بارِ احساسِ یتیمی سے ہر اِک دل ہے اُداس

تنویر قیصر شاہد  پير 11 جولائی 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ایک دلکشا منظر یاد آ رہا ہے: تقریباً دس برس پہلے کی بات ہے۔ یہ سخت سردیوں کا موسم تھا۔ مَیں اپنے چند عزیزوں کے ساتھ لندن جا رہا تھا۔ برطانوی ویزے کے حصول کے لیے ہم صبح سویرے ہی اسلام آباد میں بروئے کار برٹش ہائی کمیشن کے عقب میں پہنچ گئے۔ وہاں ایک طویل قطار میں بے شمار لوگ کھڑے تھے۔ اپنی اپنی دستاویزات اور پاسپورٹ سنبھالے۔ اتنی لمبی لائن دیکھ کر میرا تو دل بیٹھ گیا۔

بہرحال ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے قطار میں لگ گئے۔ سب کی نظریں سامنے ایک بلند سنگلاخ دیوار میں لگی ایک کھڑکی نما دروازے پر لگی تھیں جہاں ایک با وردی اور مسلح محافظ کی نگرانی میں برطانوی ویزے کے سائل رینگتے ہوئے اندر داخل ہو رہے تھے۔ یہ صبر آزما لمحہ تھا۔ لائن میں لگے اور سردی میں کانپتے تقریباً تین گھنٹے گزر گئے تھے کہ اچانک لوگوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ قطار میں کھڑے سب لوگ سامنے دیکھنے کے بجائے پیچھے کی جانب دیکھنے لگے۔ مَیں نے بھی مُڑ کر دیکھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ پیچھے چند گورے کھڑے تھے۔ وہ برطانوی ہائی کمیشن کے سینئر اہلکار لگتے تھے۔ خبر حاصل کرنے کی میری حِس جاگ اٹھی۔ مَیں نے اپنے ساتھی سے جگہ پر قابض رہنے کی درخواست کی اور عقب کی جانب لپکا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ واقعی وہ تین دراز قد برطانوی گورے اپنے دو تین پاکستانی عملے کے ساتھ ایک شخص کے سامنے مؤدب کھڑے ہیں اور اس شخص سے نہایت احترام کے ساتھ کچھ کہہ رہے ہیں۔

مَیں نے مزید آگے بڑھ کر دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ وہاں جناب عبدالستار ایدھی صاحب کھڑے تھے۔ دوسرے عام لوگوں کی طرح عام قطار میں۔ ہمیشہ کی طرح چہرے پر ہلکی ہلکی سی مسکراہٹ لیے۔ حسبِ معمول معمولی سے ملیشیا کے لباس میں ملبوس۔ پاؤں میں کینوس کے سستے سے بُوٹ۔ اندر سے آنے والے برطانوی سفارتخانے کے افسران ایدھی صاحب سے گزارش کر رہے تھے پلیز، آپ اس قطار میں کھڑے نہ ہوں، ہمارے ساتھ ہائی کمیشن کے اندر تشریف لے چلیے جہاں آپ کی خدمت بھی کی جائے گی اور جس کام کے لیے آپ آئے ہیں، وہ بھی عزت و احترام سے کر دیا جائے گا۔ آج ہم اس معزز اور محبوب شخصیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ عبدالستار ایدھی صاحب اللہ کی رحمت میں جا چکے ہیں اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام افسردگی اور غم میں ڈوب گئے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان سے کیا اٹھے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے کہ نیکی اور خیر کی علامت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے۔

عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اور وفاشعاری کی علامت ہم سے چھِن گئی ہے۔ جناب عبدالستار ایدھی غم خواری، دلداری اور دستگیری کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ ’’ستار‘‘ اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے۔ یعنی عیب چھپانے والا، لوگوں کے پردے رکھنے والا۔ ستر ڈھانپنے والا۔ ستار ایدھی صاحب نے لاوارث اور بے نام نومولود بچوں کو اپنی گود میں لے کر، انھیں اپنا نام دے کر، اپنی چھتر چھاؤں میں رکھ کر جس طرح بے لوث خدمات انجام دیں، واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔

خدا کے فضل و کرم سے پاکستان میں اور بھی بہت سے لوگ دامے درمے دکھی انسانیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں، محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر بے یارومددگاروں کی دستگیری کرنے کی مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں لیکن ستار ایدھی صاحب کی مثل کوئی نہیں۔ راقم الحروف نے امریکا میں بھی ان کی پذیرائی کے کئی دلکش اور دلکشا مناظر دیکھے ہیں۔ مَیں نے واشنگٹن اور نیویارک میں پاکستانیوں کو ایدھی صاحب سے والہانہ انداز میں لپٹتے اور بڑھ چڑھ کر ان سے مالی تعاون کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ امریکا میں بھی وہ بدستور ملیشیا کے لباس اور عام سی ہوائی چپل میں نظر آتے۔ ایدھی صاحب امن، پیار، محبت اور بھائی چارے کے پیامبر تھے۔

ان عناصر کے عملی مبلّغ اور پرچارک۔ مسلک و مذہب سے قطعی طور پر لاتعلق ہو کر انسانوں کی سیوا کرنے والے۔ ان کی رخصتی کے بعد ہمیں تو ان کا مثیل کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ امن کے پرچار اور امن کے پھیلاؤ کے لیے ان کی بے مثل خدمات کے پس منظر میں ہم سب پاکستانیوں کی خواہش اور تمنا تھی کہ ان کی خدمت میں امن کا نوبل انعام پیش کیا جاتا مگر متعصب اہلِ مغرب نے ہماری اس اجتماعی تمنا کو پورا نہ ہونے دیا۔ جس سال انھیں امن کا نوبل انعام دیے جانے کی توقع مضبوط تھی، اس برس بھارت میں مقیم مدرٹریسا کو نوبل انعام سے نواز دیا گیا۔ ہمارے دل ٹوٹ ہی تو گئے تھے لیکن درویشِ خدامست عبدالستار ایدھی صاحب کو اس کا ملال تھا نہ افسوس۔ درحقیقت وہ انعامات و اکرامات سے کہیں بلند تھے۔ ایسی خواہشات کو پال کر انھوں نے اپنے پاکیزہ اور من موہنے دل کو آلودہ نہ ہونے دیا۔ اہلِ مغرب کے انداز بھی تو نرالے ہیں اور ترجیحات بھی۔

انھوں نے پاکستان کی ایک گمنام سی لڑکی کو، انسانی خدمات کے اعتبار سے جو ایدھی صاحب کے پاسنگ بھی نہیں، امن کے نوبل انعام سے تو نواز دیا لیکن انھیں ایدھی صاحب کی پہاڑ ایسی شخصیت نظر نہ آئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ نوبل انعام کی تقسیم میں بھی سیاست چلتی ہے۔ پاکستانیوں کو اہلِ مغرب کی اس Discrimination کا ہمیشہ قلق اور ملال رہے گا۔ ایدھی صاحب کی زندگی کے آخری ایام کے دوران پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ محترمہ تہمینہ درانی نے عبدالستار ایدھی صاحب سے محبت و ارادت کا حق ادا کر دیا۔ ویسے تو تہمینہ درانی صاحبہ ہمیشہ ہی ایدھی صاحب سے محبت و اکرام کے سلسلے میں بندھی رہی ہیں۔ ایدھی صاحب کی حیات و خدمات پر لکھی گئی ان کی معرکہ آرا کتاب (Edhi:  A  Mirror  To  The  Blind) اس امر کا بیّن ثبوت ہے۔ ایدھی صاحب زیادہ علیل ہوئے تو ان کے گھر اور اسپتال میں جا کر عیادت کرنے والے اوّلین لوگوں میں محترمہ تہمینہ درانی سرِفہرست تھیں۔

اس حوالے سے ان کے با تصویر ٹویٹ قابلِ ذکر بھی ہیں اور قابلِ ستائش بھی۔ جناب وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی لندن سے پاکستان روانہ ہونے سے قبل ایدھی صاحب کی تعزیت میں بیان دیے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جس روز وزیراعظم صاحب صحت یابی کے بعد لندن سے پاکستان پہنچ رہے تھے، اسی شام ایدھی صاحب اللہ کے حوالے کیے جا رہے تھے۔ یا خدایا، ایدھی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔