جگر میں چربی بننے کا مسئلہ

آلودہ پانی اور ناقص غذا کی وجہ سےاس اہم عضو کو نقصان پہنچ سکتا ہے


محمد احسان July 14, 2016
آلودہ پانی اور ناقص غذا کی وجہ سےاس اہم عضو کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

جگر کے عام امراض کے علاوہ بعض بیماریاں ایسی بھی ہیں جو زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ ان بیماریوں کی بڑی وجہ آلودہ پانی اور ناقص یا غیرمعیاری غذا کا استعمال بھی ہے۔ انسانی جسم میں جگر کئی اہم کام انجام دیتا ہے۔ جگر کا کام نظام ہاضمہ کو درست رکھنا اور جسم کا حصّہ بننے والی خوراک سے فاسد مادے علیحدہ کر کے دل کو صاف خون مہیا کرنا بھی ہے۔

یہ ہماری خوراک سے مختلف قسم کی توانائی کو الگ کر کے جمع کرتا ہے، ہارمونز کے نظام کو بھی جگر مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کی خرابی سے انسانی جسم کے دوسرے اعضا پر بھی متأثر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں جگر کے مختلف عام امراض کی ایک وجہ غیرمتوازن خوراک اور کھانے پینے کی اشیا کی تیاری اور استعمال میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہ رکھنا بھی ہے۔

ماہرینِ صحت کے مطابق علاج کی ناکافی سہولیات ان بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ جگر کے امراض میں ایک مرض فیٹی لیور بھی ہے جو اس اہم عضو کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس کی کارکردگی پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس بیماری میں جگر میں چربی کی تہ جمنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں یہ عضو اپنا کام درست طریقے سے انجام نہیں دے پاتا۔ یہ چربی چھوٹی چھوٹی گول گیندوں کی شکل میں خلیوں کے درمیان پھنس کر اس کے افعال کو متأثر کرتی ہے۔ ہیپاٹائٹس، شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے علاوہ مٹاپا، جسم میں وٹامن اور غذا کی کمی، دواؤں کا زیادہ استعمال اور پیٹ کے مختلف امراض بھی فیٹی لیور کی وجہ بنتے ہیں۔

فیٹی لیور پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانوں کو لاحق ہونے والا طبی مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے جگر کے خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس طبی مسئلے کا شکار جگر میں بڑی تعداد میں مردہ خلیوں کا ایک جال سا بننے لگتا ہے۔ یہ جگر کو خون کی روانی میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور کئی جسمانی پیچیدگیاں جنم لینے لگتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے اس کی پہلی علامت جسمانی کم زوری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جو مستقل نہیں ہوتی۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں زیادہ تر افراد ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے اور اسے معمولاتِ زندگی انجام دینے کے دوران ہونے والی تھکن سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی دوسری اہم علامت پیٹ کے اوپری حصّے میں درد کی شکایت ہے۔ یہ معمولی نوعیت کا درد ہوتا ہے، جو عموماً پیٹ کے دائیں جانب اٹھتا ہے۔ اس بیماری کا شکار لوگ جب ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، تو وہ علامات جاننے کے بعد خون کے مختلف ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں، جس کے بعد فیٹی لیور کی تشخیص ہوتی ہے۔ جگر کی بعض بیماریاں اسے آہستہ آہستہ ناکارہ بنا دیتی ہیں اور انسان موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس اہم عضو کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچنے کی صورت میں اس کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ انسانی اعضا کی پیوند کاری اب نئی بات نہیں اور عطیہ شدہ جگر کی پیوند کاری بھی کی جا چکی ہے۔

پچھلے سال طب کی دنیا میں پہلی بار ایک مشین کی مدد سے عطیہ شدہ جگر کو انسانی جسم کے بغیر زندہ رکھنے کا تجربہ بھی کیا گیا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور انسانی اعضا کی پیوندکاری کے لیے مشہور کنگ کالج لندن کے طبی ماہروں کا کہنا تھاکہ اس مشین کی مدد سے جگر کو انسان کے جسم کے درجۂ حرارت پر 24 گھنٹے تک متحرک اور افعال انجام دینے کے قابل رکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عرصے میں خود کار مشین کی مدد سے جگر کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار خلیوں کی مرمت بھی کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے اس مشین کے ذریعے زندہ رکھے گئے عطیہ شدہ جگر کو دو مریضوں کے جسم میں کام یابی سے منتقل کیا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگے۔

برطانوی سائنس دانوں کی تیار کردہ اس مشین کا حجم ایک عام ٹرالی کے برابر ہے۔ اس مشین کی تیاری اور تجربات میں انہیں پندرہ سال کا عرصہ لگا ہے۔ اس مشین میں لگی نلکیوں کے ذریعے مناسب مقدار میں آکسیجن اور خون جگر تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ وہ انسانی جسم میں پیوند کاری کے قابل رہے۔ باسٹھ سالہ این کرسٹی کا جگر ہیپاٹائٹس کے مرض کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا تھا اور ان کی زندگی کے لیے جگر کی پیوندکاری کی ضرورت تھی۔ ایک عطیہ شدہ جگر کو اس مشین کے ذریعے زندہ رکھنے کے بعد این کرسٹی کے جسم میں منتقل کر دیا گیا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشین جگر کو زیادہ وقت تک محفوظ رکھنے کے لیے طب کی دنیا کا بڑا کارنامہ ہے اور اسے مزید تجربات کے بعد گردے اور پھیپھڑے کی پیوند کاری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لوگوں میں جگر عطیہ کرنے کا شعور بیدار کر کے کئی انسانوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔

مقبول خبریں