مرنے والا اکیلا نہیں مرتا

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 16 جولائی 2016

مرنا بولنے میں بہت آسان لفظ ہے، لیکن معنی کے لحاظ سے اس سے زیادہ اور کوئی وحشت ناک لفظ نہیں ہے۔ اس لفظ کے بعد کوئی زندگی نہیں بس خلا ،گھپ اورسیاہ اندھیرا ہے۔ یاد رکھیں کہ مرنے والا کبھی اکیلا نہیں مرتا، اس کے ساتھ نہ جانے کتنے اور لوگ مرجاتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک لاکھوں لوگ غربت، افلاس ، بھوک ، مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی ، بے روزگاری ، فرقہ واریت کے ہاتھوں مر چکے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ سب کے سب اکیلے ہی مرے ہیں کیا ان سے وابستہ لوگ زندہ ہیں ؟ کیا ان کی زندگیاں آگے بڑھ رہی ہیں؟ کیا وہ اپنی اپنی زندگیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں؟ یا وہ سب کے سب اس ہی لمحے میں آج تک قید ہیں ۔ جناب اعلیٰ کروڑوں لوگ آج تک اپنے اس منحوس دن سے باہر نہیں نکل پائے ہیں ۔

ان کے لیے وقت وہیں رکا ہوا ہے ان کی زندگیوں میں دوسرا دن آج تک نہیں آیا ہے ۔ آج بھی ان سے وابستہ لوگ کفن خریدنے دکانوں پر گئے ہوئے ہیں کوئی قبرستان میں کھڑا گورکن سے قبر کھدوا رہا ہے ، کوئی پھول اور اگربتی خریدنے گیا ہوا ہے ، کوئی ڈولا لینے مسجد گیا ہوا ہے، تو کوئی بیٹھا عزیز واقارب اور دوستوں کو مطلع کررہا ہے۔ گھروں کی خواتین ، مائیں، بہنیں، بیٹیاں ، بھانجیاں، بھتیجیاں میت کے چاروں طرف بیٹھیں اور کھڑی زارو قطار رو رہی ہیں۔ گلی گلی سے آہ وبکا کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، لوگ میتیں اٹھنے کا انتظار کررہے ہیں۔ اذان ہونے کے منتظر ہیں، اس لمحے کی اذیتوں کے قیدیوں کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہیں ۔

کروڑوں ماتم کرتی فوج ، بے بس، بے کس ، گریہ کرتی فوج ، مرنے والوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے لیکن ان کے ساتھ مرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ آج کروڑوں انسانوں کے جسم اور روحیں دونوں آہ و بکا کررہے ہیں، دونوں تکلیف میں ہیں دونوں خوفزدگی اور یاسیت کی لہروں کے شکار ہیں۔ بچے، بڑے، شوہر، باپ، بیٹے، بہنیں، مائیں، بیٹیاں سب لٹ چکے ہیں پر شکوہ گھروں کی عظمت خاک میں مل گئی ہے ادھر دیکھو جہاں چین، سکون ، امن اور محبت کبھی ہوا کرتی تھی اب وہاں دھواں ہی دھواں ہے۔ آج پاکستان کے 20کروڑ انسان پرومی تھیوس کے کہے گئے ان جملوں میں ڈوب چکے ہیں۔ ’’اذیتیں سالہا سال کی جن کا کوئی شمار نہیں، قید و بند کی یہ صعوبتیں اور اذیتیں سب دین ہیں، اس کی جو دیوتاؤں کا نیا آقا ہے۔

درد کے یہ نہ ختم ہونے والے سلسلے، یہ ہی انتہائے خیال میرا مداوا ہے، یہ درد کب ٹہرے گا، ساعت درماں کب آئے گی ‘‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس کے پاس جاکر وہ ہی فریاد کریں جو قبل از مسیح عظیم یونانی سوفوکلینر کے المیہ ڈرامے ’’شاہ لوئی دی پوس‘‘ میں لوگوں کا ایک گروہ بادشاہ شاہ لوئی دی پوس سے فریاد کرتا ہے کہ ’’ اے مالک، بادشاہ وقت، ہم سب بزرگ و جواں یہاں جمع ہوئے ہیں ، کچھ پجاری ہیں ، کچھ تھیبیز کے خوبصورت جوان ہیں۔ ابھی کچھ اور بھی ہیں جو پلاس ایتھنسا کی دو متصل قربان گاہوں پر حاضر ہیں ، جو اسمینن کے ہاتف کے آتشکدہ کے قریب ہے۔ عالیٰ مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوکہ شہر کس تکلیف میں ہے موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے۔

چار سو موت پھیلی ہوئی ہے، زمین پر فصلوں میں چراگاہوں میں جو مویشی گھوم رہے ہیں ، موت کی زد میں ہیں، ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس کے زد میں ہیں شہر میں طاؤن پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہورہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے یہ ہی وجہ ہے کہ بچے اور ہم سب تمہارے پاس آئے ہیں ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکو، جن سے انسان دوچار ہے اور جن مسائل کا حل دیوتاؤں نے انسان کو دیا ہے ۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بھی تھیبیز میں آئے تھے اور ہمیں عذاب سے نجات دلائی تھی جس میں ہم مبتلا تھے، تم نے اس کا حل ڈھونڈلیا تھا۔اس وقت تم ہم سے زیادہ باعلم نہیں تھے ہم نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی تھی۔

دیوتا تمہاری مدد کوآئے تھے اورتم نے ہمیں دوبارہ معمول کے مطابق زندگی عطا کی تھی، اب دوسری بار عظیم اوئی دی پوس ہم تجھ سے مدد مانگنے آئے ہیں ہماری کچھ مدد کرو اپنی مدد کے لیے خواہ کسی دیوتا یا انسان کو ہی کیوں نہ بلاؤ تم نے اس وقت ہماری مدد کی تھی۔ ہاں ہمیں یقین ہے کہ اب بھی ہماری مدد کرو گے اے آقا ! ہمارے شہر کی رونقیں بحال کردے اپنی شہر ت کا پا س کرو لوگ جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی تم نے انھیں مایوسیوں سے نکالا تھا۔ ہمارا تحفظ کرو تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں۔ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈو،اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو، اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیرے ہوتی ہے۔ انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں۔ ’’آؤ مل کر انھیں ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں ان اذیتوں سے نجات دلا دے جو ہماری زندگیوں میں واپس زندگی لے آئے جو ہمارے زخموں پر میٹھے مرہم لگا دے تاکہ جو میتیں گلی گلی میں آج تک رکھی ہوئی ہیں۔

انھیں دفنا دیاجائے، ان کی خالی قبریں جو نجانے کب سے خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ان کی امانتیں ان کے حوالے کردی جائیں تاکہ مرنے والوں کو بھی چین مل سکے اور سوگواروں کو بھی صبر حاصل ہوسکے لیکن کریں تو کریں انھیں ڈھونڈیں تو ڈھونڈیں کہاں ۔ یہاںتو حد نظر سیاہ اندھیرا پھیلا ہوا ہے گھپ کالا سیاہ اندھیرا۔ اور بس چاروں طرف سے آتی لوبان کی خوشبویں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ۔ یہ تو اب تک کا قصہ ہے ۔ آیندہ کیا ہوتا ہے ہمیں کن اذیتوں سے اور گزرنا ہے یہ تو ہمیں بتادو ہم پر رحم کھا کر جھوٹی تسلیاں نہ دینا جھوٹ کے تاروں سے بنے لفظ ایک غلیظ مرض کی طرح ہوتے ہیں ۔ آخری بات میرے خداؤ! تم بھی یاد رکھنا جو عظیم یونانی فلسفی ، یوری پڈیز نے کہی تھی کہ ’’ جب شہر ویران ہوجائیں تو دیوتاؤں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ ان کے سامنے سر جھکانے والا کوئی نہیں رہتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔