دوران حمل چپس کھانا، نومولود کا وزن کم ہوسکتا ہے

محمد اختر  اتوار 2 دسمبر 2012
تلے ہوئے آلو میں مضر اجزاء حاملہ عورتوں کے ہونے والے بچوں کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں. فوٹو: فائل

تلے ہوئے آلو میں مضر اجزاء حاملہ عورتوں کے ہونے والے بچوں کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں. فوٹو: فائل

ایک نئی یورپی اسٹڈی میں بتایاگیا ہے کہ جو خواتین دوران حمل آلو کے چپس جیسی اشیاء زیادہ مقدار میں کھاتی ہوں، ان کے ہونے والے بچوں کو اتنا ہی نقصان ہوسکتا ہے جو کہ دوران حمل سگریٹ نوشی کرنے والی کسی عورت کے ہونے والے بچے کو ہوسکتا ہے۔

تلے ہوئے آلو میں مضر اجزاء حاملہ عورتوں کے ہونے والے بچوں کو کس طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کے لیے ڈنمارک، انگلینڈ، یونان ، ناروے اور اسپین کی حاملہ خواتین کے ٹیسٹ کیے گئے۔ اسٹڈی میں پتہ چلا کہ انگلینڈ کی نمائندگی کرنے والے بریڈفورڈ شہر میں کم وزن بچوں کی پیدائش کا تناسب سب سے زیادہ پایا گیا۔ اسٹڈی کی قیادت سینٹر فار ریسرچ ان انوائرمنٹل ایپڈیمیالوجی کی جانب سے کی گئی۔

اسٹڈی میں پتہ چلا کہ جو بچے ایسی عورتوں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں جن کی خوراک کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والا کیمیائی مادہ ایکریلا مائیڈ غیرمناسب حد تک زیادہ پایا گیا ہو، ان کے نومولود بچوں کا وزن ان عورتوں کے نومولود بچوں سے 132 گرام تک کم ہوسکتا ہے جنہوں نے اپنی خوراک کے ذریعے یہ مادہ کم مقدار میں لیا۔ ایسی خواتین کے نومولود بچوں کے سر کا سائز بھی 0.33 فیصد تک چھوٹا پایا گیا۔ یاد رہے کہ ایکریلامائیڈ مادہ چپس وغیرہ میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ سر کا سائز چھوٹا ہونے کو نیورو ڈویلپمنٹ یا دماغ اور اعصاب کی تیاری میں تاخیر سے منسلک کیا جاتا ہے جبکہ پیدائش کے موقع پر وزن کم ہونے کی صورت میں بچے کی ابتدائی زندگی اور نشوونما کے حوالے سے سنگین مسائل ہوسکتے ہیں۔

بریڈ فورڈ انگلینڈ کا ایک کثیرالثقافتی اور گہما گہمی کا حامل شہر ہے لیکن یہاں پر صحت کے حوالے سے کئی قسم کے مسائل سراٹھاتے رہتے ہیں۔بریڈ فورڈ میں ایسے کی بچوں شرح اموات باقی انگلینڈ سے زیادہ ہے جو کہ اپنی پہلی سالگرہ بھی دیکھ نہیں پاتے اور اس کی وجہ جاننے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیق ہورہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ میں ایک اسٹڈی جاری ہے جس کا عنوان’’بریڈ فورڈ میں پیدائش ‘‘ہے جو اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اسٹڈی ہے جس میں حمل سے لے کر بلوغت تک ساڑھے تیرہ ہزار بچوں کے صحت کا ریکارڈ دیکھا گیا۔اسٹڈی کے مطابق بریڈفورڈ رائل انفرمری کی جانب سے2007ء   سے لے کر 2010ء  تک بریڈفورڈ کی تمام حاملہ خواتین کو کہا گیا کہ وہ اسٹڈی میں شرکت کریں اور اسی فیصد خواتین نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا۔

اسٹڈی کے سلسلے میں محققین نے اپنے مریضوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے بڑے پیمانے پر معلومات کا تبادلہ کیا اور ایک دوسرے کی اس حوالے سے بھرپور مدد کی۔ محققین نے معلومات کے اس تبادلے کے دوران جاننے کی کوشش کی کہ بعض لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں جبکہ بعض دوسروں سے زیادہ صحت مند زندگی کیسے جیتے ہیں۔

اسٹڈی میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ دوران حمل ایکریلامائیڈ مادے کی جسم میں زیادہ منتقلی حمل کے نتائج پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے اور بچے کے کم وزن اور سرکے چھوٹا ہونے کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے۔بریڈ فورڈ انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے پروفیسر جان رائٹ کے مطابق نومولود کے وزن کے حوالے سے ایکریلامائیڈ کے اثرات سگریٹ نوشی کے جانے مانے اثرات کے برابر ہیں۔اسٹڈی کے سلسلے میں یورپ کے مذکورہ پانچ ملکوں کی گیارہ سو خواتین اور ان کے نومولود بچوں کی خوراک کا جائزہ لیا گیا۔

اسٹڈی میں انگلینڈ سے جو بچے لیے گئے وہ ’’بریڈ فورڈ میں پیدائش‘‘ کے منصوبے کے تحت لیے گئے جو کہ ان ساڑھے تیرہ ہزار بچوں کی پیدائش سے لیکر بلوغت تک کے وقت کا جائزہ لے رہا ہے۔ یونیورسٹی آف لیڈز کی لارا ہارڈی کا کہنا ہے کہ پراجیکٹ کے تحت بریڈفورڈ کی ایک سو چھیاسی خواتین کو اس یورپی اسٹڈی میں لیا گیا۔

اسٹڈی کے مطابق بریڈ فورڈ کے بچوں میں باقی تمام ممالک کے مراکز کے بچوں سے زیادہ ایکریلامائیڈ پایا گیا جبکہ ڈنمارک کے بچوں سے تو یہ دوگنا زیادہ تھا۔جب ان کی خوراک کا جائزہ لیا گیا تو یہ چپس نکلے جن میں ایکریلا مائیڈ سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ پروفیسر رائٹ کے مطابق بریڈ فورڈ کی عورتوں کی خوراک باقی انگلینڈ کی عورتوں جیسی ہے جو ہرسال چپس کے کئی ارب پیکٹ کھاجاتی ہیں۔ اس طرح یوکے میں خوراک کے نتیجے میں سب سے زیادہ ایکریلامائیڈ جسم میں داخل ہوتا ہے اور انگلینڈ میں اس کانتیجہ کم وزن اور چھوٹے سر والے بچوں کی پیدائش کے تناسب میں اضافے کی صورت میں سامنے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔