سندھ کی سیاست اور مسلم لیگ ن کی منصوبہ بندی

نصرت جاوید  بدھ 28 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

قاف اور پگاڑا لیگ کی ٹکٹوں پر سندھ سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے لوگ اپنی وزارتیں چھوڑ رہے ہیں۔ان کے استعفے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ آیندہ کا انتخاب پیر صاحب پگاڑا والی مسلم لیگ کی ٹکٹ پر لڑناچاہیں گے۔ نواز شریف صاحب اپنی ’’اصولی سیاست‘‘ کی گردان بھلا کر اس جماعت سے اتحاد قائم کرنے کے خواہاںہیں ۔یہ جماعت سندھ کے قوم پرستوں کو بھی اپنی جانب کھینچ رہی ہے ۔نظر بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اندرون سندھ آیندہ کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی اکثریت برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا ۔اس کے لوگوں کا براہِ راست بہت سارے حلقوں میں پیرپگاڑا /نواز شریف اور قوم پرستوں کی جانب سے کھڑے ہوئے مشترکہ امیدواروں کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔

سطحی طور پر دیکھا جائے تو سندھ میں ہوتی یہ صف بندی جمہوری نظام کو گویا دوجماعتی نظام کے ذریعے مستحکم کرنے والا ایک مثبت قدم نظر آتی ہے ۔میرے قنوطی ذہن کو مگر یہ سب کچھ بہت فکر مند کر رہا ہے ۔نواز شریف صاحب کا رویہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی ان 272 نشستوں کے لیے جن پر لوگ ہمارے براہِ راست ووٹوں سے منتخب کیے جاتے ہیں پنجاب سے اکثریت حاصل کرنے کے علاوہ سندھ اور بلوچستان سے بھی قابل ذکر تعداد میں لوگوں کو اپنی ٹکٹ پر جتوانا چاہ رہے ہیں ۔ایسے ہی لوگ انھیں خیبرپختون خواہ سے بھی مل سکتے ہیں اور بالآخر جب نتائج کا اعلان ہو تو ہمیں یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب کی مسلم لیگ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہی۔یہ ایک قومی جماعت بن چکی ہے جس کا اثر اور ووٹ پاکستان کے چاروں صوبوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

مگر سندھ میں اپنی جڑیں ثابت کرنے کے لیے میاں صاحب نے جو حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے کہ وہ کراچی کو اپنے پتوں میں شامل ہی نہیں کررہی ۔اس کا مکمل انحصار صرف اور صرف اندرونِ سندھ دھیرے دھیرے اُبھر کر شدید تر ہونے والے اس غصے پر ہے جو سندھی متوسط طبقے کے بہت سارے لوگ آصف علی زرداری کی ’’قومی مفاہمت‘‘ والی پالیسی کے بارے میں محسوس کر رہے ہیں ۔یہ لوگ لگی لپٹی لگائے بغیر یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ کم از کم سندھ کے حوالے تک آصف علی زرداری کی ’’قومی مفاہمت‘‘ کا مطلب ایم کیو ایم کی نازبرداری اور اس کے احکامات کی اندھی تعمیل تک محدود ہے ۔اس پالیسی نے سندھی بولنے والے ووٹروں کو کچھ نہیں دیا۔

برسراقتدار جماعت کے حامیوں کو اس سے عموماً شکایات پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں لوگ جس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اس سے اپنے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کی توقع کرتے ہیں ۔نجکاری کے عمل سے گزرتے ہوئے کوئی بھی جماعت اب پاکستان میں اپنے ووٹروں میں آسانی سے نوکریاں نہ بانٹ سکے گی۔عالمی معیشت کے تقاضوں نے ہماری ریاست کو بھی نجی سرمایہ کاری کا محتاج کردیا ہے اور نجی سرمایہ کار گزشتہ کئی سالوں سے ایسے شعبوں میں دلچسپی لے رہا ہے جہاں صرف پڑھے لکھے لوگ ہی نوکریاں حاصل کرسکتے ہیں ۔اپنے ابتدائی سالوں میں موجودہ حکومت نے گندم وغیرہ کی قیمتیں بڑھا کر زرعی شعبے میں ٹھوس خوش حالی پیدا کی تھی ۔پھر کپاس کے دو بڑے عمدہ سیزن بھی لگ گئے ۔مگر پھر سیلاب آگیا اور اس کے ایک سال بعد طوفانی بارشیں۔

اب سندھ میں زرعی شعبے کی ترقی اور خوش حالی دکھانے کے لیے وقت درکار ہے اور انتخابات قریب آرہے ہیں ۔پیرپگاڑا کے اِردگرد جمع ہونے والے سندھیElectablesآیندہ انتخابات میں گزشتہ برسوں کے درمیان پیپلز پارٹی کے ووٹروں کے دل میں جمع ہونے والے غصے کو کیش کروانا چاہ رہے ہیں اور سیاسی طور پر یہ ان کا حق بنتا ہے ۔ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بننے کے لیے میاں نواز شریف بھی اس غصے کا فائدہ اُٹھانے میں حق بجانب ہیں۔یہ سب معاملات پوری طرح سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میاں صاحب اپنے اور اپنی جماعت کے لیے کراچی جیسے شہر میں جس کی آبادی دو کروڑ کی حد تک پہنچ چکی ہے کوئی سیاسی راستے کیوں نہیں بنا پا رہے ہیں۔ان کا رویہ تو یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ اس شہر کی اکثریت آیندہ کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہی نتھی رہے گی۔

پشتون اکثریت والے علاقے اے این پی یا اس بار مولانا فضل الرحمن اور دوسری مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینا چاہیں گے ۔نواز شریف کو بڑی ہی مجبوری ہوئی توکچھ حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو ’’اپنا کر‘‘ اسے جتوانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ کراچی کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی باقی نشستوں سے اکثریت حاصل کرنے کے بعد میاں صاحب پاکستان مسلم لیگ کی حکومت بنا کر یقینا ایک بار پھر وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 1992ء اور 1998ء کی طرح ان کی حکومت ایک بار پھر’’کراچی کی وجہ ‘‘ سے وہ سب کچھ کرنے پر مجبور نہیں ہوگی جو اس کی ماضی کی حکومتوں نے کیا یا ان سے کروایا گیا؟ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پیرپگاڑا اور قوم پرستوں سے اتحاد کے ذریعے کافی نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اس جماعت کو اس صوبے میں مخلوط حکومت بنانا ہوگی۔فرض کیا وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر یہ حکومت بنا لے تو ایم کیو ایم خود کو مزید تنہاء محسوس کرے گی اور یہ تنہائی اسے سخت گیر موقف اپنانے پر بھی مجبور کرسکتی ہے ۔جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوگا کہ آیندہ انتخابات کے بعد بھی ہم آئے روز میڈیا میں ’’کراچی۔کراچی ‘‘کا شور مچاتے رہیں گے اور کسی طرح کا سیاسی اور سماجی استحکام جو معاشی Turn Aroundکی بنیادی شرط تصور کیا جاتا ہے ہمیں دور دور تک نظر نہیں آرہا ہوگا۔

سندھ میں آیندہ انتخابات کی خاطر نظر آتی صف بندی مجھے بڑے دُکھ کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز جیسی جماعت اتنے برس گزرجانے کے باوجود بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو اپنی جانب راغب کرنے کا کوئی طریقہ نہیں سوچ پائی ہے ۔اس جماعت کی طرف سے پاکستان کی معاشی شہ رگ کو بھلا دینا میں فراموش کردیتا اگر ’’تبدیلی کے نشان‘‘ کراچی میں اپنا جلوہ دکھاتے نظر آتے ۔مگر انھوں نے بھی اس شہر میں بس ایک جلسہ کیا تھا وہ بھی ایک سال پہلے اور پھر ڈرون حملے رکوانے کے لیے وزیرستان جانے میں مصروف ہوگئے ۔ان کے بنائے تھنک ٹینکوں نے بہت سارے معاملات پر اپنی پالیسیاں دے دی ہیں ۔ کراچی کے شہریوں کے لیے وہ کیا سوچ رہے ہیں ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آیا۔ہوسکتا ہے انھوں نے اپنا نسخہ چھپاکر رکھا ہو اور اسے انتخابی مہم کے دوران عیاں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔