بابل کی دعائیں لیتی جا…

شیریں حیدر  پير 25 جولائی 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آنکھوں میں نا موجود ریت کے ذرات چبھ رہے ہیں

کوئی تیز سے بھالے ہیں جو دل میں کھب رہے ہیں!

رات بستر پر بچھے بے چینی کے کانٹوں نے سونے نہ دیا

مرد ہونے کے زعم نے چاہ کر بھی مجھے رونے نہ دیا…

ابھی میں اپنے کمرے سے حسب معمول غسل لینے کے بعد باہر نکلوں گا، دور سے مجھے تم کچن میں مصروف نظر آؤ گی، میرا ناشتہ بنا کر لے آؤ گی، گھر کے سب لوگ اپنے اپنے وقت اور باری پر ناشتہ کرتے ہیں، تمہیں ان کی اتنی پروا نہیں ہوتی مگر جب میرے ناشتے کا وقت ہوتا ہے تو تم وہاں ضرور موجود ہوتی ہو، تمہیں علم ہے کہ تمہیں اپنے ارد گرد دیکھنا، میرے دل کی اولین خوشی ہے… آج سے نہیں،اس وقت سے جب تم اس دنیا میں آئیں۔ میں نے تمہارے بچپن سے لے کر آج تک کا ہر لمحہ تمہارے چہرے کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہوئے گزارا ہے۔

سنا تھا کہ جب اللہ تعالی ہم سے خوش ہوتا ہے تو بارش بھیجتا ہے… اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے تو ہمارے گھروں میں مہمان بھیجتا ہے اور بہت خوش ہوتا ہے تو ہمارے ہاں بیٹیاں بھیجتا ہے ۔ میں سوچتا کہ کیا اللہ تعالی مجھ سے خوش نہیں ہے؟ میں نے اللہ تعالی سے اپنے لیے بیٹی مانگی اور اس رب کائنات نے میرے گھر میں تم جیسا خوبصورت تحفہ بھیجا، میں نے اپنے دل کی اس خوشی کو پیار سے تھاما اورتمہاری خوشبو کو اپنے اندر اتارلیا۔

باہر کا منظر وہ نہ تھا جو ہر روز ہوتا تھا، مجھے یاد آ گیا کہ اب تم مجھے پہلے کی طرح اس باورچی خانے میں نظر نہ آؤ گی کہ کل ہی تم پیلا جوڑا پہنا تھا اور اب تم اس گھر میں صرف آج کے دن کی مہمان ہو، آج شام کو تم اس گھر سے رخصت ہو کر ایک نئے گھر میں چلی جاؤ گی، جو اب تمہارا گھر بھی ہو جائے گا۔ اللہ تمہیں شاد و آباد رکھے، خوش اور سلامت رکھے، اس گھر میں بھی تمہیں اسی طرح کا پیار اور رشتے ملیں… میںتمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں، یہ ان سب سے بہتر تحفہ ہو گا جو میں نے اس کے علاوہ تمہیں دیے ہیں۔

یہ ایک خط ہے جس میں تمہارے لیے آیندہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ اصول ہیں، انھیں پڑھنا ، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا۔ ’’ میں ہمیشہ تمہارا باپ رہوں گا اور اسی طرح اس گھر کے باقی لوگ تمہارے باقی رشتے… مگر آج شام تم جس گھر میں جاؤ گی وہاں اللہ تعالی نے تمہارے لیے ان سب پیارے پیارے رشتوں کا متبادل رکھا ہے، انھیں دل سے اپنا سمجھنا، انھیں وہی احترام دینا جو اپنے دل سے تم ہمیں دیتی ہو، ان کی رائے کو مقدم جاننا اور ان کی ڈانٹ کو اسی طرح برداشت کرنا جیسے تم اپنے ماں باپ کی ڈانٹ کو برداشت کرتی ہو۔

اس خاندان سے اگر تمہیں کوئی ایسی بات کہے جس سے تمہارا دل دکھے تو اس بات کو یا تو برداشت کر لینا یا اپنے خاوند سے کہنا، وہ مناسب سمجھے گا تواپنے والدین سے بات کرے گا، کیونکہ اس خاندان کے لوگوں کے بارے میں صرف وہی جانتے ہیں کہ بات کرنے والے کی نیت کیا ہے اور اس کی فطرت کیا۔ ہم سے کہو گی تو ہمارا دل برا ہو گا، جانے ہم تمہارے نئے خاندان کے بارے میں دل میں گرہ باندھ بیٹھیں اور ایسے لوگوں سے رابطہ منقطع کر دیں جو تمہارا دل دکھانے کا باعث بنے۔خود کو کسی معاملے میں تنہا نہ سمجھنا، جو لوگ اتنے مان سے تمہیں اپنی بیٹی بنا کر لے کر جا رہے ہیں، وہ تمہیں کسی بھی مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

ان کے لیے تم اہم ہو کیونکہ تم ان کے گھر کا فرد ہو گی… کوئی کچھ کہے گا تو انھیں برا لگے گا اور وہ خود اس معاملے کوسنبھال لیں گے۔اس خاندان کے سب بزرگوں کا احترام کرنا، ان کی رائے کو اہم سمجھنا اور انھیں کبھی بوجھ نہ سمجھنا، وہ تمہارے کسی اقدام پر تنقید کریں تو منہ بنا کر سر کو نہ جھٹکنا کہ ان کے اور تمہارے بیچ عمر میں بہت سے سالوں کا فاصلہ ہے، ان کا تجربہ تمہاری عمر سے کہیں زیادہ ہے، ممکن ہے تمہیں لگے کہ وہ بہت فرسودہ رائے رکھتے ہیں… مگر یہ بات ان سے کہنا نہیں۔ سسرال میں بہت سے لوگوں کی سوچ اور طرز کو بدلنا ممکن نہیں ہوتا، خود کو ان کے سانچے میں ڈھال لو گی تو تمہیں بہت سہولت ہو جائے گی۔

شادی کا ابتدائی وقت ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا ہوتا ہے، اس وقت تمہاری سسرال والے بھی تمہیںمہلت دیں گے، اپنے گھر کے طور طریقوں کو اپنانے کا وقت دیں گے… تم ان کو سمجھو، جانو اور ان کے مطابق ڈھل جانا۔ کسی کو دنیا میں مکمل جہاں نہیں ملتا، کوئی میکہ اور سسرال ایک جیسا نہیں ہوتا، ہر گھر کے ماحول میں فرق ہوتا ہے۔ نہ ان کے ماحول کو اپنے میکے کے مطابق ڈھالنے کو کوشش کرنا نہ ہی بات بے بات اس کا موازنہ کرنا، میری امی تو فلاں چیز ایسے پکاتی تھیں… میرے ابا تو ہر روز دفتر سے واپسی پر میرے لیے فلاں چیز لے کر آتے تھے… ہمارے ہاں تو کوئی بن بلائے نہیں آن ٹپکتا تھا… ایسی کی گئی باتیں تمہیں تو عام سی باتیں لگیں گی مگر انھیں لگے گا کہ تم ہر معاملے میں ان کا موازنہ اپنے میکے سے کر رہی ہوتو ہو اور یہ کہ شاید تمہیں ان کے طور طریقے پسند نہیں۔

خود کو کسی نئے ماحول میں ڈھالنے کے لیے خود پر بڑا جبر اور صبر کرنا پڑتا ہے، دل سے اس گھر کو اپنا گھر سمجھو گی تو جلد ہی انھیں بھی علم ہو جائے گا کہ تم نے انھیں خلوص سے اپنایا ہے، پھر وہ تمہاری رائے کو مقدم سمجھیں گے اور تمہاری خواہش کا احترام کریں گے۔ اگر کچھ کھانے کو من چاہے اور وہ گھر پر نہ ہو تو من کو مار لینا مگر میکے میں پیغام نہ بھیجنا کہ فلاں چیزکھانے کو دل چاہ رہا تھا، اس چھوٹی سی بات سے وہ کتنی سبکی محسوس کریں گے، ان کی عزت میں ہی تمہاری بھی عزت ہے، انھیں کسی بات پر شرمندہ نہ کرنا نہ ہی کچھ ایسا کہنا کہ عمر بھر انھیں اس بات کی پھانس چبھتی رہے۔

اپنے شوہر کی دل سے عزت کرنا، تمہارا اس کے ساتھ جوڑا آسمانوں پر بنا تھا، اللہ نے تمہیں اس کا اور اسے تمہارا لباس بنایا ہے ۔

… اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے تمہارے لیے تم میں سے ہی بیویاں بنائی ہیں تو کہ تمہیں ان سے سکون حاصل ہو پھر میاں بیوی کو آپس میں ایک دوسرے کے لیے لگاؤاور خوشگوار برتاؤ عطا کر دیا بے شک غور کرنے والوں کے لیے اس میںبہت سی نشانیاں ہیں۔ ( سورۃ الروم۔ آیت نمبر، 21)

… سورۃ البقرہ کی آیت نمبر187 میں اللہ تعالی نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔

اس آیت کے تناظر میں جانو کہ جب انھیں ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے تو اس کے کیا معانی اور مفہوم ہیں، جانتی ہوکہ لباس کے کیا مقاصد ہوتے ہیں… ڈھانپنا، پردہ، سکون و آرام، زینت، حفاظت، قربت… لباس ہمارے جسم کو ڈھانپتا اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے، ہمیں پردہ مہیا کرتا ہے، آرام دہ لباس پہن کرہم سکون اور آرام محسوس کرتے ہیں، لباس سے ہماری شخصیت کو خوبصورتی اور پہچان عطا ہوتی ہے، سردی اور گرمی کے موسموں میںلباس ہمیں تحفظ عطا کرتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ لباس سے بڑھ کر ہم سے قریب اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔

پس جان لو کہ تم نے کس طرح اپنے شوہر کا لباس بننا ہو گا اور وہ بھی جان لے کہ وہ کس طرح تمہیں حفاظت، قربت، زینت، سکون اور پردہ دے۔ اس کی کمائی پر اکتفا کرنا، اسے اپنے مطالبات سے زچ مت کرنااور نہ ہی اس سے ایسے مطالبات کرنا کہ جنھیں پورا کرنا اس کے اختیار میں نہ ہو، تمہیں خوش رکھنے کی کوشش میں وہ کوئی ایسی راہ اختیار کرے جو نہ اس کے لیے درست ہو اور اس کے نتیجے میں اس کی کمائی میں حرام کی آمیزش ہو۔ جو کچھ میسر ہو اس میں سے بھی صدقات و خیرات دیتی رہنا کہ اس سے اللہ رزق میں برکت عطا کرتا ہے، بلاؤں کو ٹالتا ہے اور دل کو سکون عطا کرتا ہے۔

خود بھی اچھائی کا راستہ اختیار کرو اور اسے بھی ایسا ہی کہو،ایک دوسرے کو سمجھو اور اسی طرح قبول کرو جیسے کہ تم ہو، کسی کی شخصیت کو تسلیم تو کیا جا سکتا ہے تبدیل نہیں، ہاں مگر ہمارے اچھے اعمال دوسروں کو ہماری تقلید پر خود ہی مجبور کر دیتے ہیں!! میکے کی ہر اچھی عادت کو اسی طرح قائم رکھنا، بجائے کہنے کے اپنے عمل سے انھیںدکھانا تو نہیں علم ہو گا کہ تمہاری تربیت اچھے انداز سے ہوئی ہے۔ اپنے گھر کے کام کر نے میں عار نہ سمجھنا۔ ماں باپ کے گھر کی یاد تو ہر لڑکی کو عمر بھر آتی ہے، اب اپنے گھر میں اپنا دل لگانا ، ہمارے ہاں تم جب بھی آؤ گی چند دن کی مہمان ہو گی، اللہ تمہیں، تمہارے شوہر اور اس کے خاندان کو سلامت رکھے اور تمہارے نئے گھر کو آباد رکھے… ‘‘

ہر بیٹی اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو دل میں امنگیں ، خواہشات اور ارمان ہوتے ہیں،نئی شروع ہونے والے زندگی کے حوالے سے خوف بھی۔ ایک آنگن سے توڑ کر دوسرے آنگن میں لگایا جانے والا پودا نئی جگہ جڑ پکڑنے میں وقت لگاتا ہے،اس وقت میں اس کی آبیاری اگر سسرال والے اچھے طریقے سے کریں تو وہ پودا وہاں کی مٹی میں رچ جاتا ہے… دعوے کر کے دوسروں کی بیٹیوں کو بیاہ کر لانے والے، چاہے ان بیٹیوں کو اپنی بیٹیوں جیسا نہ سمجھیں، مگر ان بیٹیوں کو تحفظ اور اعتماد دیں اور ان کی شخصیت کی نفی نہ کریں تو وہ اچھی طرح پنپتی اور ان کے طور طریقوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اچھے اعمال کی توفیق دے، آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔