ڈاکٹر ذاکرنائیک کے سرکی قیمت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 23 جولائی 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ، مختلف مذاہب کی کتابوں اور کئی زبانوں پر عبور رکھنے والے ذاکر نائیک نے اسلام کی تبلیغ کے لیے روایتی طریقہ اختیار نہیں کیا وہ کوٹ ٹائی پینٹ پہنتے ہیں ان کے لیکچروں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔

بلا روک ٹوک بے باک سوالات کرتے ہیں خود بھی امن اور قانون پسند شخص ہیں وہ مکالمہ، مباحثے اور مناظرے کے اصول پر کاربند ہیں کبھی تشدد و انتہا پسندی کی بات نہیں کرتے ہیں۔ انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب کے سب سے بڑے قومی اعزاز’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود ان کی کردار کشی کی مذمومانہ مہم شروع کردی گئی ہے۔

گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے ایک ریسٹورنٹ میں ہونے والے حملے جس میں بہت سے غیر ملکیوں سمیت 28 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اس کا الزام بنگلہ دیش کے وزیر صنعت نے بلاواسطہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملہ کرنے والے ڈاکٹر نائیک سے متاثر تھے اس حملے میں خود حسینہ واجد کی کابینہ کے ایک وزیرکا بھتیجا بھی ملوث تھا۔ پہلے اس حملے کو داعش کی کارروائی بتایا گیا تھا پھر اس کا الزام مقامی تنظیموں پرعائد کیا گیا اس کے بعد حملہ آوروں کا تعلق شدت پسند تنظیم جماعت المجاہدین سے بتایا گیا۔

اس واقعے کو جواز بناکر عوامی لیگ کی حکومت نے ملک میں ڈاکٹر نائیک کے ٹی وی چینل ’’پیس ٹی وی‘‘ کی نشریات پر پابندی عائد کردی اور نماز جمعہ کے خطابات کی نگرانی بھی شروع کردی گئی اور اسکولوں اور کالجوں سے ایسے طلبا کی فہرست طلب کرلی گئیں جو اپنے تعلیمی اداروں سے غیر حاضر تھے۔ ڈاکٹر ذاکر نے بنگلہ دیشی حکومت کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت ایک جانب تو اسلام پسندوں کو کچلنے اور اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو خاندانی انتقام کے جذبے سے ماورائے قانون نام نہاد جنگی جرائم میں سولی پر چڑھانے کے راستے پر گامزن ہے دوسری جانب نام نہاد سیکولر اور لبرل ازم کے ایجنڈے پر کاربند ہے جس کے نتیجے میں امیر کبیر، متمول، لبرل گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف منفی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ریسٹورنٹ کے حالیہ حملے میں ملوث نوجوانوں جن کی عمریں 20 سے 22 سال تک ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متمول حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ایک وزیر کا بھتیجا بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جن کا تعلق سیکولر جمہوری ملک بھارت سے ہے اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اسلامی چینل چلانے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ ان کا کسی بھی دہشت گرد، یا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ گزشتہ کئی دنوں سے بنگلہ دیشی میڈیا کی رپورٹ اور الزامات پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتے تھے ۔

لیکن بھارتی حکومت نے انھیں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی۔ انھیں ممبئی کے چار فائیو اسٹار ہوٹلوں نے پریس کانفرنس کے لیے جگہ دینے سے معذرت کرلی، بتایا جاتا ہے کہ ممبئی پولیس نے تمام ہوٹلوں کو انھیں پریس کانفرنس کے لیے جگہ دینے سے منع کیا ہے۔ تاہم ان کے منیجر پریس کانفرنس کے لیے جگہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

تاہم ڈاکٹر صاحب نے مدینہ منورہ سے اسکائپ کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے اوپر دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اسلامی چینل کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ ان کا کسی بھی دہشت گرد یا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اسلام میں کسی بے گناہ کی جان لینا حرام ہے اور قرآن واحد کتاب ہے جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے بھارتی میڈیا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے وہ چیلنج کرتے ہیں کہ ان کی کوئی بھی تقریر ایسی نہیں ہے جس میں انتہا پسندی کو ہوا دی گئی ہو۔

ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے خاص طور پر مودی اور حسینہ واجد حکومت کا مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے ساتھ ظالمانہ اور ناانصافی پر مبنی رویہ تمام دنیا پر عیاں ہے، بھارت میں ویشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا اور بھارتی جنتا پارٹی کے دہشت گرد ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں کی آبادیوں میں قتل عام اور وحشیانہ جرائم کرتے رہے ہیں اور دیگر غیر مسلموں اور غیر ملکیوں کو بھی انفرادی و اجتماعی طور پر کشت و خون میں نہلاتے رہے ہیں۔ مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے انتہا پسند تنظیموں بی جے پی اور بجرنگ دل کی جانب سے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی تحریک شروع ہوئی ہے پوری پوری آبادیوں کو ظلم و جبر، لالچ اور دھوکا دہی سے ہندو بناکر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک اپنے جمہوری اور سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اس سلسلے میں دونوں ممالک کے دعوؤں اور عمل میں یکسانیت و ہم آہنگی پائی جاتی ہے، خاص طور پر حسینہ واجد حکومت مکمل طور پر بھارتی حکومت کی ایما اور پالیسیوں پر چل کر اس کے مفادات کو مقدم رکھتی ہے، اسی لیے وہ پاکستان اور پاکستان سے مخلص اور اسلامی سوچ رکھنے والے افراد کو غیظ وغضب کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی نہیں چوکتی اور اس کے لیے اصول وقانون اور عوامی جذبات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ہے۔

وہ ایک جانب اپنے ہی شہریوں کو ماورائے قانون پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے تو دوسری جانب اس کی حکومت میں مذہبی اقلیتوں اورغیر ملکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مذہبی اور سیکولر شخصیات پر تشدد کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ سب ایک شخصیت کے انگوٹھے تلے نظر آتے ہیں۔ مرضی کے قوانین اور منشا کے فیصلے عوام میں منفی ردعمل کا باعث بن رہے ہیں جس کے نتیجہ میں مذہبی سوچ کے حامل یا مدارس کے طلبا نہیں بلکہ متمول حال لبرل خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی جانب مائل ہو رہے ہیں جو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں، داعش نے تین بنگلہ دیشی نوجوانوں کی ویڈیو جاری کی ہے جو کہہ رہے ہیں ایسے مزید حملے کریں گے۔

اس کے تدارک کے لیے حکومت نے یہ تدبیر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے طلبا کی فہرست ترتیب دیں جو غیر حاضر ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سماجی رابطہ کی ایسی ویب سائٹس کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ مساجد میں جمعہ کے خطابات کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی مغربی ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے اس صورتحال میں بنگلہ دیش میں امریکی مداخلت اور سیاسی بحران میں اضافے کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں، دلیل کی بنیاد پر شائستگی سے بات کرنے والے امن پسند اور قانون کا احترام کرنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بنگلہ دیش اور خود ان کا ملک الزامات اور تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے ان کو اپنا موقف بیان کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے جن کے ہزاروں لیکچرز اور زندگی کے تمام پہلو کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔ دراصل ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف ان کی کردارکشی کی مذمومانہ مہم محض ان کی اسلامی خدمات کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔