اپنی کھوج کریں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 جولائی 2016

ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ’’ہمیں کہیں بھی اپنی کھوج روکنی نہیں چاہیے اور اپنی تمام کھوج کے اختتام پر ہم خود کو وہیں پائیں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا اور ہمیں یوں احساس ہو گا کہ جیسے ہم اس جگہ کو پہلی دفعہ جان رہے ہوں‘‘ جب کہ حضرت داؤد نے کہا تھا ’’اپنے دل کو پوری محنت کے ساتھ کھنگال لو کہ دراصل یہیں سے زندگی کے تمام مسائل اٹھتے ہیں‘‘ اس وقت ضروت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو الگ نظر سے دیکھیں اور ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کریں کہ جس کے ذریعے ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں، اپنی دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات کی تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے ۔

ہم ہر وہ بات جو بے معنیٰ ہے بے مقصد ہے بار بار زیر بحث لاتے ہیں ہر وہ چیز جن کا ہم کو درپیش مسائل سے دور دور تک کوئی سروکار نہیں ہے۔ دن رات اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ہم نے کبھی یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ ہے کہاں ۔ اصل میں نہ تو ہمیں اپنے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ہم ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

لگتا ہے اب تو ہمیں اپنے عذابوں اور مسائل میں ہی تسکین ملتی ہے فضول، لچر، بیہودہ گفتگو میں ہی مزا آتا ہے۔ زندگی کی تمام گندگیوں میں ہی ہمیں چین اور سکون ملتا ہے جھوٹ سننے سے ہمیں سرور حاصل ہوتا ہے کرپشن، لوٹ مار کے قصے سن کر ہمارے کلیجے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ مسائل کے ڈھیر دیکھ کر ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے دنیا بھرکی ترقی، کامیابی، خوشحالی پر فتوؤں کی بارش کرنا ہمارا قومی فریضہ بن کر رہ گیا ہے ، اگر کوئی سمجھ داری اور دانش مندی کی باتیں کرتا ہے تو ہم لٹ اٹھا کر اس کے پیچھے بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ عقل ہمیں دیکھ کر خوف سے کانپنے لگ جاتی ہے حتی یہ کہ دنیا بھر کے فلسفیوں ، سائنس دانوں ، نفسیات دانوں ، ادیبوں، شاعروں کی کتابیں دکانوں اور گھروں میں جلے جانے کے ڈر سے کاپنتی رہتی ہیں۔

آئیں یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھرکی قوتیں کیا کچھ کر رہی ہیں ۔ چین میں سونگ خاندان کے وقت سے آج تک کنفیوشس خیالات کے علماء اور استاد بچوں کو جو پہلا سبق پڑھاتے ہیں اس میں مندرجہ ذیل فقرے آتے ہیں اور بچے کو یہ سبق حفظ کرایا جاتا ہے، ’’قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے، تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ہمیں خود اپنی قومی زندگی کی تنظیم کرنی چاہیے قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے گھریلو زندگی کو باقاعدہ بناتے جو لوگ گھریلو زندگی کو منظم بنانا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب چاہتے وہ سب سے پہلے اپنے دلوں کو پاک صاف کرتے، دلوں کو پاک صاف کرنے کی خواہش کرنے والے سب سے پہلے نیتوں کو مضبوط بناتے، نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے اور سمجھ اشیاء کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے۔

جب اشیاء کا علم حاصل ہوجائے تب سمجھ پیدا ہوتی ہے اور جب سمجھ پیدا ہو جائے تو نیت اور ارادہ مخلص ہو جاتا ہے اور جب نیت صاف اور ارادہ مخلص ہوجائے تو دل صا ف ہو جاتا ہے جب دل صاف ہو جائے تو ذاتی زندگی کی تہذیب اور تربیت پوری ہو جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب ہو جائے تو گھریلو زندگی منظم اور باقاعدہ ہو جائے گی اور جب گھریلو زندگی منظم ہو گی تو قومی زندگی بھی منظم ہو جائے گی اور جب قومی زندگی منظم ہو تو دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ گویا شہنشاہ سے لے کر ایک عام آدمی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر کہ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کی جائے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بنیاد باقاعدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت ٹھیک اور باقاعدہ ہو دنیا میں کوئی ایسا درخت موجود نہیں جس کا تنہ تو کمزور اور نازک ہو اور اس کی اوپر کی ٹہنیاں بے حد بھاری بھر کم اور مضبوط ہوں اور ہر چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق اٹل ہے۔ اسی طرح انسانی معاملوں میں بھی ابتداء اور انتہا دونوں موجود ہیں لیکن ان درجوں کا جاننا ان کی تقدیم اور تاخیر کا علم حاصل کرنا یہ ہی دانش مندی کی ابتداء اور اس کی دہلیز ہے۔‘‘

امریکا، برطانیہ ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے بچوں کو ابتدائی سبق اخلاقیات کا ہی سکھاتے ہیں۔ بدھ مت اور تاؤ مت کی بنیادیں اخلاقیات پر ہی کھڑی ہیں جب کہ یہودی مائیں اپنے بچے دنیا میں آنے سے پہلے اپنی خود کی تربیت اخلاقیات کے دائرے میں کرنا شروع کر دیتی ہیں اپنے آ پ کو اچھا اور پر سکون ماحول مہیا کرتی ہیں اور اپنی پوری ٹریننگ کرتی ہیں یعنی یہودی مائیں اپنی نسل کا اس حد تک خیال رکھتی ہیں ۔

چونکہ انسان معاشرتی جانور ہے اس لیے وہ معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور معاشرہ اچھے انسانوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ تمام فلسفے فرد کی ذات سے شروع ہوتے ہیں اور اسی پر ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ فرد ہی زندگی کا حاصل ہے اس لیے فرد کی ذات کی بنیاد اخلاقیات پرکھڑی ہونا لازمی ہے اگر فرد کی بنیاد اخلاقیات پر نہیں کھڑی ہو گی تو پھر اس کی زندگی کے تمام رویے بیمار ہو جائیں گے جس طرح جسم بیمار ہوتے ہیں اسی طرح سے رویے بھی بیمار ہوتے ہیں، آپ جس طرح تندرست یا بیمار جسم کو دیکھ کر پہچان لیتے ہیں۔ اسی طرح سے بیمار یا تندرست رویے بھی با آسانی پہچان لیے جاتے ہیں ۔

آئیے پہلے ہم بیمار رویوں کو پہچانتے ہیں جس کی علامات یہ ہیں غصے میں آ جانا، مسلسل بولنا، ضدی پن، عدم برداشت، عدم رواداری، غرور، تکبر، حسد، جلن، کینہ، منافقت، عدم تشکر ہر و قت اپنی تعریف سننا، ہر وقت دوسروں کی برائیاں کرنا، گھبراہٹ ، بے چینی، بے اطمینانی، دوسروں کو حقیر سمجھنا، خود پسندی اگر آپ ان میں سے کچھ یا پھر تمام علامتیں کسی صاحب میں دیکھیں تو آپ ایک سکینڈ دیر لگائے بغیر اس نتیجے پر پہنچ جایے گا کہ ان صاحب کے رویے بیمار ہیں اور انھیں علاج کی فوری ضرورت ہے۔ لہذا آپ ایک منٹ ضایع کیے بغیر ان صاحب کو اخلاقیات کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کر وا دیجیے گا، کیونکہ جس طرح جسمانی بیماریاں جسم کے لیے مہلک ہوتی ہیں۔

اسی طرح رویوں کی بیماریاں سماج کے لیے بارودی سرنگیں ہوتی ہیں ۔ ایسے لوگ چلتے پھرتے بارود ہوتے ہیں جو کہیں بھی اور کسی بھی وقت وہ تباہیاں پھیلا سکتے ہیں جن کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ آیے اب ہم تندرست رویوں کو پہنچانتے ہیں جس کی علامات یہ ہیں عاجزی، فرض شناسی، اعتدال، جرأت، انصاف، جفاکشی، سادگی، راست بازی، کسر نفسی، برداشت، رواداری، دھیما لہجہ، نظم و ضبط، تشکر، سب کی عزت کرنا۔ اگر ہم تندرست اور بیمار رویوں کی علامتیں سامنے رکھتے ہوئے اپنے سماج پر ایک گہری نظر دوڑائیں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہو گا کہ ہمارے سماج میں ہر طرف ہر جگہ بیمار رویوں کا غلبہ ہے ہم سب کے سب بیمار ہیں، جنہیں فوری طور پر علاج کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سب اب بارودی سرنگیں بن چکے ہیں۔

اس لیے ہمیں ایک منٹ ضایع کیے بغیر پورے ملک کو ایک اسپتال کا درجہ دے دینا چاہیے اور سب کا جنگی بنیادوں پر علاج ہونا چاہیے تاکہ ہم سب جن اذیتوں سے دوچار ہیں ان سے ہمیں نجات حاصل ہو سکے اور ہم بھی پوری دنیا کے باقی انسانوں کی طرح زندگی کی تمام لذتوں، نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہو سکیں اور ایک بھرپور نارمل زندگی گزار سکیں، یاد ر ہے ہم سب اس وقت خاص توجہ فوری علاج اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔