ہم مردہ پرست لوگ

عابد محمود عزام  پير 18 جولائی 2016

عبدالستارایدھی مرحوم کی وفات پر بحیثیت مجموعی ہم نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح سے لے کر خادم انسانیت عبدالستارایدھی تک ہمارا ایک ہی رویہ رہا ہے۔ ہم قابل احترام زندہ شخصیات کو وہ عزت نہیں دیتے، جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں، لیکن جب وہی شخصیات دنیا سے رخصت ہوجائیں تو شاہراؤں اور عمارتوں کوان کے نام سے منسوب کردیتے ہیں اور مرنے والوں کو انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ دفن کردیتے ہیں، لیکن ان کے نقش قدم پر نہیں چلتے اوران کے کام اور مشن کو زندہ نہیں رکھ سکتے۔ عبدالستار ایدھی مرحوم انسانیت کے خادم، پاکستان کا فخر اورقوم کے محسن تھے۔انھوںنے تن تنہا وہ کام کیا، جو کئی تنظیمیں مل کر بھی نہیں کرسکتیں۔

عبدالستار ایدھی ہندوستان میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ ایدھی مرحوم کے بیٹے کے بقول پاکستان آکر انھوں نے سوچا تھا کہ مسلمانوں کی یہ مملکت سماجی فلاحی ریاست ہوگی، مگر جب وہ پاکستان پہنچے تو اس کے بالکل برعکس پایا۔ جب ہماری ریاست ایدھی مرحوم کی مفلوج اوردماغی بیماری کی شکار والدہ کی دیکھ بھال میں اس خاندان کی مدد نہیں کر پائی تو انھوں نے خدمتِ خلق کا فیصلہ کیا اور 1951ء میں شہرِ قائد کے قلب میں نہایت پْرامید ہوکر اپنا کلینک کھول لیا۔

گزشتہ سالوں میں ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اوراولڈ ہومز بنائے، جس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا تھا جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے۔ پاکستان اپنے ایک بے لوث سماجی ’’سپاہی‘‘ اور عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا۔ان کی رحلت کے ساتھ ہی موت کی دہلیز تک پہنچی انسانیت سے محبت کا ایک لازوال باب بند ہوا۔ وطن عزیز میں چھ دہائیوں تک دکھی انسانیت کی بے لوث خدمات سرانجام دینے والے عظیم انسان دوست اوربلاتفریق رنگ، نسل، مذہب انسانیت کے خدمت گزار عبدالستار ایدھی کے سانحہ ارتحال پر پوری قوم رنجیدہ اور ہر دل مغموم ہے۔

کراچی میں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ایدھی مرحوم کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ صدر ممنون حسین سے لے کر تینوں مسلح افواج کے سربراہوں تک، گورنروں اور وزراء اعلیٰ سے لے کر حکومتی اور اپوزیشن سیاسی رہنماؤں تک کئی اعلیٰ شخصیات نے جنازے میں شرکت کی۔ ان کی میت قومی پرچم میں لپیٹی گئی اور تدفین کے وقت انھیں گارڈ آف آنر اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی، لیکن افسوس سیاست دانوں اور حکمرانوں نے جس طرح بابائے قوم کے بعد کرپشن و بدعنوانی سے پاک اور غریب دوست پاکستان کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں کیا۔

بالکل اسی طرح میڈیا کے سامنے بڑھ چڑھ کر غریب اورکمزور طبقے کے حقوق کی ہوائی باتیں اورعبدالستار ایدھی سے اظہار محبت کرنے والے حکمرانوں سے ایدھی مرحوم کے مشن کو جاری رکھنے کی قطعاً کوئی امید نہیں ہے۔ غریبوںوکمزوروں کے ساتھ تعاون، لاچارو بے آسرا لوگوں کا سہارا بننا ریاست وحکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن جو کام تمام وسائل سے مالا مال حکمران طبقہ نہ کر سکا، وہ کام صرف ایک فقیر منش انسان نے کرکے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا، جب کہ حکمران طبقے کو اتنی توفیق بھی نہ ملی کہ فلاحی کاموں میں ان کے ساتھ تعاون ہی کرسکے۔

اگرچہ عبدالستارایدھی کی موت پر سب ہی ریاستی، حکومتی اور بالادست طبقات ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر ان سب کو شرم آنی چاہیے کہ ان کے کرنے کا کام ایدھی نے اکیلے سنبھالا۔ حکمرانوں نے عبدالستار ایدھی کو اگرچہ زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے، لیکن اس کی حیثیت دکھلاوے سے زیادہ کچھ نہیں،کیونکہ اگر حکمران واقعی خدمت انسانیت کے فلسفے کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو وہ خود بھی اس فلسفے پر عمل پیرا ہوتے اور ملک کی دولت کو بینکوں میں چھپانے اور قوم کی اس دولت سے بیرون ملک اپنے بڑے بڑے کاروبارکرنے کی بجائے ملک سے غربت کے خاتمے کی سرتوڑکوشش کرتے، جس کے بعد بعید نہیں تھا کہ ملک سے غربت کا خاتمہ کچھ ہی عرصے میں ہوجاتا، لیکن حکمران طبقے نے کبھی اپنی اس ذمے داری کو ذمے داری ہی نہیں سمجھا۔ ملک میں اگرچہ متعدد فلاحی تنظیمیں بھرپورکام کررہی ہیں اور صاحب ثروت افراد اپنے اپنے طور پر بھی دوسروں کی بھلائی کے کام میں مشغول ہیں، لیکن جوکام تمام وسائل سے مالا مال ریاستی ڈھانچہ کرسکتا ہے، وہ کسی فلاحی تنظیم سے ہونا مشکل ہے۔

عبدالستار ایدھی اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن تھے جو اپنے اندرغریبوں، مسکینوں، یتیموں، معذوروں، بچوں، بچیوں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کو سجائے ہوئے تھے۔ انھوں نے جو کام اپنے ذمے لیا، آخر عمر تک اسے مکمل ذمے داری کے ساتھ نبھایا، اگر حکمران سنجیدہ ہوتے توکم ازکم جتنا کام اکیلے ایدھی مرحوم نے کیا۔

اس سے کم ازکم دوچارگنا ہی زیادہ کرلیتے، لیکن حکمران تو ابھی تک ملک میں کوئی ایسا اسپتال تک نہیں بناسکے، جہاں کم ازکم اپنا ہی علاج کرواسکیں، اشرافیہ میں سے کسی کو چھینک بھی آئے تو فورا جہاز اڑا کر امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کے مہنگے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایدھی مرحوم نے تین سال سے زاید عرصے تک صبروہمت اور استقامت کے ساتھ اپنی علالت کو برداشت کیا۔ ان کوکئی بار بیرون ملک علاج کروانے کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر ایسی کوئی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کرلی کہ وہ اپنے ہی ملک میں علاج کرانے کو ترجیح دیں گے اور بالآخر اپنے ہی وطن میں اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی۔

حکمران طبقے سے تو یہ امید نہیں کہ وہ مرحوم کے مشن کو زندہ رکھے گا، لیکن ان سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے طور پر ان کے مشن کو جاری رکھیں۔ عبدالستار ایدھی کے بقول یہ جو میں نے اتنا کام پھیلایا ہے، اس کی وجہ معاشرے کا پیسے والا اور اختیار رکھنے والا طبقہ نہیں، بلکہ عام آدمی ہے۔ اگر ہر علاقے میں عام آدمی چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

ضرورت مند لوگ ہر علاقے میں مل جائیں گے، یتیم، تعلیم سے محروم اور بیمارو کمزور لوگوں سے ملک کا کوئی علاقہ بھی خالی نہیں ہے۔اگر ہم میں سے ہر فرد سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حالات کا رونا رونے کی بجائے اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے ایدھی مرحوم کے نقش قدم پر چلے تو بعید نہیں کہ اپنی قوم کو مسائل سے نکالنے میں آسانی سے کامیاب ہوجائیں۔ اگرچہ ہر شخص کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھانا ممکن نہیں ہے، لیکن ہر فردکم ازکم اپنی سطح تک تومعاشرے کو کچھ دینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اگر اکیلا بھی کچھ نہیں کرسکتا تو کم ازکم دوچار دوستوں کے ساتھ مل کر ہی اپنے علاقے،اپنے محلے اوراپنے گاؤں کی سطح پرہی ناداروں، ضرورت مندوں اورمعاشرے کی خدمت کے لیے کوئی ایسا سیٹ اپ بنایا جاسکتا ہے، اگر ہم میں سے ہر ایک ایدھی مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے تو یقین جانیے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔