غمِ قندیل

جاوید قاضی  ہفتہ 23 جولائی 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

وہ قندیل تھی اور قندیل کی طرح بجھ گئی۔ اس کی کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی، بالکل سالم تھی۔ کہتے ہیں بھائیوں نے اسے غیرت کے نام پر مار دیا۔ کتنا سادہ و سلیس یہ نسخہ ہے، کسے کافر کہہ کر ماردو، تو کسے کالی، تو کسے غدار۔ قندیل آج سے تو شوبز میں نہیں تھی۔ اسے بہت سال ہوئے اس شعبے میں۔ مگر کیوں اس وقت غیرت آگئی؟ میں نے اپنی آنکھوں سے بہت سے ’’کالی‘‘ کے واقعات کو قریب سے دیکھا ہے، اس میں ایک فرد کی حیثیت سے اپنا حصہ بھی رقم کرایا، سیکڑوں مضامین لکھے، خود ان وقوعات پر پہنچا اور میرا ذاتی تجربہ یہ کہتا ہے کہ غیرت ایک بہانہ ہے، ماجرا کچھ اور ہے۔ عورت گائے، بھینس، بکری ہوتی ہے، اسے مار دو اور اپنے دشمن کو للکارو کہ وہ اس کی بہن، بیٹی یا بیوی سے Illicit تعلق رکھتا تھا، یعنی وہ کالا ہے۔ اور بس بات ختم۔ کسی تفتیش کی ضرورت ہی نہیں۔ اس نے کہا ایسا ہوگا، لہٰذا وہ بری الذمہ۔ بات ختم۔ یعنی خود ہی عدالت چلاؤ، خود ہی فیصلہ صادر کرو اور خود اس فیصلے کو عمل میں لاؤ اور چلتے بنو۔

ہاں اور ایسے بھی واقعات دیکھے جب لڑکی نے اپنی پسند دکھائی اسے ماردیا، گھر سے بھاگ گئی اسے مار دیا۔ مگر قندیل کچھ اور طرح ہی مری۔ یہاں خودکش حملوں کے لیے غربت کے مارے پیسوں کے عوض اپنے بچے دے دیتے ہیں، گردے بیچتے ہیں، ساؤتھ پنجاب میں غربت کی جو کیفیت ہے، شاید ہی کہیں ہوں۔ قندیل نے اسی غربت میں، غریبوں کی بستی میں جنم لیا تھا۔ یہ وہی غربت تھی جس میں روسکولنکوف، دوستووسکی کے ناول، سزا اور جرم کا ہیرو ایک سود پر پیسے دینے والی بوڑھی عورت کو مار دیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس غربت سے نکلنے کا بس ایک یہی طریقہ ہے۔

قندیل کے پاس بھی غربت سے نکلنے کا بس کچھ اس طرح سے ہی ایک طریقہ تھا۔ اپنے فارغ شوہر، فارغ بھائیوں اور بوڑھے ماں باپ کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اس کے حسن کے، اس کو ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے بہت سے میدان میں آئے۔ کسے کیا خبر اس کے اندر، ایک انتقام تھا، ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا جو عورت کو جنس سمجھتے ہیں، اس کا جسم اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور ویڈیو کتنی تیزی سے جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔

مگر کیا تھا۔ کسی نے غالب سے پوچھا ’’جوتا اور جوتی میں کیا فرق ہے‘‘ غالب نے کہا ’’اگر مرد مارے تو جوتا اور اگر عورت مارے تو جوتی‘‘۔

عجیب ہیں ہم مرد حضرات، اگر مرد ہمیں برا بھلا کہے یا اس سے جھگڑا ہو تو ہم ٹھیک محسوس کرتے ہیں، مگر یہ کام عورت نے کیا تو پھر ہم بہت بے عزتی سمجھتے ہیں۔ سب ٹھیک تھا، جب بات مولانا قوی تک نہیں آئی تھی۔ یہ بھی نہ کہ بلوچوں نے کہا کہ وہ بلوچ نہیں، کیا تو انھوں نے کچھ نہیں، اور جب مولانا قوی کے ساتھ جب ہوا تو بھائیوں کو بھی غیرت آگئی۔ وہ بھائی جو بہن سے حصہ لیتے تھے، کیا خبر حصہ لینے کی عادت میں اس بار انھوں نے بہن کو بھی مار دیا ہو۔ اور غیرت جو جڑی تھی قندیل کے قتل سے ہاتھ دھونے کے لیے۔ بات کی بات، سبق کا سبق، سب کے لیے کہ کسی نے اگر کسی کی پگڑی اچھالی تو قندیل کا انجام دیکھ لے۔

مگر قندیل نے کیا برا کیا۔ اسے شہرت چاہیے تھی، وہ آزادی کے ساتھ جینا چاہتی تھی۔ مرد یہ سب کرے تو ٹھیک، عورت کرے تو برا۔ تبھی تو کبیر نے کہا تھا پارساؤں کے لیے۔

’’برا جو میں دیکھن چلی تو برا نہ ملیا کوئے، جو کھوجا من اپنا تو مجھ سا برا نہ کوئے‘‘

بری قندیل نہیں تھی، بری تو قندیل کو دیکھنے والی آنکھیں تھیں، اور وہ بھی کیوں برے تھے، قندیل بھی کیوں، کہ وہ ان کی مرضی تھی۔ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے، چوری تو نہیں کی ہے، ڈاکا تو نہیں ڈالا‘‘۔

قندیل کا قصور یہ ہے کہ اپنے آپ کو وہ مردوں کے برابر سمجھتی تھی، جو سزا جزا مرد کی ہو وہی عورت کی ہو، اور کیوں نہ سمجھے وہ ایسے۔ وہ بھی اسی کوکھ سے نکلی تھی، جہاں سے اس کے بھائی، وہ بھی خدا کے سورج سے اسی طرح روشنی لیتی تھی، ہوا لیتی تھی۔ اس کا دماغ، لہو کی حرارت سب ایک جیسے تھے، بس صرف آواز پتلی تھی اور مرد کی آواز موٹی۔

اس بدبخت کو کیا معلوم کہ یہی تو فرق ہے جو ہے۔ موٹی اور پتلی آواز کا فرق۔ جسم کی ساخت کا فرق۔ اس کا ذہن کتنا بھی زرخیز کیوں نہ ہو، وہ کتنے بھی کام کیوں نہ کرتی ہو، مگر ہے تو پتلی آواز والی، کمزور جسم کی ساخت والی، وہ بھٹو کی بیٹی بے نظیر تھوڑی تھی، وہ راجا و مہاراجہ کی بیٹی تھوڑی تھی، نہ اسے گٹ پٹ کرتی انگریزی آتی تھی، نہ یہ ملک امریکا یا برطانیہ تھا۔ قندیل کا قصور یہ ہے کہ اس نے اشراف کی اشرافیاں چرائیں، اس کی ہوائیاں اڑ گئیں، اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔

کیا ہوا؟ اس اشراف کا تو کچھ نہیں ہوا۔ بس قندیل بجھ گئی۔ اسے بھائیوں کے ہاتھوں مروایا گیا۔ کیا اس ریاست میں جہاں چیف جسٹس کا بیٹا تو ایک دو ہفتوں میں مل جاتا ہے، جہاں وزیراعظم و گورنروں کے بیٹے تین تین سال نہیں ملتے، کیا ادھر قندیل کے کیس کی آزاد و شفاف تفتیش ہوسکتی ہے کہ اس کے مرنے کے پیچھے کون ہے۔ کیسے ایک دن اس کے بھائیوں کو غیرت آگئی، جو اب تک قندیل کے ٹکڑوں پر پلتے تھے۔

مولانا کے ساتھ اس کی ویڈیو کے بعد، سب قندیل کے پاس پہنچے۔ قندیل کو پھر میڈیا نے اٹھایا۔ ’’اک شام قندیل کے نام، ایک غزل قندیل کے نام‘‘۔

مگر پھر وہی تھے شہرت دینے والے، جنھوں نے اپنے ٹاک شوز سے بحث چھیڑی کہ ابھی ان کا پروگرام رواں ہے کہ لوگ مارے جاتے ہیں۔

جن کے فتوے سے سلمان تاثیر قتل ہوئے۔ ان کے پروگرام دعوت عام تھے۔ قندیل، صابری کی طرح چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور ریاست اسے سیکیورٹی فراہم کرے مگر ریاست کی آنکھیں تھیں نہ کان، وہ بہری تھی۔

قندیل تو بجھ گئی مگر بہت کچھ دکھا کر بجھی، اس نے ہمیں اپنا اصلی چہرہ دکھایا۔ یہ ہے وہ منافق چہرہ ہمارا، ہم نے قندیل کو تو برا جانا مگر منافق کو نہیں۔ ’’کارو‘‘ تو گھوم پھر سکتا ہے مگر ’’کاری‘‘ نہیں۔ مرد کرے تو ٹھیک، عورت کرے تو برا۔ بیٹے کو تو پوری غذا دو اور بیٹی کو کم۔ لڑکوں کو اسکول جانے دو، لڑکیوں کو نہیں۔ لڑکا اپنی پسند دکھائے تو ٹھیک، لڑکی دکھائے تو بری بات۔ مرد گزرے تو نہ دیکھو، عورت گزرے تو آنکھیں پھاڑ کے دیکھو۔ مجھے تو امراؤ جان کے گیت کی یہ سطریں کانوں میں گونج رہی ہیں۔

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو
جو اب کیو ہو داتا ایسا نہ کیجیو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔