میرا نقطہ نظر

مقتدا منصور  جمعرات 14 جولائی 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل سوشل میڈیا پر فحاشی اور عریانیت کے موضوع پر بڑی شدومد کے ساتھ بحث و مباحثہ جاری ہے۔ بحث و مباحثہ صحت مند رجحانات کی عکاسی کرتا ہے، بشرطیکہ وہ دلیل و براہین کی بنیاد پر ہو۔ چند برس قبل بھی یہ موضوع ذرایع ابلاغ کی زینت بنا تھا، جب ایک ریٹائرڈ جج اورایک مذہبی جماعت کے رہنما نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دی تھی کہ ذرایع ابلاغ میں ہونے والی عریانی اور فحاشی کے سدباب کے لیے احکامات صادر کیے جائیں۔ اس مقدمے کو فوقیت بخشی گئی اور دو تجزیہ نگاروں کو عریانیت اور فحاشی کی تعریف متعین کرنے کی ذمے داری سونپ دی گئی، مگر دونوں صاحبان علم کوئی واضح تعریف مرتب کرنے میں ناکام رہے۔ یوں اس وقت سے یہ مقدمہ سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔

ایسا محسوس  ہورہا ہے کہ بعض مخصوص حلقے یا افراد اس نان ایشو کو بار بار اٹھا کردراصل  خواتین کو دور قبائلیت میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل چند نکات کو سمجھنا ضروری ہے۔

اول، عریانیت(Nudity)اور فحاشی(Vulgarity)دو الگ انسانی رویے ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے گڈ مڈ نہیں کیا جاسکتا ۔دوئم، فحاشی غیر واضح اور مبہم اصطلاح ہے،اس لیے اس کا کوئی واضح اور معیاری پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ ہر معاشرے میںاس کی الگ تفہیم و تشریح پائی جاتی ہے۔سوئم، فحاشی کے لیے عریانیت ضروری نہیں، بلکہ یہ پورے لباس کے ساتھ بھی ممکن ہے۔ عام طورپر کسی فرد کی حرکات و سکنات اور بدن بولی (Body language) فحاشی کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔ چہارم، فحاشی کسی ایک صنف سے عبارت نہیںہے، بلکہ دونوں اصناف (یعنی مرد اور عورت) اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں فحاشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ فحاشی کا کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے مختلف معاشروں کو جانے دیجیے، ایک ہی معاشرے کے اندر مختلف حلقے اس بارے میں مختلف رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ جو حرکات وسکنات، تحاریر یا تصاویرکسی ایک فرد یا حلقے کے لیے فحش قرار پائیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا فرد یا حلقہ اس بارے میں ایسی رائے نہ رکھتا ہو۔ یہی کچھ معاملہ تحاریر و تقاریرکا ہے۔ کئی اہم اہل قلم کی تحاریر پر فحش نگاری اور مصوروں کی تخلیقات پر فحش ہونے کے الزامات ہی نہیں لگے ، بلکہ ان پر مقدمات بھی قائم ہوئے۔ ماضی قریب میں اردو کے مایہ ناز افسانہ نگاروں سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی پر فحش نگاری کے الزامات عائد کیے گئے۔

پروفیسر احمدعلی کے افسانے’’ مہاوٹوں کی ایک رات‘‘  کو بعض ناقدین  نے فحش قرار دیا۔ یورپ میں بھی سترھویں اور اٹھارویں صدی کے دوران کئی نامور قلمکاروں پر فحش نگاری کا الزام لگا اور ان کے اہم ادبی شہ پاروں کو فحش قرار دیا گیا ، مگرمغرب ہو یا مشرق،کہیں بھی عدالت میں ان کی تحاریرکو فحش ثابت نہیں کیا جا سکا۔

چونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کا ہے، اس لیے مردوں کی حرکات و سکنات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سرعام استنجا کرنا بھی ایک ایسا عمل ہے، جس کے بارے میں علما سمیت تمام متوشش شہری اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کھلی بے ہودگی اور فحاشی ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم نے پشاور یونیورسٹی کے استاد اور ممتاز عالم دین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز سے استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل کسی بھی طور اسلامی نہیں ہے، بلکہ مقامی طرزحیات کا حصہ ہے۔ مگرکوئی بھی مبلغ لوگوں کو اس انتہائی معیوب عمل کو سرِ راہ کرنے سے روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کررہا۔ خواتین کا کہنا ہے کہ 95فیصد مرد جس انداز میں انھیں گھورتے ہیں، وہ کھلی فحاشی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فحاشی اجتماعی سے زیادہ انفرادی معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ صرف مشرق ہی میں نہیں، بلکہ مغرب میں بھی اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔

عریانیت یاNudityایک قطعی مختلف طرز عمل ہے۔ اس سے مراد انسانی جسم کی مکمل یا بعض حصوں کی بے لباسی ہے۔اس کے لیے بھی کوئی آفاقی اصول و ضوابط نہیں ہیں۔ بلکہ ہر معاشرے کی اپنی اقدار و روایات اور معیارات ہیں ۔ یہ معاشرے کی تہذہبی اقدار اور سماجی روایات پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بے لباسی کو کس حد تک قبول کرتا ہے۔ جسم کے کن حصوں کی بے لباسی معاشرے کے لیے قابل قبول ہوتی ہے اور کون سے حصے ایسے ہیں، جن کی بے لباسی معیوب سمجھی جاتی ہے، لیکن یہاں بھی یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان اصولوں کا اطلاق مردوزن دونوں پر لاگو ہوتا ہے، صرف کسی ایک صنف کے لیے مرتب کردہ اصول صنفی امتیاز کا باعث ہوتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میںخواتین یا مردوں کا پیٹ کا کھلا ہونا معیوب ہے، جب کہ پنڈلیوں کی برہنگی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس برصغیر میں پنڈلیوں کا کھلا ہونا برا سمجھا جاتا ہے، جب کہ پیٹ کے کچھ حصوں کی بے لباسی پر اعتراض نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں خواتین اسکرٹ پہنتی ہیں، لیکن ساڑھی باندھنے سے گریزکرتی ہیں۔کیونکہ اس میں پیٹ کا کچھ حصہ بے لباس ہوتا ہے۔

اس کے برعکس برصغیر میں خواتین اسکرٹ پہننے سے اجتناب کرتی ہیں، کیونکہ پنڈلیوں کا برہنہ ہونا اس خطے میں ناپسندیدہ عمل ہے۔یہی کچھ معاملہ مردوں کے نیکر پہننے کا ہے۔ کچھ مرد نیکر پہن لیتے ہیں ، لیکن عمومی طور پر اسے ناپسند کیا جاتا ہے جب کہ ہندو مسلم کی تخصیص کے بغیر ساڑھی خواتین کا مقبول پہناوا ہے۔ خاص طور پر بنگال اور جنوبی ہند میں خواتین کا واحد مرغوب لباس ساڑھی ہی ہے۔  لیکن معاملہ پھر صنفی امتیاز کا ہے۔ تمام تر پابندیاں خواتین کے لیے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خواتین کے جسم کے کچھ حصوں کی بے لباسی، مردوں کے جذبات کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے، تویہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مردوں کے بعض حصوں کی بے لباسی خواتین کے جذبات مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ لہٰذا جو حلقے خواتین کے جسم کے بعض حصوں کی بے لباسی پر اعتراض اٹھاتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ مردوں کی بے لباسی پر پابندی کا بھی مطالبہ کریں۔ لیکن شاید وہ ایسا نہ کریں، کیونکہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں زر اور زمین کی طرح ’’زن‘‘ کو بھی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ ملکیت کے بارے میں ہر فیصلے کا حق مالک کوہوتا ہے کہ وہ اسے کس طرح برتتا ہے اورکس انداز میں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جس طرح مکانوں اور دکانوں کو سجایا جاتا ہے، خواتین کو بھی اسی طرح بنا سجا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کی عیاری ہے کہ اس نے عورت کو بناؤ سجاؤ کا حق قرار دے کر اس کی سیاسی و سماجی بااختیاریت کو سلب کرلیا ہے۔

صنعتی انقلاب تاریخ انسانی میں وہ عظیم واقعہ ہے، جس نے دیگر ان گنت تبدیلیوں کے ساتھ فکرِ انسانی کو بھی مکمل طور پر تبدیل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی نے تحقیق و تخلیق کے دروازے کھول دیے۔ سائنس نے ثابت کیا کہ عورت کی حیاتیاتی (Biological)ساخت اور فطری ذمے داری مردوں سے مختلف ہوتی ہے، لیکن سماجی طورپرکسی بھی لحاظ سے مرد سے کمتر نہیں ہے۔یہ طے ہے کہ قبائلی اور جاگیردارانہ Mindset رکھنے والے بعض حلقے کبھی مذہب اور ثقافتی اقدار کو بنیاد بنا کر، کبھی فحاشی اور عریانی جیسی مبہم اور غیر واضح اصطلاحات کا سہارا لے کر جذباتی فضا پیدا کرنے کوشش کررہے ہیں، تاکہ خواتین کی معاشرتی بااختیاریت کا راستہ روکا جا سکے۔

یہ بات ہم سب کو اپنے ذہنوں میں واضح کرلینا چاہیے کہ جذباتی تحاریر و تقاریر کے ذریعے عوام الناس کواب مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ قدامت پرست عناصر خواہ کتنی ہی سازشیںکیوں نہ کرلیں اور قنوطیت پسند قلمکار سمندر بھر سیاہی سے صفحات کے صفحات سیاہ کیوں نہ کرلیں، قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کے سورج کو غروب ہونے سے نہیں بچا سکتے۔

ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی عورت اب اتنی کمزور نہیں رہی ہے کہ وہ قدامت پرست عناصر کی سازشوں سے مرعوب ہوکر اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائے۔ اگر کوئی ضیا ء الحق جیسا شخص اقتدار پر قابض بھی ہوجائے تو پاکستانی عورت1980کے عشرے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گی۔ فحاشی ذہن کے اندر پروان چڑھتی ہے۔ اسے صنف مخالف سے مشروط کرنے اور حکومتوںسے اس کے خاتمے کے مطالبات کرنے کے بجائے اس کے جراثیم اپنے اندر تلاش کر کے ان پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔