کیا وزیراعظم ایسے بھی ہوتے ہیں؟

ایاز خان  جمعرات 14 جولائی 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کل سے ایک تصویر نے حیران کیا ہوا ہے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون گتے کا ایک ڈبہ اٹھائے نظر آ رہے ہیں یہ ڈبہ غالباً اشیاء کی پیکنگ کا لگ رہا ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس ڈیوڈ کیمرون کل تک برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔

وزیراعظم بھی ایسا جو بھاری مینڈیٹ لے کر مسلسل دوسری مرتبہ منتخب ہوا تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک پانامہ لیکس کا بم پھٹ گیا اور کئی دیگر عالمی سربراہان اور ان کے اہل خاندان  کی طرح کیمرون کے والد کی بھی ایک آف شور کمپنی نکل آئی۔ پارلیمنٹ میں شور اٹھا تو برطانوی وزیراعظم نے اپنے سارے مالیاتی کھاتے اس منتخب ایوان کے سامنے رکھ دیے۔ یہ کھاتے چونکہ کلیئر تھے ان میں کوئی ہیر پھیر نہیں تھا اس لیے پورا ایوان اپنے چیف ایگزیکٹو کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ ڈیوڈ کیمرون پھر سے بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم بن گئے۔

یہ بحران ٹل چکا تھا لیکن چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک اور بحران سامنے آ گیا۔ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے وعدے کے مطابق یورپی یونین میں رہنے یا اسے چھوڑنے پر ریفرنڈم کرا دیا اس ریفرنڈم کو بریگزٹ کا نام دیا گیا۔ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں تھے مگر انتہائی قلیل اکثریت نے اس سے الگ ہونے کا فیصلہ دے دیا۔ یہاں سے کیمرون کی’’بیوقوفی‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ موصوف اکتوبر تک مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن چار ماہ کے بجائے تین ہفتے سے بھی پہلے گھر چلے جاتے ہیں۔

مجھے گورے وزیراعظم کی حرکت نے حیران کر دیا ہے۔ یہ کیسا وزیراعظم تھا جسے اپنی قوم کی خدمت کرنے کا شوق ہی نہیں تھا۔ اس نے دوسری ٹرم کے لیے ووٹ اپنی مقبولیت اور پالیسیوں کی وجہ سے لیا تھا۔ پارلیمنٹ میں بھاری مینڈیٹ اس کے ساتھ تھا۔ پانامہ لیکس پر اپوزیشن ارکان کے سخت سوالوں کے جواب بھی اس نے بڑی خندہ پیشانی سے دیے تھے۔ ریفرنڈم میں بھی صرف ایک فیصد کی اکثریت دوسری طرف تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے والوں کی ایک معقول تعداد نے علیحدگی کے حق میں اس لیے اپنی رائے دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر برطانوی ان کا ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ چند ماہ کے اندر اس ایشو پر دوبارہ ریفرنڈم ہوا تو برطانوی عوام کی اکثریت یورپی یونین کے اندر رہنے کے حق میں فیصلہ دے گی۔ برطانوی آئین کے مطابق کسی ایک ایشو پر تین بار ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔

بھلا اتنی چھوٹی سی بات پر کوئی وزیراعظم استعفیٰ دیتا ہے؟ ہمارے ہاں بڑے سے بڑا طوفان بھی وزیراعظم کو ٹس سے مس نہیں کرتا۔ ان میں ’’خدمت‘‘ کا جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہمارے وزیراعظم نواز شریف لندن میں 48 روزہ علاج کے بعد واپس آئے ہیں۔ انھوں نے لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی یہ اعلان کیا کہ وہ قوم کی خدمت پہلے سے زیادہ کرنے کا عزم لے کر آئے ہیں۔

برطانیہ میں پانامہ لیکس کا مسئلہ کئی ماہ پہلے حل ہو چکا۔ دیگر ممالک میں بھی کارروائیاں ہو چکیں۔ دنیا کے سب سے بڑے فٹبالر ارجنٹائن کے لیونل میسی کو 21 ماہ کی سزا اور بھاری جرمانہ ہو چکا اور ہم ابھی تک ٹیاو آرز فائنل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹیاں کمیٹی، کمیٹی کھیل کر فارغ ہو چکیں۔ وزیراعظم نے ڈیڑھ ماہ بعد وطن واپس آ کر پھر وزیرخزانہ اسحق ڈار کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ اپوزیشن کو منا لیں۔ کمیٹی کمیٹی کا کھیل شاید ایک دو ہفتے مزید چلے۔ غالباً حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی وقت درکار ہے۔

ایک کو اس ایشو سے جان چھڑانے کے لیے وقت چاہیے اور دوسری کو تحریک یا احتجاج شروع کرنے کے لیے۔ یوں دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ غلطی پر کوئی بھی نہیں۔ حکومت کا خیال ہے زیادہ وقت گزرنے کے بعد اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی جب کہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اتنی گرمی میں لوگ احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔

ڈیوڈ کیمرون جیسے وزیراعظم کو تربیت کی ضرورت ہے۔ انھیں تربیتی کورس پر پاکستان آنا چاہیے۔ اس طرح کا اہتمام یورپ، امریکا یا دبئی میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی اکثریت انھی جگہوں پر رہنا پسند کرتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے سیکھیں کس طرح مشکل ترین حالات میں بھی وزارت عظمیٰ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ بڑے سے بڑاسکینڈل بھی آ جائے تو کیسے ثابت قدمی سے اپنے منصب سے چمٹے رہنا ہے۔ میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ مقبول وزیراعظم اچانک استعفیٰ دے کر گھر چلا گیا مگر جمہوریت کمزور نہیں ہوئی۔

ہمارا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے استعفیٰ دیا تو جمہوریت کمزور ہو جائے گی۔ شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ ملک سے کرکٹ کا ٹیلنٹ ختم ہو گیا ۔ مجھے لگتا ہے کہ سیاست کا ٹیلنٹ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کی طرح (ن) لیگ کے پاس بھی بھاری مینڈیٹ ہے لیکن دونوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔ وہاں برطانیہ کی تاریخ کی دوسری خاتون وزیراعظم کا اعزاز تھریسا مے حاصل کر چکی ہیں۔ یہاں (ن) لیگ کے پاس وزارت عظمیٰ کے لیے نواز شریف، نواز شریف اور صرف نواز شریف ہیں۔ پوری پارٹی میں ایک بھی ایم این اے اس قابل نہیں کہ وہ میاں صاحب کی جگہ لے سکے۔ یہ ٹیلنٹ کی کمی نہیں تو اور کیا ہے۔

ڈیوڈ کیمرون کا ایک اور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ برطانوی خاتون اول نے اپنے شوہر سے گاڑی خریدنے کے لیے کہا۔ دونوں میاں بیوی سر جوڑ کے بیٹھے اور حساب کتاب لگایا۔ پتہ چلا کہ نئی گاڑی خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ طے ہوا کہ کسی ڈیلر سے رابطہ کیا جائے۔ ڈیوڈ کیمرون کو یاد آیا وزیراعظم بننے سے قبل ایک انتخابی مہم کے دوران انھیں کسی کار ڈیلر نے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا تھا۔ انھوں نے اس ڈیلر کا نمبر ملایا اور اپنی ڈیمانڈ بتائی۔ ڈیلر نے ایک دو دن کی مہلت مانگی اور پھر تقریباً1500 پاؤنڈ کی ایک سیکنڈ ہینڈ کار تلاش کر لی۔ ڈیوڈ کیمرون نے وہ کار خریدی اور خاتون اول کے حوالے کر دی۔ کیا اس طرح کے ہوتے ہیں وزیراعظم۔

ہمارے ہاں تو اس طرح کے کسی ایم پی اے کے امیدوار کو بھی کوئی ووٹ نہ دے۔ کونسلر بھی شاید مشکل سے منتخب ہو سکے۔ وزیراعظم اور طاقتور صدر بننے کے لیے تو ضروری ہے کہ جاتی امراء یا سرے جیسا کوئی محل آپ کی ملکیت ہو۔ ملک سے باہر کاروبار، جائیدادیں، آف شور کمپنیاں یا سوئس اکاؤنٹس ہوں۔ غریب آدمی کو یہاں کون پوچھتا ہے۔ ہمارا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ چھوٹی کار پر ووٹ مانگنے آنے والے کو ہم گھاس تک نہیں ڈالتے۔ ہم انسانیت سے نہیں شان و شوکت سے قائل ہونے والی قوم ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کے مقابلے میں یورپ اور امریکا کے لیڈرکیا بیچتے ہیں۔ وہ وزیراعظم ہاؤس یا ایوان صدر سے نکلتے ہیں تو نوکری تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر جب اقتدار چھوڑتے ہیں تو انھیںایک ہی فکر ہوتی ہے کہ دولت کوکہاں ٹھکانے لگائیں۔ مغرب کے حکمرانوں پر یہ محاورہ فٹ آتا ہے ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔ کیا وزیراعظم ایسے بھی ہوتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔