انقلاب

سیدہ کنول زہرا زیدی  بدھ 28 نومبر 2012

یہ سچ ہے کہ شہر ِ قائد کا سکون ایک طویل عرسے سے تہہ و بالا ہے مگر ہم اس حقیقت کو بھی جھٹلا نہیں سکتے کہ جتنی قیامتیں اِس جمہوری دور کی اتحادی حکومت میں اس شہر پر گزر ی ہیں پاکستان کی تاریخ میں اِس کی نظیر پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ کراچی کے لہولہان گلی، کوچے اور سنسان بازار اربابِ اختیار سے سراپا سوال ہیں۔

جس کا جواب یہ حضرات کچھ یوں دیتے ہیں کہ کراچی میں بیشتر ٹارگٹ کلنگ گرلز فرینڈز یا بیویاں کرواتی ہیں جب اُن سے عوام کے حقیقی نمایندے (متحرک میڈیا اینکرز) شہر میں بڑھتی ہوئی حیوانیت کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تو یہ معصوم سے ذمے داران کہتے نظر آتے ہیں۔ جناب! واشگٹن ڈی سی میں کراچی سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ میں حیران ہوں جن ممالک میں جانوروں کے مارنے پر بھی ممانعت ہے وہاں کراچی سے زیادہ انسانی ہلاکتیں۔۔ ! کیسے ممکن ہیں؟… بات سمجھ سے بالاتر ہے!

ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ ساڑھے چار سالہ جمہوری دور میں ملک بھر میں 40 ہزار افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں جب کہ 8 ہزار 200 افراد کی ہلاکتیں شہر ِ قائد میں ہوئی ہیں۔ اخبار ی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک 1900 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں یہ اس بات کی نشاندہی ہے سکون قائم کرنے میں اگر حکومت نا اہل ہے تو شہر کو own کرنے والی نمایندہ جماعت جو گزشتہ ساڑھے بارہ سالوں سے حکومت کے مزے لُوٹ رہی ہے وہ بھی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ مجھے کہنے دیجیے یہ جماعت اپنی سابقہ پوزیشن کھو چکی ہے شہر میں کیا کیا نہ افتاد پڑ گئیں مگر ’نمایندہ جماعت‘ کی خاموشی قابل دید ہے۔

اگرچہ طالبان اِس ملک اور کراچی کے امن و سکون کے کھلم کھلا دشمن ہیں مگر اہل کراچی کی رائے کے مطابق شہر کی خو شیوں کے ’دوست نما دشمن‘ کوئی اور ہیں جو اکثر اپنی حکومت کی نا اہلی چھپانے کی خاطر اپنے ناکام سے نسخے استعمال کر کے معصوم شہریوں کی زندگی اجیرن کرتے نظر آتے رہتے ہیں۔ موجودہ جمہوری سالوں میں اس حقیقت کا بھی ادراک ہوا کہ دہشت گرد چند انسانوں کا گروہ نہیں بلکہ موٹر سائیکلیں او ر سیل فونز ہیں جو ان کے بقول چلتے پھرتے بم ہیں لہذا وہ اپنی دانست کے مطابق فیصلے کر کے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے سے ذرا نہیں گھبراتے۔

کبھی ’ کھل جاسم سم، بند ہو جا سم سم ‘ جسے اپنے پسندیدہ مکالمے پر دن بدن عمل کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی موٹر سائیکلوں سے نالاں! کیا ان کو یہ نہیں معلوم کے اُن کے یہ اقدامات پریشان شہریوں کو مزید پریشان کرتے ہیں کوئی مجھے سمجھائے کہ اگر ٹانگ میں درد ہو تو کیا ٹانگ کٹوا دی جاتی ہے؟ اگر آنکھوں سے کم نظر آنے لگے تو کیا آنکھیں پھوڑ لی جاتی ہیں؟ یقیناً نہیں۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ صاحب طبیب نہیں ورنہ اس ملک کے آدھے سے زیادہ عوام اندھے اور لنگڑے ہوتے۔۔۔۔ اب پھر آتے ہیں کراچی کی ’نمایندہ جماعت‘ کی جانب جو آج کل ایک ریفرنڈم کے انقعاد کے سلسلے میں کوشاں ہیں جو تاحال تکمیل منزل تک تو نہیں پہنچا تا ہم دو بار ملتوی ہونے کے باوجود ابھی بھی متوقع ہے۔

شہر کے لاتعداد مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے ’نمایندہ جماعت‘ کو بڑی دور کی سُوجھی ’قائداعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان‘ کا ریفرنڈم کر آنے والی ’نمایندہ جماعت‘ کے Portfolio کا حالیہ بیان جو اُنھوں نے کراچی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کچھ اس طرح جواب دیا ’ جن کے مرے ہیں اُن سے پوچھا جائے کہ اُنھیں پاکستان سے کتنی محبت ہے‘ یہ بیان اور متوقع ریفرنڈم یقینا پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ نیتوں میں کتنا فتور ہے۔ سب جانتے ہیں ہندوستان کی تقسیم کو کس نے غلط کہا؟ من موہن سنگھ کیا ہمیں قبول کرو گے؟ جیسی گزارشات کس نے کیں؟ میں اس کی تفصیل میں نہیں جائونگی مگر اتنا کہنا چاہونگی کہ اتنی مخالفت کے بعد یکدم حامی پاکستان ہو جانا عوام کو ناسمجھ میں آنے والی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔

یہ صورتحال اِن سوالات کو ذہن میں اُجاگر کرتی ہے آیا کیا ’نمایندہ جماعت‘ کی قیادت کنفیوز ہے یا عوام کو کنفیوز کر کے اپنے وہ عزائم حاصل کرنا چاہتے ہیں جن کی نشاہدہی موجودہ حکمران جماعت کے سابق وزیر بھی کر چکے ہیں یہ بات تو طے ہے کہ اہل دانش نے اِس گُتھی کو بڑی سُوچ سمجھ کر اُلجھایا ہے مگر جناب ہر مسئلے اور کنفیوژن کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے یقینا اس صورتحال کا بھی ہو گا۔ بس ذرا عوام کو اپنا ذہن استعمال کرتے ہوئے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ تب ہی بہتری ممکن ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے عوام کیسے حالات کی بہتری کے لیے سُوچ بچار کریں؟ جس شہر میں زندگی موت کے خوف سے ہراساں ہو وہاں بہتری کی اُمید کے متعلق کون سوچتا، سب جانتے ہیں کراچی کو کمزور کرنا پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے لہذا طویل عرصے سے میرا شہر عتاب کا شکار ہے میرا سوال ہے وہ لوگ ’روشنیوں کے شہر ‘ کو ’ پتھروں کا شہر‘ بنانے کے لیے کیوں کمر بستہ ہیں اُن کی حکو مت اور وہ اپنی نا اہلی کو چھپانے کی خاطر اہل کراچی کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں اس شہر کی ’ نمایندہ جماعت‘ نے ماضی میں کراچی کے مکینوں کی بڑی دل جمعی کے ساتھ خد مت کی ہے مگر آج کیوں اپنےMost favourite person  کے ناکام نسخوں کی اہل کراچی پر طبع آزمائی جیسی بے رحم صورتحال پر خاموش ہیں؟ ہر کراچی کے باسی کو اِن سوالوں کے جواب درکار ہیں جب کہ حکومت اور اُن کے اتحادی جانے کہاں مصروف ہیں۔

شہر میں ایک مخصوص فرقے کی جاری ہر روز کی نسل کشی اور ارباب اختیار کی طر ح ’نمایندہ جماعت‘ کی چپ نوجوانوں میں بے چینی کی لہر پیدا کر رہی ہے مت بھولیں یہ نوجوان اُن بزرگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے 1947ء میں برصغیر میں انقلاب برپا کیا تھا وہی انقلابی لہو آج ہماری رگوں میں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ 1947ء کا یہ لہو جوش میں آ جائے اور اس شہر کا ہر نوجوان بقا پاکستان کے لیے چیخ اُٹھے پھر نہ کسی کے نسخے کام آئیں گے نہ کسی کی چپ پھر شہر کی ہر گلی اُس شور سے گونجے گی جس کا نقصان مملکت پاکستا ن کو تو نہیں ہاں البتہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ضرور ہو گا ۔ مجھے یقین ہے وہی اصل انقلاب ہو گا جو نہ سونامی لائیگی، نہ کاغذی شیر، نہ عوامی نمایندے، نہ مذہبی جماعتیں اور نہ ہی نام کے مظلوم۔ یہ انقلاب قائداعظم کو اپنا لیڈر مانے والوں کی اولاد لائے گی، تب ہی بنے گا یہ خطہ قائداعظم کا حقیقی پاکستان! انشااللہ۔ پاکستان زندہ باد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔