایک بڑی کامیابی تھی۔

لیکن رنگ ونسل کی عصبیت برقرار رہی،جو بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے تک جاری رہی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیر کی جدوجہدکے نتیجے سیام فام عوام کو ہر سطح پر رفتہ رفتہ حقوق ملنا شروع ہوئے۔اسی جدوجہد کا صلہ ہے کہ آج ایک سیاہ فام اور نیم مسلم بارک حسین اوباماامریکا کا صدر ہے۔

یوں امریکا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدرت کے عطا کردہ وسائل ،اپنے عوام کی طاقت اور حکمرانوں کی عوام کے ساتھ نیک نیتی کے طفیل تیزی سے ترقی کرتے ہوئے عالمی طاقت بنتا چلاگیا۔امریکی حکومت دنیا کے لیے کیساہی روپ کیوں نہ رکھتی ہو،اپنے ملک کے عوام کے لیے وہ خادم کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکیوں کا یہ فخر حق بجانب ہے کہ ان کی حکومت ان کے اپنے نمایندوں پر مشتمل ہوتی ہے،جو بانیان وطن کے تیار کردہ آئین اور منشور آزادی کی پاسداری کرتی ہے۔

امریکاکی تاریخ پر اجمالی نظر ڈالنے کے بعد کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔کیا ہمارے رہنمائوں نے بانیاں ملک کے افکار ونظریات کو اہمیت دی؟کیاہماری حکومتوں نے اپنے وسائل پر قناعت اور اپنے عوام کی ہمت، جرأت اورجفاکشی پراعتماد کیا؟کیا ہمارے رہنمائوںنے اس ملک کو فلاحی ریاست بنانے پرکبھی توجہ دی؟کیا انھوں نے اس امریکا کی نظیر کو سامنے رکھا جس کے آگے ہمیشہ دست سوال پھیلائے رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کس بنیاد پرترقی یافتہ قوم ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکمران اپنا طرز عمل تبدیل کریں۔ مختلف ممالک کی جدوجہد کا مطالعہ کریں اور ان کے تجربات سے استفادہ کریں۔اسی میں ہماری ترقی اوربقاء کا راز مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔