۔۔۔۔۔۔گور پیا کوئی ہور ؛ ایدھی ایمبولینسوں نے لاکھوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا

غلام محی الدین  اتوار 17 جولائی 2016
اگریہ ہی بندوبست پرائیویٹ ایمبولینس کے تحت کیا جائے تومرنے والوں کے لواحقین کو5 ہزارکے بجائے 50 ہزارروپے ادا کرنا پڑیں:فوٹو : فائل

اگریہ ہی بندوبست پرائیویٹ ایمبولینس کے تحت کیا جائے تومرنے والوں کے لواحقین کو5 ہزارکے بجائے 50 ہزارروپے ادا کرنا پڑیں:فوٹو : فائل

 اسلام آباد: ایدھی بابا کو ہم سے رخصت ہوئے گھنٹوں گزر گئے لیکن یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ یہیں کہیں اپنے کام میں  مصروف ہیں۔ یہ احساس قائم رہے گا، شاید اس لیے کہ دلوں میں زندہ رہنے والے، مرا نہیں کرتے۔ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں، موت بھی ایسے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار نہیں پاتی۔ حضرت بُلہے شاہ نے سچ کہا تھا ’’بلہے شا اسی مرناں ناں ہی: گور پیا کوئی ہور‘‘ یعنی اے بلہے شاہ! ہمارا مادی وجود ہمارے لیے اجنبی ہے لہٰذا موت ہمیں نہیں آنی، اس وجود کو آنی ہے، جو ہمارے لیے ’کوئی اور‘ ہے‘‘۔ یقیناً بلہے شاہ کا یہ مصرعہ ایدھی جیسے لوگوں کے لیے ہی تھا۔ 

عبدالستار ایدھی صاحب کے جانے کے بعد اگر اس مصرعے پر غور کریں تو بات مزید نکھر کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ یہ کہ ہم ایدھی صاحب کی شخصیت کے ہزارہا پہلوؤں پر بات کرسکتے ہیں مگر اُن کے ادارے کی ایمبولینس سروس ایک ایسا شان دار کارنامہ ہے، جس کو نہ صرف عالمی سطح پر سراہا گیا بل کہ اس کو دنیا کی منفرد اور فعال ایمبولینس سروس بھی قرار دیا گیا، جسے گنیز بک نے تسلیم کیا ہے۔ اس ایمبولینس سروس کے پاس آج بھی یہ اعزاز ہے کہ  یہ ایمبولینس سروس ملک کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی ایمبولینس سروس کے ذریعے سالانہ دس لاکھ سے زیادہ افراد کو اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور اتنی ہی تعداد میں نعشوں کو اسپتالوں سے لواحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔ اگر آبائی گھر اسپتال سے دور بھی ہو، تب بھی بہت ہی معمولی عوضانے پر فی کلو میڑ کے حساب سے یک طرفہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے اوراُس کی باقاعدہ رسید جاری کی جاتی ہے۔

اگر یہ ہی بندوبست پرائیویٹ ایمبولینس کے تحت کیا جائے تو مرنے والوں کے لواحقین کو پانچ ہزار کے بجائے پچاس ہزار روپے ادا کرنا پڑیں۔ یہ ہی نہیں بل کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس تو ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے فضائی ایمبولینس سروس بھی موجود ہے، جس کے ذریعے اس کے رضاکار ملک کے کسی بھی دور دراز علاقے میں فوری رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے پاس ایئرایمبولینس کے طور پر دوچھوٹے طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر بھی موجود ہے، جب کہ تازہ اطلاع یہ بھی ہے کہ تین مزید طیارے اور دوہیلی کاپٹر حاصل کیے جا رہے ہیں۔

سال 2014 کے نوبل امن انعام کے لیے جب تیسری بار عبدالستار ایدھی مرحوم کو نامزد کیا گیا تو سوشل میڈیا پر اُن کے ایک چاہنے والے نے لکھا تھا کہ ان کی زندگی میں نوبل انعام دینے والا ادارہ ایدھی صاحب کو اس بار بھی انعام نہیں دے گا البتہ جب وہ دنیا سے چلے جائیں گے، تو بعد میں اُن کی خدمات کا اعتراف کرلیا جائے گا، شاید اس لیے کہ اس درویش صفت انسان کے مرنے کے بعد عالمی میڈیا کو اپنی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر ایک جینوئن رول ماڈل کو درویشانہ لباس میں امن انعام لیتے ہوئے براہ راست دکھانا نہیں پڑے گا۔ گو کہ نوبل انعام کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس انعام کے لیے جو قواعد وضوابط بنائے گئے ہیں، اُن کو دنیا کے اکثر ممالک میںآج بھی احترام کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے کہ اس ادارے سے انعام پانے کے لیے آج بھی ایک مخصوص قسم کی لابنگ کی ٖضرورت پڑتی ہے۔

مرحوم عبدالستار ایدھی پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہے، جنہوں نے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سماجی اور فلاحی خدمات انجام دیں۔ اسی لیے آج اُن کے اس ادارے کی خدمات کو عالمی سطح پر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو375 سے زیادہ مراکز پر مشتمل ہے۔اس وقت دنیا کے بارہ سے زیادہ بڑے شہروں میں ایدھی سینٹرز موجود ہیں جب کہ پاکستان میں375 مراکز کام کر رہے ہیں۔ ان مراکز کے تحت سیاچِن سے لے کر نگر پارکر تک ایدھی کی1600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہمہ وقت مصروف عمل رہتی ہیں اور ان ایمبولینسوں کے لیے سات ہزار کے قریب ملازمین کام کررہے ہیں۔

اس ایمبولینس اسکواڈ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ برسوں پہلے مرحوم عبدالستار ایدھی نے ایک مُخیر شخص کی مدد سے ایک عدد ایمبولینس خریدی اور اس کو خود ہی چلانا شروع کیا۔ پہلے پہل کراچی شہر میں یہ واحد ایمبولینس گاڑی بیماروں کو اسپتال لے جانے کے لیے استعمال ہوتی رہی لیکن جوں ہی کراچی شہر میں اس طرح کی مفت سروس مہیا کرنے والی اس اکلوتی ایمبولینس کا چرچا ہوا، تو اس کی مانگ بڑھنے لگی۔

اس طرح ایدھی صاحب کی اس نیک اور قابل تقلید کاوش میں اللہ نے اتنی برکت ڈال دی کہ آج یہ اسکوارڈ ملک بھر میں، دن رات انسانیت کی خدمت لیے مصروف عمل ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں جائے حادثہ پر فوری پہنچنے والی سروسز میں ایدھی ایمبولینس کا نام گذشتہ کئی دہائیوں سے آج بھی سرفہرست ہے۔

1997 میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس سروس کے پیچھے بے مثال جذبہ اور انتھک کوشش کی توانائی ہے۔ آج پاکستان کے علاوہ یہ ایمبولینس سروس افغا نستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا ،سوڈان اور ایتھی اوپیا میں کام کر رہی ہے۔ بے شک انسانیت کی فلاح کے لیے جو کام ایدھی مرحوم کر گئے، ایسا کام اب نہ تو کسی امیر کبیر انسان کے ہاتھوں سے ممکن ہے اور نہ ہی کسی اعلیٰ سرکاری عہدے دار اس لائق ہے۔

ایدھی ایمبولینس کے حوالے سے جب روزنامہ ایکسپریس نے لوگوں کے تاثرات کے لیے رابطہ کیا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ایدھی ایمبولینس ٖضرورت مند غریبوں، قدرتی آفات میں گھرے پاکستانیوں کے لیے اللہ کی ایک رحمت ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں اور خدا نخواستہ کسی ہنگامی صورتِ حال سے دوچار ہوں، ایدھی سینٹر کے فون نمبر115پر کال کریں۔ اس کے بعد آپ کم از کم اس طرف سے مطمئن ہوجائیں اوراپنے دوسرے ممکنہ امدادی کاموں میں مصروف ہوجائیں۔

فیصل آباد کے ایک شہری محمد ابوبکر جمیل نے بتایا ’’دوسال قبل میری والدہ کو پلاسٹک انیمیا کا مرض لاحق ہو گیا تھا، مقامی ڈاکٹروں نے علاج کے لیے اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں  ریفر کردیا، فیصل آباد سے اسلام آباد تک والدہ کو لانے کے لیے ہم نے ایک پرائیویٹ ایمبولینس کا انتظام کیا تواس نے ہم سے تیس ہزار روپے کرایہ اینٹھ لیا۔ اسلام آباد میں قریباً ایک ماہ علاج کے بعد والدہ محترمہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، اب والدہ کا جسد خاکی واپس فیصل آباد لانا تھا، نجی اسپتال والوں نے ہمیں ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس منگوا دی۔

فیصل آباد پہنچ کر جب ہم نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے کرایہ پوچھا تو اُس نے میٹر ریڈنگ کر کے فی کلو میٹر کے حساب سے ہمیں یک طرفہ کرائے کی جو رسید دی، وہ پورے چھے ہزار روپے بھی نہ بنی، ہماری حیرانی پر ڈرائیور نے بتایا کہ یہ ایمبولینس ایک فلاحی ادارے کی ہے، جو میت کو گھر تک پہچانے کے لیے صرف فیول کی قیمت وصول کرتی ہے۔ یہ بات سن کر وہاں موجود سب لوگوں کے دل میں ایدھی فاؤنڈیشن کی قدر و قیمت بڑھ گئی اور اُس دن مجھ سمیت درجنوں افراد نے یہ عہد کیا کہ آج کے بعد ہم اپنے صدقات،  زکوۃ اور خیرات کی رقوم اسی ادارے کو عطیہ کریں گے۔ آج ایدھی صاحب ہم میں نہیں تو کیا ہوا ان کا لگایا ہوا پودا تو ایک تن آور درخت کی صورت موجود ہے، ہم سب اس کی پہلے سے بڑھ کے آب یاری کریں گے‘‘۔

محمد طلعت خان راول پنڈی کے رہنے والے ہیں، ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ دس سال پہلے کی بات ہے، گھر میں میری بڑی امی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تو ہم انہیں اپنی گاڑی میں ڈال کے ایک سرکاری اسپتال کی جانب بھاگے لیکن راستے میں ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ہم روتے پیٹتے گھر واپس آگئے۔

بڑی اماں کی وصیت تھی کہ انہیں اُن کے آبائی گاؤں میں دفن کیا جائے۔ اس کام کے لیے جب مختلف سرکاری اسپتالوں اور نجی کمپنیوں کی ایمبولینس سروسز سے رابطہ کیا گیا تو وہ ایڈوانس پندرہ سے بیس ہزار روپے کرایہ مانگ رہے تھے اور نخرے الگ دکھا رہے تھے۔ اسی شش و پنج میں دو گھنٹے گزر گئے، اچانک ایدھی ایمبولینس والوں کا خیال آیا، میں نے اُن کے ٹال فری نمبر 115پر کال کی تو انہوں نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ نمبر اور گھر کا ایڈریس پوچھا اور پھر کہا کہ پندرہ سے بیس منٹ میں ایمبولینس آپ کے پاس پہنچ جائے گی، مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

آپ یقین کریں کہ بیس ایک منٹ گزرے تو میں نے تردد کے عالم میں دوبارہ فون کیا، بتایا گیا کہ آپ لوگوں نے دور جانا ہے، یقیناً آپ کے ساتھ فیملی ممبر بھی ہوں گے، اس لیے ہم بڑی گاڑی کا انتظام کر رہے ہیں، اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو براہ مہربانی ہمارے مری روڑ کے آفس تک آجایے تاکہ ڈرائیور کو آپ کا گھر تلاش کرنے میں دیر نہ ہو۔

میں اور میرا دوست فوراً ایدھی کے آفس پہنچے تو گاڑی پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ دفتر والوں نے میرے شناختی کارڈ کی ایک کاپی لے کر ایمبولینس ہمارے حوالے کی تو میں نے کرایے کی بابت پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ میت کو اُس کی منزل تک پہچانے کے بعد کرایہ وصول کیا جائے گا۔ یہ ایمبولینس گاڑی سیٹلائیٹ وائرلیس کے ذریعے اپنے دفتر کے ساتھ منسلک تھی اور اس میں میت سمیت پانچ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش بھی تھی۔ جب ہم اپنی منزل پر پہنچے تو سفرکے کرایے کی جو رسید ہمیں دی گئی، وہ ساڑھے تین ہزار روپے کی تھی۔ طویل سفر کی تھکاوٹ دورکرنے کے لیے جب ہم نے ایمبولینس کے ڈرائیور کو رکنے کے لیے کہا تو اُس نے کہا کہ واپس جا کر ہی آرام کروں گا‘‘۔

یہ دو واقعات ’’مشتے از خروارے‘‘ سمجھیے، وگرنہ لاکھوں لوگ گواہ ہیں، جو اسی طرح کے واقعات کے امین ہیں۔ بم دھماکوں میں مرنے یا زخمی ہونے والے ہوں یا قدرتی آفات کے ستائے ہوئے لوگ ہوں، ایدھی کی اس ایمبولینس سروس کو دیکھ کے اللہ کی مخلوق کی خدمت اور محبت کا عملی نمونہ سامنے آجاتا ہے۔ ایدھی کی یہ ایمبولینس سروس بلا امیتاز جس منظم انداز میں اپنا کام کررہی ہوتی ہے، اُس سے کبھی یہ گمان تک نہیں گزرتا  کہ یہ کام نمود و نمائش کے لیے کیا جارہا ہے بل کہ ایسے لگتا ہے کہ اللہ پاک نے ایدھی صاحب کو پاکستان کی دکھی اور بے سہارا قوم کی خدمت کے لیے بطور خاص چنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔