سرکس کے مسخرے

اوریا مقبول جان  پير 18 جولائی 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سرکس کے کرداروں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ماہر اور مشاق فنکار جو رسے پر چلتا ہے، قلابازیاں لگاتا ہے، دونوں ہاتھوں سے کس قدر مہارت سے گیندوں کو اچھالتا ہے، غرض طرح طرح کے ماہرانہ کرتب دکھا کر داد وصول کرتا ہے اور تالیوں کی گونج میں رخصت ہوتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد عجیب و غریب لباس، پھندنے والی ٹوپی اور چہرے پر چونے سے نقش و نگار بنائے ہوئے ایک مسخرہ داخل ہوتا ہے اور وہی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسی پکڑ کر جھولنے لگتا ہے تو دھڑام سے زمین پر گر جاتا ہے، گیند اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور قلابازیاں وہ اس مضحکہ خیز انداز میں لگاتا ہے کہ پورا پنڈال ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔

ایک اپنی مہارت کی داد وصول کرتا ہے تو دوسرا اپنے مسخراپن کی۔ دونوں کی اپنی اپنی دنیا اور اپنی اپنی حیثیت ہے۔ لیکن سرکس کے مسخرے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے وہ ہیرو والی داد نہیں چاہتا بلکہ مسخرے والی داد پر خوش ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک مختصر ٹولے نے بغاوت کی کوشش کی تو ترکی کے اس مقبول صدر کی اپیل پر ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے، ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، سپاہیوں کے سامنے دیوار بن گئے۔ ایسے میں پاکستان کے کچھ سیاست دان اور عظیم دانشور بھی اپنے ’’عظیم الشان‘‘ تبصرے کرنے لگے کہ اب عوام جمہوریت کا خود دفاع کریں گے۔ طالع آزما قوتوں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔

اب ڈکٹیٹر شپ کے زمانے گزر گئے۔ گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی قوم ان کے منہ سے یہ تبصرے سنتی اور ویسے ہی مسکراتی رہی جیسے مسخرے کے کرتبوں پر مسکراتی ہے۔ کیونکہ سرکس میں مسخرہ بھی اپنی ناکام پرفارمنس پر ہیرو کی طرح ہاتھ اٹھا کر داد کا طالب ہوتا ہے۔ کیا ان رہنماؤں نے ٹھنڈے دل کے ساتھ دامن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اور طیب اردگان میں کیا فرق ہے۔ اس کی بیرون ملک سے ایک ٹیلیفون پر دی گئی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے ہر دفعہ جانے کے بعد لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ دانشوروں کا تو کیا کہنا، ان کی خبروں، ٹویٹر کے ٹویٹ اور فیس بک کے تبصروں میں صبح تک یہ خواہش امڈ امڈ کر سامنے آ رہی تھی کہ فوجی بغاوت کامیاب ہو جائے گی اور ترکی کا اسلامی چہرہ سکیولرازم اور لبرل ازم میں بدل جائے۔ یہ دانشور، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار پوری رات پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھائے رہے۔

پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ بس اب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا سورج غروب ہو گیا۔ ذرا مغرب کے میڈیا اور اس کے کرتا دھرتا افراد کی ناکام خواہشوں اور حسرتوں کا تماشا ملاحظہ کریں۔ برطانیہ کا مشہور اخبار ٹیلی گراف خبر لگاتا ہے۔ The Army Sees Itself as the Guardian of Turkey’s Secular Consitution”

(فوج اپنے آپ کو ترکی کے سکیولر آئین کی محافظ سمجھتی ہے) یعنی پارلیمنٹ نہیں فوج آئین کی محافظ ہے۔ جب فوجی دستے بغاوت کے لیے نکلے تو نیویارک ٹائمز نے تو فوج کی جانب عوام کی ہمدردیاں موڑنے کے لیے یہ خبر لگائی ”A Look at Erdogan, Controvesial Rule in Turky” (ترکی میں اردگان کے متنازعہ اقتدار پر ایک نظر)۔ اس دوران دنیا بھر کے اخبار اردگان کے بارے میں افواہیں پھیلاتے رہے۔ ڈیلی بیٹ نے ایک اپ ڈیٹ لگائی ”Erdogan Reportedly Denied Assylum in Germany, Now Headed to London” (جرمنی نے اردگان کو پناہ دینے سے انکار کر دیا، اب وہ لندن جا رہے ہیں) Vox نیوز تو کھل کر بولنے لگا۔ ”Erdogan Is Clearly a Threat to Turkish Democracy and Secularism” (اردگان واضح طور پر ترکی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے ایک خطرہ ہے)۔انتہائی معتبر جانا جانے  والا فوکس (FOX) نیوز اپنے تبصرہ نگاروں میں کرنل رالف پیٹرز (Ralf Peters) کو لے کر آیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2005ء میں پینٹاگان کے جرنل میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پوری مسلم دنیا کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ اس کرنل صاحب نے اردگان کے خلاف ایک تفصیلی تبصرہ کیا اور کہا

”If The Coup Succeeds, Islamists Loose and We Win”

(اگر بغاوت کامیاب ہو جاتی ہے تو اسلامسٹ ہار جائیں گے اور ہم جیت جائیں گے)۔ بددیانتی کا ’’شاندار‘‘ مظاہرہ روس کے اخبار سپتنک (Sputnik) نے کیا۔ عوام کی تصویریں لگا کر کیپشن لگایا ”Images From The Ground in Turkey Show People Celebrating Coup” (بغاوت پر خوشی منانے والے عوام کی تصاویر) پاکستان کے سیکولر میڈیا نے بھی اپنے مغربی آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی خواہش کو خبر بنایا۔ ایک انگریزی معاصر نے آٹھ کالمی سرخی لگائی ”ERDO-GONE” اس سرخی میں چھپی ان کی حسرت کتنی واضح نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے سیکولر اور لبرل بلاگزر تو پوری رات تڑپتے رہے کہ کسی طریقے سے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کی خوش کن خبر سنیں۔ لیکن ناکامی کے بعد جمہوریت کی بقا اور فتح کا نعرہ لگانے لگے۔

کیا یہ جمہوریت کی فتح ہے یا طیب اردگان کے ان نظریات کی فتح ہے جو وہ اپنے ملک کو بتدریج اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے جنگ عظیم اول اور خلافت کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے سیکولر ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا۔ قدیم ترکی لباس ضبط کر لیے گئے تھے اور پینٹ کوٹ اور سکرٹ اور بلاؤز کو لباس بنا دیا گیا۔ عربی رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط نافذ کیا گیا۔

یہاں تک کہ اذان بھی ترکی میں دی جانے لگی۔ ظلم اس قدر کہ پارلیمنٹ میں ارکان نے عربی میں اذان دینا شروع کی تو انھیں گولیوں سے بھوننا شروع کیا گیا اور سات ارکان نے جام شہادت نوش کر کے اذان مکمل کی۔ ان اقدامات کے خلاف جلال بابار اور عدنان مندریس کی حکومت آئی تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی اور صدر جلال بابار کو عمر قید۔ سو سالہ سیکولرازم اور امریکی مدد پر چلنے والی سیکولر فوج کی موجودگی میں طیب اردگان لوگوں کے دلوں میں چھپی اسلام سے محبت کو سامنے لے آیا اور اب پورا مغرب اسے ایک ڈراؤنا خواب سمجھتا ہے ۔انھیں اندازہ ہے کہ اردگان کے یہ چند اقدامات معاشرے کو وہاں لے جائیں گے جہاں شریعت معاشرے کا قانون بن جائے گی۔

وہ معاشرہ جہاں مساجد ویران ہو چکی تھیں، طیب اردگان نے نہ صرف انھیں آباد کیا بلکہ صرف دو سالوں 2002ء اور 2003ء میں سترہ ہزار نئی مساجد تعمیر کروائیں۔ حجاب جس پر پابندی لگائی گئی تھی، یہ پابندی اٹھالی گئی اور نومبر 2015ء میں عالمی میڈیا میں یہ خبر بن گئی کہ ایک جج نے حجاب پہن کر کیس سنا۔ اتاترک نے تمام مدارس ختم کر دیے تھے اور ان کی جگہ’’امام ہاتپ‘‘ اسکول قائم کیے گئے جہاں اسلام کی مسخ شدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اردگان نے پہلے ان کا نصاب بدلا اور اب ان اسکولوں میں جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، دس لاکھ طالب علموں نے داخلہ لیا۔ جب وہ برسراقتدار آیا تو ان اسکولوں میں صرف 65 ہزار طلبہ تھے۔ تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور قرآن پاک کی عربی میں تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔ اتاترک کے زمانے سے ایک پابندی عائد تھی کہ بارہ سال سے پہلے آپ قرآن پاک کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔

اردگان نے یہ پابندی اٹھا لی۔ سکیولر لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ ایک بچے کو بارہ سال تک سیکولر نظریات پر پختہ کر لیا جائے اور پھر بے شک وہ قرآن پڑھے، اسے تنقیدی نظر سے ہی دیکھے گا۔ ایک مغرب میں رچے بسے معاشرے میں 2013ء میں اردگان نے اسکول اور مسجد کے سو میٹر کے اردگرد شراب بیچنے اور اسکے اشتہار لگانے پر پابندی عائد کر دی۔ ’’زراعت اسلامی بینک‘‘ کو سودی بینکوں پر ترجیح دی۔ اگرچہ کہ یہ تمام اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں اور معاشرے کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں ڈھال پاتے لیکن اس کے باوجود بھی خوف کا یہ عالم ہے کہ اردگان کے یہی اقدامات اگر جاری رہے تو ایک دن ترک معاشرے سے ایسی لہر ضرور اٹھ سکتی ہے جو شریعت کو نافذ کر کے دکھا دے گی اور شریعت اور خلافت یہ دو لفظ تو مغرب اور سیکولر لبرل طبقات کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ لوگ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اردگان کے اسلامی اقدامات کے حق میں نکلے۔

اس کے لیے کہ اس سے پہلے کئی بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا لوگ مزے سے سوتے رہے‘ یہ اسلامی اقدار جو ان کی روح میں رچی بسی ہیں۔دنیا بھر کے سیکولر لبرل ساری رات بغاوت کی کامیابی خواہش میں تڑپتے رہے۔

اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو پھر ان کے تبصرے دیکھنے کے قابل ہوتے۔ کیسے فوجی بغاوت کی حمایت میں رطب اللسان ہوجاتے۔اب ناکام ہوگئے ہیں تو جمہوریت اور سسٹم کے بقا کے لیے عوام کی جدوجہد کا نعرہ لگا دیا اور پھر ان کی ہمنوائی میں پاکستان کی جمہوری سیاست کے بددیانت، کرپٹ اور چورسیاستدان بھی میدان میں آگئے جنھوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور اپنی جائیدادیں بنائیں۔ ترک عوام نے سرکس کے ہیرو کی طرح اپنی فنکاری دکھائی اور داد وصول کی۔ لیکن اب یہ ویسی ہی داد وصول کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے لوگ ان کی خواہشوں اور گفتگو پر ویسے ہی مسکراتے ہیں جیسے سرکس کے مسخرے کی حرکتوں پر مسکراتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مسخرہ اپنے مسخرے پن پر داد چاہتا ہے اور وصول کرتا ہے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ حرکتیں مسخرے والی کریں اور داد ہیرو کی وصول کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔