- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس جاری
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
- اڈیالہ جیل میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
- توانائی کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنا ترجیح میں شامل ہے، امریکا
- ہائیکورٹ کے ججزکا خط، چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات
- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
بلند شرح سود و بجلی بحران، نجی شعبے کا نئی سرمایہ کاری سے گریز
کراچی: بجلی کے بحران معاشی سست روی اور بلند شرح سود کے باعث نجی شعبے کے کاروباری قرضوں میں گزشتہ سال ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا، 30جون 2012کو نجی شعبے کے کاروباری قرضوں کی مالیت 24کھرب 50ارب روپے ریکارڈ کی گئی۔
نجی شعبے کے کاروباری قرضوں کی یہ سطح جون 2011کے مقابلے میں 19ارب روپے زائد رہی، جون 2011کے اختتام پر نجی شعبے کے کاروباری قرضوں کی مالیت 24کھرب 31ارب روپے رہی تھی، حکومت کی جانب سے بینکاری نظام سے حد سے زائد قرض گیری نے بینکوں کیلیے نجی شعبے کو کاروباری قرضوں کی فراہمی گھاٹے کا سودا بنادیا ہے،
حکومت کو دیے گئے قرضوں پر ملنے والے منافع اور ڈپازٹرز کو دیے جانے والے منافع کی شرح میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے شیڈول بینک نجی شعبے کو قرض دینے سے گریزاں ہیں جبکہ بلند شرح سود، بجلی کے بدترین بحران اور معاشی سست روی کے باعث ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کے ساتھ مقامی سرمایہ کاری بھی رکی ہوئی ہے، بجلی کے بحران کے باعث پہلے سے قائم صنعتوں کا پہیہ چلنا دشوار ہوچکا ہے،
اس صورتحال میں مقامی صنعتوں میں توسیع کا عمل بھی بند ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے کی جانب سے نئے قرضوں کے حصول سے اجتناب کیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق زرعی شعبے کے قرضوں کی مالیت ایک سال کے دوران 180ارب روپے سے بڑھ کر 198ارب روپے تک پہنچ گئے،
زرعی شعبے میں زیادہ تر قرضے فصلوں کی کاشت کے لیے حاصل کیے گئے، کان کنی اور معدنیات کے شعبے کے قرضے 18ارب روپے سے کم ہوکر 16ارب روپے کی سطح پر آگئے ، مینوفیکچرنگ سیکٹر کے قرضوں کے اسٹاک کی مالیت 1385ارب روپے سے بڑھ کر 1389ارب روپے ہوگئی۔ ملکی برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کے قرضوں کی مالیت 514ارب روپے سے کم ہوکر 490ارب روپے ہوگئی،
اس طرح ٹیکسٹائل سیکٹر کے قرضوں کے اسٹاک میں ایک سال کے دوران 24ارب روپے کی کمی واقع ہوئی،کیمیکل انڈسٹری کے قرضے 158 ارب روپے سے بڑھ کر 172ارب روپے تک پہنچ گئے، کھیلوں کے سامان کی صنعت کے قرضے 5.2ارب روپے سے بڑھ کر 5.4ارب روپے تک پہنچ گئے، شپ بریکنگ کی صنعت کے قرضوں کا اسٹاک 7ارب روپے سے بڑھ کر 12.6ارب روپے تک پہنچ گیا جو شپ بریکنگ انڈسٹری میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی دلیل ہے۔
سب سے زیادہ الائڈ انڈسٹریز کو سپورٹ کرنے اور معاشی سرگرمیاں بڑھاتے ہوئے روزگار کے مواقع بڑھانے والی تعمیراتی صنعت کے قرضوں کا اسٹاک 14.23ارب روپے گھٹ جانے سے 67.74 ارب روپے سے کم ہوکر 53.51 ارب روپے کی سطح پر آگیا جس میں بلڈنگ کنسٹرکشن شعبے کے قرضے 50ارب روپے سے کم ہوکر 38ارب روپے اور انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے حاصل کردہ قرضوں کے اسٹاک کی مالیت 17.5ارب سے کم ہوکر 15.4 ارب روپے ہوگئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔