کشمیری نواز شریف سے توقعات

تنویر قیصر شاہد  پير 18 جولائی 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’برہان وانی آزادیٔ (کشمیر) کا سپاہی تھا۔‘‘ یہ الفاظ جناب وزیراعظم محمد نواز شریف کے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ روز گورنر ہاؤس (لاہور) میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ادا کیے۔ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے ایک ہفتے سے سات لاکھ بھارتی قابض افواج نے ظلم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے ، اس کا خصوصی جائزہ لینے، فوری طور پر کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں عالمی سطح پر سفارتی جنگ لڑنے اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں مضبوط مؤقف اپنانے کے لیے وزیراعظم صاحب نے یہ خصوصی اجلاس بلایا تھا۔

بائیس سالہ کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی، جن کی بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی و حریت نے نئی قوی کروٹ لی ہے،  میاں صاحب نے پُر زور الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، بھارتی میڈیا اس پر سخت سیخ پا ہوا ہے۔ مجھے بھارت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے مواقع ملے ہیں۔ اور مَیں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں حقِ آزادی کے لیے اٹھنے والی اس تازہ لہر کے حق میں جونہی جناب نواز شریف نے بیان دیا، بھارتی بھڑک اٹھے۔

تعصب میں مبتلا ہو کر اس حوالے سے انھوں نے جناب نواز شریف کو حافظ محمد سعید سے بھی نتھی کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ بھارت میں مقتدر بی جے پی کے کئی معروف ارکانِ لوک سبھا نے مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان سے سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ بھارت پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان اگرچہ بھارت سے بہترین تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کشمیری نژاد نواز شریف اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی جدوجہد کو ماننے اور اس میں اپنا جائز و مقدور بھر اخلاقی حصہ ڈالنے ہی سے انکار کر دیں۔  وزیراعظم نواز شریف مسئلہ کشمیر سے غافل ہیں نہ وہ کشمیریوں کی جدوجہد سے لاعلم۔ افسوس تو یہ ہے کہ کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں شائع اور نشر ہونے والے نواز شریف کے بیانات کے خلاف بھارتی میڈیا نے جو غلیظ زبان استعمال کی ہے اور جس میں بے جا طور پر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو بھی رگیدنے کی (ناکام) کوشش کی گئی ہے، اس ردِ عمل کی بہرحال توقع نہیں کی جا رہی تھی۔

دوسری طرف مگر سینئر کشمیری قیادت کا بیان آیا ہے کہ ہم کشمیری نژاد وزیراعظم نواز شریف سے یہی توقعات کر رہے تھے کہ وہ کُھل کر آزادیٔ کشمیر کی اس تازہ لہر کی تقویت بھی محسوس کریں گے اور ان کا دل اہلِ کشمیر کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکے گا۔ توقعات کے عین مطابق یہ دل دھڑکا بھی ہے اور اس کی ’’آواز‘‘ سرحد کے آر پار واضح طور پر سنائی بھی دی گئی ہے لیکن افسوس تو ہمارے ان تجزیہ نگاروں اور صحافت کاروں پر ہے جو اس کے باوجود مسلسل تہمت و الزام کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں کہ کشمیری نژاد ہونے کے باوجود نواز شریف کشمیریوں پر بھارتی فوج کے تازہ مظالم پر کوئی بیان دینے اور لب کشائی کرنے سے دانستہ گریز کر رہے ہیں۔

شہید برہان مظفر وانی کی بے مثال قربانی کو تسلیم کرتے ہوئے جناب نواز شریف نے جس جرأت سے انھیں سیلوٹ کیا ہے، اس عمل کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اس بیانئے سے انحراف کرنا اور منہ موڑنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وطنِ عزیز میں کشمیریوں کی قربانیوں اور جہدِ مسلسل سے انکار کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کر لینا کسی بھی منتخب وزیراعظم کے لیے ناممکن ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت یہ بھی فیصلہ کرنا کہ کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ملک بھر میں یومِ سیاہ منایا جائے گا، ایک مستحسن اور مفید اقدام ہے۔ یہ پیغام سرحد پار بنیئے کو بھی پہنچا ہے اور بھارتی فوجوں کے ہاتھوں لہو لہان مقبوضہ کشمیر میں بھی۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے یقینا بھارتی ناخوش ہیں اور ہمارے کشمیری بھائی مطمئن۔ سینئر کشمیری قیادت، جو برہان وانی کی شہادت سے یکدم ایک نئی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، نے بھی پاکستان کے اس فیصلے کوپسند کیا ہے اور ان لاتعداد کشمیری نوجوانوں نے بھی جو اپنا خون دے کر مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں پاکستان کے پرچم بلند کر رہے ہیں۔

فیصلہ کیا گیا تھا کہ بروز منگل بتاریخ 19جولائی 2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف یومِ سیاہ منایا جائے گا۔ درمیان میں مگر ایک اعتراض بھی آگیا جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس سے صرفِ نظر کیا جانا چاہیے تھا: ہم قومی سطح پر پچھلے برسہا برس سے 19 جولائی ہی کو ’’یومِ الحاقِ کشمیر‘‘ بھی مناتے چلے آرہے ہیں کہ انیس جولائی وہ تاریخی دن ہے جب کشمیریوں نے یک زبان ہوکر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے، پاکستان کے ساتھ مرنے اور پاکستان کے ساتھ جینے کامتحدہ اور متفقہ اظہار کیا تھا۔

پاکستانی و کشمیری ہر سال 19جولائی کو ’’یومِ الحاقِ کشمیر‘‘ منا کر اس عہد اور وعدے کی تجدید بھی کرتے ہیں اور اقوامِ عالم کو باور بھی کراتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت کیے گئے فیصلے کے مطابق 19 جولائی 2016ء کو ’’یومِ سیاہ‘‘ منایا جاتا تو پھر ’’یومِ الحاقِ کشمیر‘‘ کے حوالے سے دیکھنے سننے والوں کو ایک منفی پیغام بھی جا سکتا تھا۔ ہمیں حیرانی ہے کہ جب ’’یومِ سیاہ‘‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا تو آیا لاہور کے گورنر ہاؤس میں جناب وزیراعظم کے آزو  بازو میں بیٹھے بہت سے اصحابِ دانش، وزیروں اور مشیروں میں سے کسی ایک کا بھی دھیان 19 جولائی ہی کو منائے جانے والے ’’یومِ الحاقِ کشمیر‘‘ کی طرف نہ گیا؟ کیا یہ قابلِ توجہ بات نہیں تھی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جناب وزیراعظم نواز شریف کو اس بارے میں اُسی وقت مطلع کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر اس اعتراض، جو قطعی جینوئن ہے، کے باوجود دونوں ایام 19 جولائی کو منائے جاتے تو دونوں کے مقاصد مجروح اور دونوں کی روحیں متصادم ہونے کے خدشات بہرحال موجود تھے۔

نواز شریف مقبول عوامی سیاستدان ہیں۔ اگر انیس جولائی کے ’’یومِ الحاقِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے انھیں بروقت بتایا جاتا تو یقینا وہ یومِ سیاہ کے بارے میں کسی دوسری تاریخ کا اعلان کر دیتے۔ دنیا جس طرح خون کے دھبوں سے بھر گئی ہے اور مقبوضہ کشمیر سے لے کر مدینہ منورہ تک، فلسطین سے شام تک اور فرانس سے لے کر ترکی تک خون کی ہولیاں کھیلی جا  رہی ہیں، خود کش دھماکے ہو رہے ہیں، ناکام فوجی انقلاب آ رہے ہیں، نواز شریف صاحب کے ذہن سے ’’یومِ الحاقِ کشمیر‘‘ کی تاریخ اُتر گئی ہو گی۔ انھیں یاد دلانا ازبس ضروری تھا۔

ایک دن کی تاخیر سے انھیں یاد دلایا گیا تو ہفتہ کی دوپہر وزیراعظم ہاؤس سے اعلان کر دیا گیا کہ اب یومِ سیاہ 20 جولائی کو منایا جائے گا۔ نواز شریف سے یہی توقع تھی کہ وہ صورتحال واضح ہونے کے بعد عوامی احساسات ہی کے ساتھ جاتے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جس روز گورنر ہاؤس میں جناب نواز شریف یہ فیصلے کر رہے تھے، اسی شام ترک فوج کے چند باغی عناصر صدر اردوان کا تختہ الٹنے کے لیے انقرہ میں لوگوں کا خون بہا رہے تھے۔ انھوں نے تقریباً سو سے زائد لوگوں کو قتل تو کر دیا ہے لیکن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ترک عوام نے سینے تان کر ٹینکوں کے راستے روکے اور اپنی جمہوریت بچالی۔ ترک صدر بجا طور پر اپنے عوام کی اس تازہ ترین قربانی پر فخر کر سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی ایسی قربانی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ تازہ ناکام ترک فوجی انقلاب میں ہمارے لیے بھی بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔