گرگیا وہ شجر محبت کا

اقبال خورشید  ہفتہ 9 جولائی 2016
درویش صفت سماجی کارکن عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان تھے ۔  فوٹو : فائل

درویش صفت سماجی کارکن عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان تھے ۔ فوٹو : فائل

تو متبرک انسان کون ہے؟
وہ، جو قدرت کی ودیعت کردہ اچھوتی، انوکھی اہلیت شناخت کرلے۔ دل جس کا آفاقی دانش کے ساتھ دھڑکنے لگے۔ گیانی کہتے ہیں، زندگی گزاری نہیں جاتی، اِسے جیا جاتا ہے۔ اور جینے کا اِس سے اچھا ڈھب بھلا کیا ہوگا کہ اِسے اوروں کے لیے وقف کردیا جائے۔ کم ہی لوگ یہ نکتہ سمجھ پائے۔ اور جو سمجھ گئے، وہ اپنی زندگی ہی میں داستان بن گئے۔کیا تھے عبدالستار ایدھی؛ ایک عظیم سماجی کارکن؟ روشنی کا مینار؟ عزم کا پہاڑ؟ یا شاید ایک مکمل انسان۔ ایسا انسان، جو قدرت کی ودیعت کردہ اہلیت کو پہچان گیا۔ اور عظیم منصوبے میں شامل ہوگیا۔

ذرا اُن کے کارناموں پر غور تو کریں۔ اِس درویش نے 330 ویلفیئر سینٹر قائم کیے، 20 ہزار نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی، 50 ہزار یتیموں کو پناہ دی، 40 ہزار خواتین کو نرسنگ کی تربیت دی۔ 600 سے زاید ایمبولینسز کو ایک لڑی میں پُرور دیا۔ خدمت خلق کی ایسی داستان رقم کی کہ سننے والا انگشت بہ دنداں رہ جائے۔

شہرت فقط پاکستان تک محدود نہیں رہی۔ بین الاقوامی دنیا میں بھی اُن کے نام کا ڈنکا بجا۔ اور یہ بے سبب نہیں تھا، کہ اِس فقیر منش آدمی نے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کی۔ اپنی شفقت کو کبھی نسلی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا۔ اس کی محبت سب کے لیے یک ساں تھی۔

ایدھی صاحب کے کارناموں کی طرح اُن کی زندگی بھی حیران کن ہے۔ چلیں، ذرا ماضی میں چلتے ہیں، تاکہ اس عظیم انسان کی جدوجہد کو مرحلہ وار سمجھ سکیں:

سن پیدایش؛ 1928۔ جائے پیدایش، بانٹوا، ریاست گجرات، ہندوستان۔ والد کا نام؛ حاجی عبدالشکور ایدھی۔ پیشہ؛ کپڑے کے تاجر۔ بٹوارے کے بعد خاندان پاکستان چلا آیا۔ کم عمری ہی میں عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ والد سے کچھ پیسے لے کر تھوک فروش سے کچھ پینسلیں، تولیے اور ماچس کی ڈبیاں خرید لیں، اور اُنھیں بیچنے نکل پڑے۔ محنت نے کام یابی کی راہ ہم وار کی۔ پھر خوانچہ فروش ہوگئے۔

بازاروں میں پان فروخت کرتے رہے۔ گھر گھر دودھ پہنچانے لگے۔گیارہ برس کے تھے، جب والدہ پر بیماری نے حملہ کیا۔ کمر بستر سے لگا دی۔ کچھ برس بعد وہ جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔ اِسی تجربے نے اُن کے دل میں بیمار، لاچار انسانوں کی خدمت کی شمع روشن کی۔ جو جیب خرچ ملا کرتا، اُس کا آدھا حصہ کسی ضرورت مند کو دے دیتے۔فلاحی سفر کا باقاعدہ آغاز 48ء میں، میٹھادر میں قائم ہونے والی، بانٹوا میمن ڈسپنسری سے ہوا۔

اُسے چلانے کے لیے برادری نے آٹھ رکنی بورڈ تشکیل دیا۔ کچھ والد کی تحریک، کچھ اپنی خواہش؛ وہ اس سرگرمی کا حصہ بن گئے۔ بورڈ کے سب سے کم عمر رکن تھے۔57ء میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی، تو ایدھی صاحب نے شہر کے نواح میں کیمپ لگائے۔ مفت ادویہ تقسیم کیں۔ لوگوں نے اُن کا جذبہ دیکھتے ہوئے دل کھول کر چندہ دیا۔ یوں پہلی ایمبولینس خریدی۔ ڈسپنسری کے ساتھ میٹرنٹی ہوم، نرسوں کا تربیتی سینٹر شروع کیا۔ ان ہی سرگرمیوں نے کچھ برس بعد ’’ایدھی ٹرسٹ‘‘ کا روپ اختیار کیا۔

پہلی شادی ناکام گئی۔ اپنے انٹرویوز میں اِس واقعے کا ذکر وہ بڑی سادگی سے کیا کرتے۔ 65ء میں ڈسپنسری کی ایک نرس بلقیس سے شادی کی، جن سے دو بیٹے، دو بیٹیاں ہوئیں۔ جیسے ایدھی صاحب بے سہارا اور لاچار بچوں کے باپ تھے، اِسی طرح بلقیس ایدھی اُن بچوں کی ماں۔ اُنھوں نے میٹرنٹی ہومز کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جن معصوم بچوں کو ظالم معاشرہ ناجائز قرار دے کر قتل کردیتا، اُن کی کفالت کا ذمہ اٹھایا۔ ہر سینٹر کے باہر ایک جھولا لگا دیا۔ اس پر شدید اعتراض ہوا، مگر وہ اعتراضات خاطر میں نہیں لائے۔ بن ماں باپ کے ان بچوں کو سگوں سے زیادہ چاہا۔ اُن کی پرورش کی۔ سیکڑوں لڑکیوں کی شادی کی۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایک انسان اتنا کچھ کرگیا۔ مخلص رضاکاروں کی ٹیم۔ ایمبولینسز کا سب سے بڑا نیٹ ورک۔ ایئرایمبولینس اور امدادی مشینری کا انتظام۔ بے سہارا خاتون اور کے لیے شیلٹر ہومز بنائے۔ نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی مراکز قائم کیے۔ کون یقین کرے گا کہ یہ سلسلہ چھوٹی سی ڈسپنسری سے شروع ہوا تھا۔ایدھی حقیقی لیڈر تھے۔ فٹ پاتھ پر اپنے ورکرز کے ساتھ کھانا کھاتے۔ ایمبولینس خود چلاتے۔ تعفن زدہ لاشیں اٹھاتے۔ میتوں کو نہلاتے۔ مدد کے جذبے سے ایسے لیس کہ کیچڑ، ملبے اور دھوئیں میں بلاتردد گھس جاتے۔

کمال کے منتظم۔ اتنا بڑا ادارہ سنبھالنا کسی طور آسان نہیں، مگر وہ معاملات پر گہری نظر رکھتے۔ اگر کوئی بدعنوانی کرتا، تو فوراً گرفت کرتے۔ ذمے دار کو سزا دی جاتی۔ بڑا ہی منظم نظام قائم کیا۔ گلی سڑی لاوارث لاشیں، جنھیں کوئی ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتا، ایدھی اور ان کے رضاکار اُنھیں اٹھاتے۔ غسل دیتے۔

ایک خاص مدت تک وارث کا انتظار ہوتا۔ کوئی نہ آتا، تو ایدھی قبرستان میں دفن کردیا جاتا۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی وارث آجائے، تو مرنے والی کی تصویر دیگر ریکارڈ موجود ہوتا۔ وہ چلے گئے مگر امید ہے ان کا بنایا ہوا یہ نظام یوں ہی رحمت بنا رہے گا۔معذوروں کے لیے اُن کی شفقت کسی مرہم سے کم نہیں تھی۔ کہا کرتے تھے:’’اﷲ نے ہمیں مکمل انسان بنایا۔ ہم پر لازم ہے کہ جو مکمل نہیں، ان کی مدد کریں۔ ان کی آواز بنیں۔‘‘ انسانوں کے مانند جانوروں سے بھی انس تھا۔ کوئی بدحال جانور نظر آتا، تو فوراً علاج کرواتے۔ کراچی سپر ہائے وے پر لاوارث جانوروں کا ایک مرکز قائم کر رکھا تھا۔

صرف خدمت خلق تک محدود نہیں رہے۔ نہ صرف اپنے انتظامی معاملات، بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے بڑے سانحات، حادثات اور ہلاکتوں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ بھی محفوظ کیا۔ محققین کے لیے یہ ریکارڈ کسی نعمت سے کم نہیں۔

اپنی خدمات کو فقط پاکستان تک محدود نہیں رکھا۔ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا، یہاں تک کہ امریکا میں بھی امدادی ٹیمیں لے کر پہنچے۔ 2005 میں آنے والے ہری کین میں نیو اورلین کے متاثرہ خاندانوں کے سر پر دست شفقت رکھا۔شہرت نے انھیں تبدیل نہیں کیا۔ دنیا میں جہاں بھی گئے۔

جس معروف شخصیت سے ملے، اپنے کھدر کے جوڑے اور اسفنچ کی چپل کو کافی جانا۔ معمولی وسائل سے اپنا سفر شروع کرنے والے ایدھی صاحب پر ایسا وقت بھی آیا، جب اُن کی فاؤنڈیشن کا سالانہ بجٹ اربوں تک پہنچ گیا۔ حکومتی امداد سے زیادہ اپنے جیسے عام انسان پر اعتبار کیا، مخیر حضرات دل کھول کر چندہ دیا کرتے۔ اربوں روپے پاس تھے، مگر مزاج ذرا نہیں بدلا۔ عاجزی انکساری کا پیکر تھے۔ دو کمروں میں زندگی گزاری۔ آرام کے لیے سادہ فولادی پلنگ۔ گھر میں چھوٹا سا باورچی خانہ۔ اپنے کام خود کرتے۔ سینٹرز میں مقیم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلاتے، دھلاتے۔

2011 میں پاکستان کی جانب سے اُنھیں امن کے نوبیل انعام کے لیے نام زد کیا گیا۔ انعام اُنھیں نہیں ملا، مگر اس پر غم کیسا۔ سچ کہا جائے، تو انھیں کسی اعزاز کی ضرورت نہیں تھی۔ بین الاقوامی محبت ملی، احترام ملا، اسی کو وہ اصل اعزاز خیال کرتے۔ شہرت اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایدھی صاحب بھی ان کی زد میں آئے۔

سینٹرز کے باہر نصب جھولوں پر طرح طرح کے اعتراضات ہوئے۔ اُن کے چند بیانات کو بھی مذہبی حلقوں نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا معاملہ بھی خاصا گمبھیر رہا۔ دھمکیاں بھی ملیں۔ اُن کے سیاست میں آنے کی بازگشت بھی سنائی دی۔ سابق صدر، پرویز مشرف کے وہ حامی تھے۔ اِس حمایت کو جمہوریت پسندوں نے کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔دوران سفر بھی اُن کے ساتھ طرح طرح کے واقعات پیش آئے۔  2011میں بلوچستان میں فلاحی سرگرمیوں کے دوران وہ لاپتا ہوگئے تھے۔

خیر، قصّہ طویل ہے۔ موضوع سمیٹتے ہیں۔ ایدھی صاحب اب میں نہیں رہے۔ یہ صدمہ تو ہے، مگر سانحہ نہیں۔ وہ چلے گئے، مگر یادوں کا، خوابوں کا خزانہ چھوڑ گئے۔ اُن کا تذکرہ، جو شاید برسوں جاری رہے، ہمارے باطن کو مہکاتا رہے گا۔ لیکن صاحبو! اِس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے فقط الفاظ کافی نہیں۔ حق تو تب ادا ہوگا، جب ہم اس مجاہد کے نقوش پا کا تعاقب کریں، خدمت خلق کی راہ پر قدم رکھیں۔ اُن کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھائیں۔

یہی اُنھیں یاد رکھنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔