دو طرح کے لوگ

رئیس فاطمہ  اتوار 17 جولائی 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

دانشور اور عالموں کا کہنا ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک اچھے اور دوسرے برے۔ بات تو درست ہے، لیکن انھی دو طرح کے لوگوں کی کئی قسمیں ہیں۔ اچھے لوگ خواہ حکومتوں میں ہوں، بادشاہ ہوں، عدلیہ میں ہوں یا کہیں بھی کسی برے مقام پر، وہ دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، اچھا کرتے ہیں، اسی لیے نیک نام بادشاہوں کے نام آج بھی زندہ ہیں۔

اچھے اور برے لوگوں کا تعلق کسی مخصوص مذہب یا فرقے سے نہیں ہوتا بلکہ انسانی بھلائی اور فلاح و بہبود سے ہوتا ہے، آج بھی جب ہم دنیا کے مختلف ممالک پہ نظر ڈالتے ہیں تو انھی ممالک کو مثال کے طور پہ پیش کرتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے، جہاں ایکسپائری ڈیٹ کی ادویات اور کھانے پینے کی اشیا فوراً تلف کر دی جاتی ہیں، جہاں ریاست اپنے شہریوں کو ضروری سہولیات بلامعاوضہ پیش کرتی ہے، جہاں سینئر سٹیزن کو ہر وہ سہولت دی جاتی ہے جو ان کا حق ہے۔

اسی طرح عام انسانوں میں بھی بھلے اور اچھے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اچھے لوگ دشمنیاں نہیں پالتے، وہ رشتوں میں دراڑیں نہیں ڈالتے، وہ لوگوں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، وہ اپنے مخالفین کی ہرزہ سرائی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ بدگو اور بدطینت لوگوں کی باتیں خاموشی سے سنتے ہیں، کہ ان کے سامنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی مثال موجود ہے کہ جو عورت روزانہ ان پر اپنے گھر سے کوڑا پھینکتی تھی وہ اس دن اس کی عیادت کو گئے جس دن حضورؐ پر کوڑا نہیں پھینکا گیا، کتنے بڑے ظرف کی بات ہے۔

اچھے لوگ ہی اس مثال کو یاد رکھتے ہیں اور مخالفین کی دل آزاری اور تکلیف دہ رویوں کو خاموشی سے اسی لیے برداشت کر لیتے ہیں کہ دین اسلام صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ ان بندوں پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے جو دلوں میں بغض نہیں رکھتے وہ معاف کرنا جانتے ہیں۔ وہ ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑتے ہیں، اچھائی کا صلہ خداوند تعالیٰ سے چاہتے ہیں۔ اپنی نیتوں کو صاف رکھتے ہیں۔

ہر الزام فیس کرتے ہیں، ہمیشہ دوسروں کے کام آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بغیرکسی صلے کے ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اپنوں کے دیے ہوئے زخموں کو خدا کی طرف سے امتحان اور آزمائش سمجھتے ہیں اور اپنے معاملات اللہ پہ چھوڑ کے مطمئن ہو جاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے۔ جہاں ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے والے موجود ہیں، وہیں بدقسمتی سے ایسے بھی موجود ہیں جو کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔

اگر ہم برے لوگوں کی کیٹگری دیکھیں تو ان کی تعداد بدقسمتی سے اپنے ملک میں زیادہ نظر آئے گی۔ خواہ حکومتی سطح پر ہو یا عام سوسائٹی میں۔ برے لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ یہ دلوں کو توڑتے ہیں، خون کو خون سے جدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ حکمران بنتے ہیں تو قوم کی دولت کو اپنے ذاتی خزانوں میں بھر لیتے ہیں۔’’قوم کی خدمت‘‘ کا نعرہ لگا کر یہ برے لوگ قوم کو بھکاری بنا دیتے ہیں۔ پاکستان پر طویل عرصے سے ایسے ہی لوگ حکومت کرتے آئے ہیں، جو جعلی دواؤں، جعلی ڈگریوں اورمکاریوں کے کاروبار کرنے والوں کو پوری سپورٹ دیتے ہیں۔

ذرا گہرائی سے جائزہ لیجیے تو اس بدقسمت ملک میں ہر طرف وہی لوگ جلوہ گر ہیں جو ان تمام داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں جن سے غریب کو خودکشی پہ اور متوسط طبقے کو سر پھوڑنے پہ مجبور کیا جائے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خود کو ’’جمہوریت کی ڈگڈگی‘‘ کا مالک سمجھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ تمام تر چالبازیوں اور مکاریوں کے کھلے ثبوت سامنے ہونے کے خود کو ’’بے قصور اور پاکباز‘‘ ظاہر کر کے اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ انھیں نہ خدا کا خوف ہوتا ہے نہ روز قیامت کا نہ خدا کی گرفت کا۔

ان اچھے اور برے لوگوں میں ایک کیٹگری وہ بھی ہے جو دنیا کو دکھانے کوعبادتیں بھی کرتے ہیں، لیکن دلوں میں بغض و عداوت بھی رکھتے ہیں۔ عبادت کا معاملہ صرف خدا اور بندے کے درمیانی ہوتا ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ کسی کا ایک سجدہ ہزار سجدوں پہ بھاری ہو۔ عبادت کو تکبرکا روپ دینا آج کل شیوہ ہے۔ بدقسمتی سے ہر حکومت ایسی ہی جماعتوں اور گروہوں کو اپنی سرپرستی میں لیتی ہے جو انسانیت کو کسی بھی طرح نقصان بخوبی پہنچا سکتے ہیں۔ یہ بم دھماکے، یہ فرقہ واریت، یہ لہو بہانا، یہ لوگوں کے دلوں کو توڑنا، یہ نفرتیں، یہ اذیتیں سب حکومتوں کی مدت بڑھاتی ہیں۔

کبھی یہ اپنی مدد کے لیے طالبان کو سپورٹ کرتے ہیں، کبھی دہشت گردوں کو ہر اہم ادارے میں پہنچا کر اندرونی راز حاصل کرتے ہیں، کبھی اپنے آقاؤں کے لیے ریڈکارپٹ بچھاتے ہیں اور قوم کو بیچ دیتے ہیں، قوم کی کشتی کو اپنی کرپشن چھپانے کے لیے بیچ منجھدارمیں ڈبو دیتے ہیں اور خود بیرونی قرضوں اور دہشت گردوں کی چھتر چھایہ سے خریدی ہوئی لائف بوٹ سے دوبارہ حکومت میں واپس آ کرکرپشن کے نئے نسخے تلاش کرنے کے لیے نئی ٹیم تلاش کرتے ہیں۔

قوم کے درد کا الاپ اسی وقت شروع کیا جاتا ہے جب الیکشن قریب ہوں، ورنہ جس دھڑے اور ڈھٹائی سے اپنی اور اپنے خاندان کی کرپشن کو ماتھے پہ جھومر کی طرح سجایا جاتا ہے اور بے گناہی کا راگ الاپا جاتا ہے، ویسا کسی مہذب ملک میں کبھی نہیں ہوتا۔کرپشن کے الزامات پراستعفیٰ دینا ایک خواب ہے۔ جو یہاں کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

میں نے ابتدا میں کہا تھا نا کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ایک اچھے اور دوسرے برے۔ بس ان دونوں اقسام کی مزید قسمیں خود سمجھ لیجیے کہ سلسلہ بہت دراز ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے وطن میں ان برے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام حسد کی بنا پر ہر سطح پرکرنا جانتے ہیں تا کہ خود اچھے بنے رہیں اور اپنا منفی کردار چھپا سکیں۔

آخر کیوں انسان خدا کے عذاب سے نہیں ڈرتا؟ صرف اپنی نمازوں کی وجہ سے کیوں دوسروں کو دکھ دے کر خوشی محسوس کرتا ہے؟ صرف دنیاوی خوشی کے لیے بعض انسانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جسے وہ اچھائی کے روپ میں دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور دوسرا کریہہ چہرہ وہ جو ان کا اصل چہرہ ہوتا ہے جسے وہ خاص خاص موقعوں اورخاص خاص لوگوں کے سامنے لاتے ہیں اور اسی منافقانہ اور خوشامدانہ رویوں سے دنیا کی لذتیں حاصل کرتے ہیں، لیکن کب تک؟ کہتے ہیں ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے لیکن یہ بدنصیب قوم اب چاہتی ہے کہ خدا رسی کو جلد کھینچ لے کہ اسی سے دعا کی جا سکتی ہے۔

اگر ہم اچھے لوگوں کی فہرست مرتب کریں تو میرے ذہن میں صرف دو نام پاکستان کے حوالے سے آتے ہیں۔ پہلا عبدالستار ایدھی کا اور دوسرا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا۔ آج صرف ایک فرشتہ ہمارے درمیان ہے۔ پہلا تو چلا گیا، اپنی آنکھیں دوسروں کو دے کر۔ اور جو موجود ہے اس کی بڑائی یہ ہے کہ وہ ابھی تک اس بدنصیب ملک میں بلا تخصیص مذہب و ملت، اور بلا تخصیص امیر غریب، بلاتخصیص بادشاہ و بے وقعت کمزور لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ کیا ادیب الحسن رضوی کے لیے پیسہ کمانے کے مواقعے کم ہیں؟ لیکن وہ تو فقیر منش درویش انسان ہے اور اب انسانیت کا دوسرا نام ادیب الحسن رضوی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔