مولانا فضل الرحمن کا ’’لمحہ فکریہ‘‘ بیان

سعد اللہ جان برق  بدھ 28 نومبر 2012
barq@email.com

[email protected]

آج ہم جی بھر کر مولانا فضل الرحمن کی تعریف کرنا چاہتے ہیں بلکہ انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ آپ جانتے ہیں کہ اس کالم میں ہم ہمیشہ ان کی چٹکیاں کاٹتے رہتے ہیں وہ بڑے دل والے آدمی ہیں کبھی یہ شکایت تک نہیں کی ہے

چٹکی جو تو نے کاٹی ہے یہاں وہاں
چوری سے کاٹی ہے یہاں وہاں

وہ جانتے ہیں کہ سیاست دانوں اور اخبار والوں کے درمیان یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے نہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں نہ طرف دار … وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارا اصل تعلق اس پارٹی سے ہے جو اکثریت میں ہے لیکن ہمیشہ حزب اختلاف میں رہتی ہے اس پارٹی کو آپ عوام کہیں رعایا کہیں یا خدا ماروں کی پارٹی اور دور دور تک ایسا کوئی امکان نہیں کہ کبھی کرسی تک پہنچ پائے گی لیکن ہم بھی کیا کریں کہ اس پارٹی کی ممبر شپ پیدائشی خاندانی اور جدی پشتی ہوتی ہے اور اس میں داخل ہونا تو آسان ہے لیکن نکلنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس پارٹی کا رکن ہونے کے ناتے ہمیں نہ تو دوسری پارٹیوں سے کوئی لینا دینا ہے نہ لیڈروں سے … اور پارٹی کی وفاداری کا تقاضا ہے کہ ہم ہر اس شخص کی ٹانگ کھینچیں جو اس پارٹی کو لات مارتا ہے اور ہر اس لیڈر یا پارٹی کی طرف داری کریں جو اس پارٹی کے مفاد میں بات کرتا ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں ہم نے اپنے لیے بہت سارے دشمن پیدا کر لیے ہیں بلکہ بہت سارے دوستوں کو بھی کھو کر دشمنوں میں شامل کر لیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کبھی ہماری چٹکی کاٹنے پر ناراض نہیں ہوئے کیوں کہ اصل بات ظرف کی ہوتی ہے، چھوٹے برتنوں کے لیے ایک گھونٹ پانی بھی بہت ہوتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اصل موضوع پر آتے ہیں مولانا فضل الرحمن نے جو بیان دیا ہے اور جس کی ہم دل کھول کر داد دینا چاہتے ہیں اس میں جرأت، ہمت اور عوامی تکلیف کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کم از کم آج تک ہم نے کسی اور کی طرف سے اتنا جرأت مندانہ بیان نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے، بیان کی جو سرخی اخبار نے دی ہے وہ یہ ہے
’’چیف جسٹس خیبر پختونخوا میں غیر علانیہ مارشل لاء کا نوٹس لیں‘‘

آگے بیان میں وہ تفصیل بیان کی گئی ہے جو سو فیصد حقیقت اور اس صوبے کے چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہے، فوج ہر ملک کی آبرو ہوتی ہے اور ہماری فوج تو ہمارے عوام کا سرمایہ افتخار ہے، تمام سرکاری اداروں میں صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو بلا کسی اختلاف کے ملک کے سارے عوام کی نظر میں محترم ہے بلکہ اب بھی عوام فوج کو اپنی آخری امید اور سہارا سمجھتے ہیں، اس کی وجہ ایک تو فوج کا کردار ہے منصب ہے اور فرض شناسی ہے تو دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج میں شامل افراد کہیں اور سے نہیں آئے ہیں بلکہ ہمارے ہی بیٹے بھائی اور عزیز ہیں۔ اگرچہ کچھ طالع آزما جرنیلوں نے اپنی حرص و ہوس کے لیے فوج کو کئی بار غلط میدان میں اتارنے کی غلطی کی ہے اور اپنے اصل ہدف کے بجائے عوام کے مقابل لاکھڑا کیا ہے لیکن پھر بھی فوج کی مجموعی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے کیوں کہ چند افراد کے ذاتی گناہوں کا الزام ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔

لیکن کچھ عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ فوج کو نہایت عاقبت نااندیشی کے ساتھ بدنام کیا جارہا ہے، بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ فوج کی حیثیت ،اہمیت اور نوعیت بلکہ مقصد و مرام پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔ دنیا میں اس وقت فوج کے لیے بنائے گئے زیادہ تر اصول و قوانین برطانوی افواج کے قوانین و اصول سے اخذ کردہ ہیں، چوں کہ فوج کا مقصد ملک کا دفاع اور حفاظت ہوتی ہے اس لیے اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری سمجھا گیا تھا کہ فوج کو سول معاملات سے دور رکھا جائے، چنانچہ چھاؤنیاں ہمیشہ شہروں سے دور بنائی جاتی تھیں اور فوجیوں کو شہروں میں آنے جانے کے لیے باقاعدہ پاس اور اجازت نامے درکار ہوتے تھے، سول آبادی کو بھی چھاؤنیوں میں بلا جواز آنے جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ سول آبادی میں تو طرح طرح کی برائیاں ہوتی تھیں چوری چکاری، فریب کاری، نوسر بازی، منشیات اور دوسری بے شمار برائیاں …چناں چہ فوج کو ان سے مامون و محفوظ رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ممکن حد تک ان کو بچایا جائے کیوں کہ سول معاشرے کی خرابیاں اگر فوج کے شفاف ماحول میں سرایت کر جائیں تو پھر وہ اس اہم ترین کام کے لائق ہی نہیں رہے گی جس کے لیے فوج کی تشکیل ہوتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے فوج کے اس بنیادی مقصد کو فراموش کر کے ان کو بے تحاشا سول معاملات میں استعمال کیا جاتا رہا۔

ملک کے فرزند ہونے کے ناطے یہ تو جائز ہے کہ قوم پر کسی آفت اور کٹھنائی کی صورت میں فوج کی مدد لی جائے اور ایسا ساری دنیا میں ہوتا رہتا ہے، سیلاب ،زلزلوں اور طوفانوں جیسی آفات سماوی میں یا کسی وباء اور اچانک ہڑتالوں وغیرہ کی وجہ سے اگر کوئی ضرورت ہو تو ایسے حالات میں فوج سے کام لینا ضروری ہو جاتا ہے، لیکن بجلی کے یا کسیِ اور چیز کے ’’بل‘‘ وصول کرنا یا نہروں کی صفائی میں فوج کا استعمال کسی صورت بھی جائز نہیں، کیوں کہ ان کاموں کے لیے بڑے بڑے محکموں کے بھاری اسٹاف بھاری تنخواہیں اور مراعات لے کر رکھے گئے ہیں ۔آخر ایک محکمہ جس کی ذمے داری ہے اس کے پاس عملہ بھی ہے برابر تنخواہیں اور اخراجات بھی کر رہا ہے کس مرض کی دوا ہے اور پھر اس کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے۔

اگر وہ اپنے کاموں میں ناکام ہو کر فوج سے مدد کا طالب ہو جائے پھر تو ان محکموں اور اداروں پر بے پناہ اخراجات کی ضرورت ہی نہیں ان کو ختم کر کے سارا کام ہی فوج کے حوالے کیا جائے۔ کیا مذاق کی بات ہے کہ تنخواہیں تو ان محکموں کا اسٹاف وصول کرے اور اپنے فرائض فوج کے حوالے کرے، ایسا ہی آج کل وہ حالات ہیں جن کی طرف مولانا فضل الرحمن نے اشارہ کیا ہے امن و امان قائم کرنے کی ذمے داری سول اداروں کی ہے فوج کا اصل کام تو بیرونی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اندرونی امن و امان اور حکومت کی رٹ اور قانون نافذ کرنے کے لیے بڑے بڑے سول ادارے ہیں جن پر عوام کے خون پسینے کی کمائی بڑے شاہانہ انداز میں لٹائی جاتی ہے۔ اداروں کو بھی چھوڑیئے یہ جو اپنے آپ کو عوام کے منتخب نمایندے کہہ کر وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں ان کا مصرف کیا ہے صرف گاڑیوں، بڑے بڑے دفتروں اور بے پناہ اخراجات کر کے ان کو صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہاں وہاں تقریبات کریں ڈنر اور لنچ اڑائیں اور لکھوائے ہوئے بیانات سنائیں، ان کا تو کام ہی سول اداروں سے کام لے کر عوام کو امن و امان صحت اور دوسری سہولتیں فراہم کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے یہ ایک سو ایک فیصد سچ کہا ہے کہ سول انتظامیہ مزے سے یہاں وہاں بیٹھی رہتی ہے سارا کام فوج سے لیا جارہا ہے البتہ کبھی کبھار مونچھوں پر تاؤ دے کر اس قسم کے بیانات ضرور جاری کیے جاتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے، ہم نے صوبے میں امن و امان قائم کر دیا ہے، ہم نے ، ہم نے ، ہم نے اور ہم نے … کبھی کبھی تو ہمیں فوج پر ترس بھی آتا ہے کیوں کہ ان بے چاروں کے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے سب کچھ وہی کر رہے ہیں گولیوں کا سامنا کرنے سے لے کر امن و امان تک سب کچھ وہ کر رہے ہیں اور ہمارے بھونپو بجانے والے بھونپو میں ہم ہم ہم کیے جارہے ہیں۔ پشتو میں ایک بڑی خوب صورت کہاوت ہے بلکہ شاید اسی موقع کے لیے بنی ہے کہ ’’تلوار تو لالہ چلائے اور لقمے حمز اللہ مارے‘‘ لیکن ان سب باتوں سے قطعی بالا ہو کر جو اصل نقصان ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے اس کی طرف کسی نے دھیان ہی نہیں دیا ہے، فوج کو سڑکوں پر اتار کر براہ راست عوام کے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے اور چوں کہ اس ساری چیکنگ کا مین اسپرٹ یہ ہے کہ ہر گزرنے والے کو مجرم سمجھا جائے اور یہ ذمے داری اس پر ڈالی جائے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرے اس سلسلے میں ہمارے پاس بے شمار واقعات ہیں چناں چہ عوام کے دلوں میں اپنی فوج کے بارے میں آہستہ آہستہ میل اور پرخاش پیدا ہونے لگا ہے اور یہ بڑی خطرناک بات ہے یہ خلیج یہ دراڑ جو ابھی اتنی بڑی نہیں ہے مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور اسی طرح جاری رہی تو فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ اور دراڑ ناقابل عبور ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔