بدن سے زیادہ ذہن بیمار

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 23 جولائی 2016

پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بدن سے زیادہ ان کے ذہن بیمار ہیں، ہمارے سارے عذابوں کی جڑ یہی بیمار ذہن ہیں۔ ان کے ذہن اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں زہریلے اور منفی خیالات سے آلودہ کر دیا جاتا ہے، یہ زہریلے خیالات و تصورات اس لیے ان کے ذہن میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ ایسے خیالات و تصورات کے متعلق وہ سوچ وبچار کرتے ہیں اس عمل کے ذریعے ان کا ذہن زہریلے خیالات سے آلودہ ہو جاتا ہے اور وہ ذہنی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ زہریلے خیالات ان کے بدن کے قاتل ثابت نہ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے باعث ان کے ذہن کا کچھ حصہ ہی متاثر ہو لیکن یہ زہریلے خیالات و تصورات ان کے ذہن کے اس حصے کو مکمل طور پر تباہ کر ڈالتے ہیں جو حصول مقصد کے ضمن میں تحریک مہیا کرتا ہے اور محرک ثابت ہوتا ہے، اس کے بعد ذہن ایک ایسے بحری جہاز کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اپنی منزل سے بھٹک چکا ہو اور مقدر کی زہریلی لہریں اسے کہیں کا نہیں چھوڑتیں اور پھر یہ جہاز آخرکار زندگی کی تلخ حقائق کی چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

زہریلے خیالات و تصورات کی بدترین شکل جس کا ہم شکار ہیں وہ نفرت ہے یہ سب سے مہلک خطرناک احساس و جذبہ ہے نفرت ایک ایسا زہریلا مادہ ہے جو ذہن کو فوری طور پر تباہ کر ڈالتا ہے نفرت کے باعث اچھے خاصے اور قابل تعریف افراد بھی شیطانی وسوسوں کا شکار ہوکر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غیر انسانی اور پرتشدد طریقے جیسے قتل و غارت، فساد، جھگڑا، تباہی و بربادی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں یا پھر وہ خفیہ منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے متشدد رویے کا اظہار کرتے ہیں اس کے علاوہ یہ لوگ جذباتی تشدد بھی اختیار کرتے ہیں ۔

جس کے تحت دوسروں کی انا، عزت نفس ، عقیدہ ، جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں وہ جو لوگ معاشرے میں انتشار اور فساد پھیلاتے ہیں ان سب کے تحت الشعور میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ایسے لوگ سماج کو آہستہ آہستہ خوفزدہ کرتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ یرغمال بھی بناتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سماجی ارتقاء کا عمل آگے جانے کے بجائے پیچھے کی سمت جانا شروع ہوجاتا ہے یہیں سے ہی ان حضرات کی نظر میں ان کی کامیابی کا آغاز ہوجاتا ہے بظاہر تو یہ کامیابی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشدد، دھمکی، دھونس، زبردستی کے ذریعے کامیابی اور فتح حاصل ہی نہیں کی جاسکتی ۔ محسوس ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ کامیابی اور فتح حاصل کررہے ہیں لیکن ان کی یہ فتح و کامیابی آگے چل کر عارضی اور کھوکھلی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے اندر ایسے دشمن پیدا کر لیتے ہیں جو مناسب موقع ملنے پر ان ہی پروار کر دیتے ہیں اور پھر اس دوران جنہوں نے متشدد رویہ اور طرز عمل اختیارکیا ہوتا ہے۔

مسلسل اس خو ف میں مبتلا رہتے ہیں کہ آخرکار کسی نہ کسی دن انھیں بھی اسی قسم کے رویے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ سچ ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا اشخاص سماج کے لیے عذاب ہوتے ہیں لیکن دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ ایسے اشخا ص کو بھی اپنے آپ عذاب میں مبتلا ہونے کا احساس جلد یا بدیر ہوہی جاتا ہے دنیا میں کوئی بھی بیماری چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی اس کا علاج ممکن ہے ۔ جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ ’’کوئی ملک جن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے ، اس سے اس ملک کے سیاسی ارتقاء کا اندازہ ہوتا ہے اس ملک کی ناکامی اکثر اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آپ سے درست سوالات نہیں کیے تھے ‘‘ بات بالکل سچ کہی ہوئی ہے۔

آئیں ! ہم اپنے سماج کو اور ان بیمار ذہنوں کو عذاب سے نجات دلانے کے لیے اپنے آپ سے درست سوالات کرنے کا آغازکر دیں بحث و مباحثے شروع کردیں ذہنوں اور دلوں کی بند کھڑکیاں اور دروازے کھول دیں تاکہ تازہ خیالات اور نظریات ہمارے اندر آسکیں اور ہمارے سماج میں موجود ہ گھٹن اور حبس کا خاتمہ ہوسکے ۔ تمام عظیم مذہبی رہنماؤں کا ہدف یہ نہیں رہا کہ خدا کو باہر سے انسان کے اندر لایا جائے بلکہ ہر فرد کی مدد کر کے اس کے اندر پہلے سے موجود خدائی صفات کو باہر لایا جائے۔

ٹالسٹائی نے کہا تھا خدائی سلطنت کا دائرہ آپ کے اندر ہے جب کہ پندرہویں صدی کے ہندوستانی صوفی کبیرکہہ چکے ہیں ’’ دو آنکھوں کے بیچ کے مالک ، خداکا پیغام بر۔ خدا تمہارے اپنے بدن کے اندر رہتا ہے اس کو دیکھنے کے لیے باہرکی آنکھیں کیا کھولنا ۔‘‘ ٹولین یونیورسٹی کے ماہر نفسیات لوہ سنگ سائی نے 1963 میں ایک دلچسپ مظاہرہ کیا تھا کہ چوہے کھانے والی بلی اور ایک گندے نالی کے چوہے کو پر امن طور پر ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کی تربیت دی جاسکتی ہے یہ پر اثر سماجی آمیزش کا طریقہ کار تھا۔ شروع میں شیشے کی دیوار کے ذریعے دونوں کو علیحدہ رکھا گیا جہاں دونوں جانوروں نے سیکھا کہ انھیں خوراک کی ایک مشترک پلیٹ میں خوراک پہنچانے والے آلے کو چلانے کے لیے یکے بعد دیگرے متوازی لیوروں کو دبانا پڑے گا ۔

سات ہزار تربیتی نشستوں کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ شیشے کی درمیانی رکاوٹ کو ہٹا دیا گیا اور چوہا بلی کا ترنوالہ نہ بنا اور دونوں نے ایک ساتھ خوراک کھائی، سائی نتیجہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے سائنس کی تاریخ میں ہم نے پہلے بار نہایت اہم تجربات کے ذریعے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ بلیاں اور چوہے (نام نہاد فطری دشمن ) تعاون کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اس طر ح کی دریافت نفسیات میں اس روایتی عقیدے کو سمندر برد کردیتی ہے کہ حیوانی فطرت میں ایک ناقابل تنسیخ جھگڑالو جبلت موجود ہے جو لڑائی یا جنگوں کو ناگزیر بنا دیتی ہے ۔

دنیا کے تمام مذاہب و روحانی عقائد کا پیغام یہ رہا ہے کہ زندگی کا احترام کرو قتل مت کرو۔ میکس ویبر یہ رائے قائم کرتا ہے قتل، تشدد ،نفرت کرنے کے سیاسی احکام کبھی بھی روحانی عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے ۔ بدھ مت کی پہلی شرط ہے کہ کسی کی جان مت لو یہودیوں کی قدیم ترین تعلیمات کے مطابق ’’جو کوئی بھی ایک شخص کی زندگی بچاتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی حفاظت کی ہو جب کہ وہ شخص جو کسی ایک فرد کی زندگی کو نیست و نابود کرے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے پوری دنیا کو تباہ کیا ہو۔ اسلام کے مطابق جو شخص ایک انسان کو قتل کرتاہے تو یہ پوری انسانیت کا قتل سمجھا جائے گا اور جو شخص ایک زندگی بچاتا ہے وہ پوری انسانی نسل کو بچاتا ہے ۔  افلاطون کہتا ہے کسی شخص پر اس سے بڑی اور کوئی مصیبت نازل نہیں ہوسکتی کہ وہ عقل وخرد کی مخالفت کرنے لگے ۔

تشدد ، تشدد کو جنم دیتا ہے اور آخرکار تشدد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے سماج میں موجود نفرت کے سود اگر ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں، عقیدیوں کے بڑے روپ ہوا کرتے ہیں ضروری نہیں کہ پکا نمازی اور روزہ دار خدا کے نزدیک ہی ہو پوری دنیا میں نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پرانے نظام کو شکست ہوچکی ہے، نیا سماجی نظام اور محبت و اخوت و اتحاد کی سوچ نے زمین پکڑ لی ہے اور اس کی جڑیں دنیا کے تمام سماجوں میں پھیل گئی ہیں لہٰذا اب پرانی گلی سڑی نفرت کی سوچ کی واپسی اور اس کی فتح کا کوئی بھی امکان نہیں ہے لہٰذا نفرت کے سوداگر اپنے آپ پر اور سماج پر رحم کھائیں اور اوہام و تعصب و نفرت کی زنجیروں سے خود کو آزاد کر دیں تاکہ سماج پر نئی سوچ محبت و اخوت و اتحاد کی حکمرانی قائم ہوسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔