کس کو روئیں، کس کو کوسیں؟

فرح ناز  اتوار 10 جولائی 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

22 جون کا دن اس لیے یاد رکھا جائے گا کہ اس ماہ رمضان پاک میں بھی دشمن اپنے وار کرنے سے باز نہ آیا اور دن دہاڑے مشہور قوال امجد صابری کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کیسا جرم، کیسی بربریت ہے یہ کہ زندہ و سلامت ہنستے کھیلتے انسان سے اس کی زندگی چھین لی جائے۔

جب آدھا رمضان کریم گزر گیا تھا، لوگ اپنے روزوں اور عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، بھرے پرے دن کے وقت، چند دہشت گرد تابڑ توڑ گولیاں مار مار کر قتل کردیتے ہیں اور تمام سیکیورٹی کے ادارے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ جسٹس سجاد کے صاحبزادے کو دن دیہاڑے اغوا کرلیا جاتا ہے، تین ہٹی پر نعت خواں فرحان علی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔

اللہ خیر کرے، پولیس اور رینجرز دونوں موجود، مگر بے بس اور بے حس۔عام شہری چیختا چلاتا ہی رہ جاتا ہے اور یہ لوگ حادثے روکنے کے بجائے، حادثے ہونے کے بعد تعزیتی بیانات ہی جاری کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کیوں نہیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی جاتی، کیوں نہیں فنکاروں کو ان کا جائز مقام دیا جاتا، کیوں نہیں انصاف ہوتا نظر آتا اور کیوں نہیں یہ معاشرہ انسانوں کی طرح اپنے رویے کو درست کرتا؟ کیا قتل و غارت کرنا ہی انصاف ہے، کیا چوری، ڈکیتی، لوٹ مار ہی ہوتی رہے گی؟ کیوں ان درندوں کو سرعام لٹکایا نہیں جاتا، کیوں ان کو نیست و نابود نہیں کیا جاتا، کیوں سزائیں صرف بے بس اور غریب لوگوں کے لیے، کیوں؟ کیوں نہیں فوراً فوراً ان ظالموں کو ایسی عبرت ناک سزائیں دی جاتیں کہ دوسرے جرم کرتے وقت کچھ سوچیں، کیا قصور تھا امجد صابری کا؟ کیا قصور تھا اویس کا؟ کیوں اس مقدس ماہ کو قتل و غارت کے لیے چنا جاتا ہے؟عام شہری کی چیخ و پکار پر ان کو مدد کیوں نہیں دی جاتی، کیوں یہ ادارے بے بس اور بے حسی کی تصویر بن جاتے ہیں، باتیں بڑی بڑی کی جاتی ہیں اور نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔

بڑی گزارش ہے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اگر یہ حکومتیں بے کار اور اپاہج ہیں تو عوام پر کیوں مسلط ہیں، اتنے بڑے حادثے ہونے پر بھی صوبائی حکومت کو ڈس مس کیوں نہیں کیا جاتا، وزیراعلیٰ سے جواب طلبی کیوں نہیں ہوتی؟گورنر سندھ کیا صرف گورنر ہاؤس میں تقریبات کے انعقاد کے لیے ہیں؟ وزیر داخلہ کہاں ہیں؟ اس بابرکت مہینے کی حرمت کو کون برقرار رکھے گا؟ وزیراعظم لندن میں اپنا علاج معالجہ کروا رہے ہیں، اس کی قوم کا علاج و معالجہ کون کرے گا؟ہر آنکھ اشکبار ہے کہ اگر اس طرح ہی دن دہاڑے قتل و غارت ہوتے رہے تو پھر عوام کہاں جائیں؟ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مر جاتا، مٹ جاتا ہے۔ اللہ ان قاتلوں کو غارت کرے کہ صرف ہم اللہ سے ہی انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں وہ بے شک بڑا انصاف کرنے والا ہے۔

جو جان سے گیا وہ تو گیا، اب اس کی فیملی کتنا سفر کرے گی یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے، زیادہ پریشر پڑے گا تو ادارے ذرا اپنی ہل جل دکھائیں گے اور پھر سو جائیں گے اور شاید اپنے اٹھنے کا انتظار کریں گے، آخر کب تک یہ ملک ایک بہتر انتظام مانگتا رہے گا اور کب تک حکومتی ارکان لوٹ مار میں ملوث رہیں گے؟ ناکارہ نااہل صوبائی حکومت آخر کس دن کا انتظار کر رہی ہے اور اس کے انتظار کا خمیازہ عوام کو بھرنا پڑتا ہے اور رہے گا۔جو لوگ اداروں کو کمزور بنانا چاہتے ہیں جو وہ سازشیں کرتے ہیں ایسے لوگوں کو سرعام سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں اب کس وقت کا انتظار ہم کر رہے ہیں؟

اللہ کی پناہ! بڑی بڑی شخصیات کو اس ملک میں سازشوں کی نذر کردیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، آج تک بے نظیر بھٹو کی شہادت کا مسئلہ حل نہ ہوسکا، انٹرنیشنل شخصیت کی حامل بے نظیر بھٹو کو کس نے مارا، کیوں مارا، آرمی اسکول پشاور ناقابل فراموش، دلخراش واقعہ جو ہم بھلائے نہیں بھول سکتے اور آج بھی سوچ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

مت قتل کرو آوازوں کو
ہم لوگ محبت والے ہیں

تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
تم کس کا لہو لینے آئے ہو

ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے

جب صرف یہاں مرجائے گا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا

پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤگے

(احمد فراز)

سمجھ سے باہر ہے کہ کس کو روئیں اور کس کس کو کوسیں، کس کس کو بددعائیں دیں، بہت تیزی کے ساتھ ہم تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں، پیسے کی چمک دمک نے عورت و مرد دونوں کو بدمست کیا ہوا ہے کہ حرام و حلال سب غارت ہوگیا ہے، وہی خواہشیں، غربت کی حسرتیں، بہت کچھ پانے کی ہوس ہمیں انسانوں سے نکال کر جانوروں کی صفوں میں کھڑا کر رہی ہے، آنکھیں بند کرکے تسبیح ہاتھ میں لے لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، فوری اقدامات، فوری جزا و سزا، اور ایماندار جج، ہماری فوری ضرورت ہیں۔ پولیس کے ادارے کو ڈاکہ زنی کا ادارہ نہ بننے دیا جائے، بہتر لوگ اس میں بھرتی ہوں، رشوت کے بازار سے زیادہ غیرت گرم ہو۔ فرض ہے کہ اپنی عورتوں کی عزت کرو کہ اپنی عورتوں کی عزت کرو گے تو تمام عورتوں کی عزت حرمت کا خیال رکھوگے۔

سندھ کی صوبائی حکومت آخر کب بیدار ہوگی اور کون اس کو جگائے گا، قائم علی شاہ کیوں وزیر اعلیٰ ہیں، یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ اور ہمارے ادارے ان کو کیوں برداشت کر رہے ہیں، اتنا کچھ ہونے کے باوجود جوں کے توں وہی چہرے نظر آتے تو ہم کیا کہتے، کیا یہ ملک اور یہاں کی عوام لاوارث اور یتیم ہے، کیا ہماری عورتیں بھی اندھی ہوگئی ہیں، کیا ہمارے مرد عقل و دانش سے بے نیاز ہوگئے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔