دل دہلا دینے والے مناظر بر مبنی ٹاپ 10 ڈرائونی فلمیں

محمد اختر  اتوار 2 دسمبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

فلموں کے شائقین الگ الگ ذوق کے مالک ہوتے ہیں۔

بعض رومانوی فلمیں دیکھتے ہیں تو بعض ایکشن کو پسند کرتے ہیں۔ اس طرح شائقین فلم کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی  ہے جو ڈرائونی فلموں کو پسند کرتی ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈرائونی ترین فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہے۔ڈرائونی فلمیں سینما گھر میں دیکھنے کا مزا زیادہ آتا ہے۔IFL یعنی’’انٹرنیٹ فلم کولیکشن‘‘ نام کا ایک ادارہ وقفے وقفے سے فلموں کی درجہ بندی کرتا ہے۔

اسی ادارے نے 10 ڈرائونی ترین فلموں کی درجہ بندی کی ہے تاکہ ڈرائونی فلموں دیکھنے والے شائقین اگر ان کے بارے میں نہیں جانتے تو وہ ان کی فہرست سے فائدہ اٹھائیں۔ فہرست ترتیب دیتے ہوئے ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فہرست صرف مذکورہ ادارے کے سروے پر مبنی ہے اور حتمی نہیں۔ دوئم اس میں صرف وہ فلمیں شامل ہیں جو 1990ء کے بعد ریلیز ہوئیں۔آئیے آپ کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ ڈرائونی فلمیں کون سی ہیں:

Demon Knight

پہلے نمبر پر موجود اس فلم کے نمایاں کرداروں میں بلی زین اور ولیم سیڈلر شامل ہیں۔بلی زین ایک عفریت ہے جس کا نام ’’کولیکٹر‘‘ ہے۔ یہ عفریب انسانی روپ میں ظاہر ہوتا ہے اور خوفناک عفریتوں کو بلانے کی طاقت رکھتا ہے۔کوئی درجن بھر لوگ ایک چرچ میں اکٹھا ہوتے ہیں جہاں بلی زین بھی آجاتا ہے۔ولیم سیڈلر جو کہ ہیرو ہے،مقدس خون کے ذریعے بلی زین کو چرچ کی عمارت سے باہر بھگادیتا ہے جس کے بعد بلی زین یعنی کولیکٹر اپنے گندے خون کے چھڑکائو کے ذریعے عفریتوں کو بلاتا ہے۔تاہم ہیرو ولیم سیڈلر چرچ کے تمام دروازوں اور کھڑکیوں میں مقدس خون کے چھڑکائو کے ذریعے ان عفریتوں کو اندر داخل ہونے سے روک دیتا ہے۔

عفریتوں اور انسانوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔فلم خوفناک مناظر سے بھرپور ہے جس کا اختتام بدی پر نیکی کی فتح کی عکاسی کرتا ہے۔گلبرٹ ایڈلر کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کا اسکرین پلے سائرس وورس اور مارک بشپ نے لکھا تھا۔

Dawn of the Dead

یہ 1978میں بننے والی اسی نام کی فلم کا ری میک ہے جو کہ 2004 میں ریلیز کی گئی۔پہلی فلم زومبی فلموں کے مشہور ہدایت کار جارج رومیرو کا شاہکار تھی جبکہ ری میک کو زیک سنائیڈر نے ڈائریکٹ کیا۔اس کے نمایاں اداکاروں میں سارا پولی ، ونگ رامز ، جیک ویبر اور دیگر شامل ہیں جبکہ مہمان اداکار کے طور پر پہلی اصلی فلم کے کین فوری ، اسکاٹ ری انگر اور ٹام ساوینی نے بھی اس میں کام کیا ہے۔

فلم کی کہانی کے مطابق پوری دنیا میں ایک ایسا وائرس پھیل چکا ہے جس نے انسانوں کو زومبی یا زندہ لاشوں میں تبدیل کردیا ہے۔یہ زومبی زندہ لاشیں نارمل انسانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور ان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔نارمل انسانوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے اور وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

انسانوں کا ہی ایک گروہ امریکا کے شہر ملواکی کے علاقے میں ان زومبی عفریتوں کے نرغے میں گھرا ہوا اپنی جانیں بچانے کے لیے کوشاں ہے جن میں مرکزی کردار ایک نرس سارا پولی بھی شامل ہے جس کی کمسن بیٹی اور خاوند پہلے ہی زومبی انسانوں کا شکار ہوکر ان میں شامل ہوچکے ہیں۔مرکزی کرداروں کے مختلف گروہ شہر کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔فلم خوفناک مناظر سے بھرپور ہے اور باکس آفس پر زبردست ہٹ رہی ہے۔ڈرائونی زومبی فلموں کے شائقین کے لیے یہ ایک شاندار فلم ہے۔

Primal

دوستوں کا ایک گروپ زیرزمین غاروں میں بنائی گئی تصاویر کو دیکھنے کے لیے جاتا ہے تاہم جلد ہی ایک پراسرار بیماری انھیں گھیرنے لگتی ہے جس کے نتیجے میں وہ انسانی گوشت اور خون پر پلنے والے بھیانک عفریتوں میں بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔اس طرح جان بچانے کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون اس پراسرار بیماری کا مریض بن چکا ہے اور کون صحت مند ہے اور یوں ہرکوئی ایک دوسرے سے خوف کھانے لگتا ہے۔

ان دوستوں میں ایک ڈاکٹر بھی ہے جس کی گرل فرینڈ عفریت بن چکی ہے۔ڈاکٹر متاثرہ ا فراد کے خون سے ہی بیماری کا علاج کرنے کے لیے کوشاں ہے۔فلم کے ڈائریکٹر جوش ریڈ جبکہ کہانی نائجل کرسٹنسن کی ہے۔ نمایاں اداکاروں میں زو ٹک ویل اسمتھ ، کریوبوئلین اور لنڈسے فیرس ہیں۔

اس فلم کے بارے میں نقاد رابرٹ ہیرل کا کہنا ہے کہ تھرلر ڈرائونی فلموں کے شائقین کو یہ مووی مایوس نہیں کرے گی۔فلم کی ڈائریکشن اور ویژول ایفیکٹس بہت شاندار ہیںاور کہانی بہت تیزرفتار ہے۔مناظر کمزور دل حضرات کودہلادینے والے ہیں۔

Sweeney Todd: The Demon Barber of Fleet Street

اس ہولناک اور ڈرائونی تھرلرفلم کا مرکزی کردار جونی ڈیپ نے ادا کیا ہے جو کہ ایک حجام کا ہے۔فلم کی کہانی انیسویں صدی میں سیٹ کی گئی ہے جہاں سوینی ٹوڈ کے نام سے یہ حجام لندن کے علاقے فلیٹ اسٹریٹ میں اپنی دکان کھولتا ہے جبکہ اس کا اصل نام بنجمن بارکر ہے۔پندرہ سال قبل سوینی ٹوڈ کی خوبصورت بیوی میری کو ریپ کیا گیا تھا جس پر میری نے خودکشی کرلی تھی اور جس شخص نے یہ گھنائونا کام کیاتھا وہ علاقے کا جج ٹرنپ تھا۔ٹرنپ نے الٹا سوینی ٹوڈ کو ہی قتل کے الزام میں سزا سنادی تھی۔اس کے بعد یہ جج سوینی ٹوڈ کی بیٹی پر بھی نظریں رکھ لیتا ہے۔سوینی ٹوڈ قسم کھاتا ہے کہ وہ ٹرنپ کو نہیں چھوڑے گا۔

سوینی ٹوڈ تمام امیرلوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ امیر لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں اس لیے انھیں قتل کرنا جائز ہے۔مسز لووٹ نامی ایک عورت بھی اس سے آملتی ہے جو کہ علاقے میں کوفتوں کا ہوٹل چلاتی ہے۔اس کے بعد سوینی ٹوڈ اپنی دکان پر آنے والے امیرلوگوں کو شیو کے دوران قتل کرنے لگتا ہے اوراس کے بعد ان کے جسموں کے ٹکڑے کرکے مسزلووٹ کے ہوٹل پر کوفتے بناکر بیچے جاتے ہیں۔سوینی بعدازاں شیو کرتے ہوئے ٹرنپ کو بتادیتا ہے کہ وہ کون ہے اور ٹرنپ نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا۔ ساتھ ہی وہ اسی استرے سے ٹرنپ کا گلہ کاٹ کر اپنے انتقام کی قسم پوری کرلیتا ہے۔

اختتامی مناظر میں کئی ٹوئسٹ ہیں جس کے مطابق راز کھلنے کے خوف سے سوینی ٹوڈ ایک دیوانی بھکارن کو بھی قتل کردیتا ہے لیکن وہ اس کی بیوی میری نکلتی ہے جس نے پندرہ سال قبل ریپ کیے جانے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔سوینی ٹوڈ خود بھی مارا جاتا ہے۔ فلم کی کہانی 1846-47 میں لکھے گئے ایک شارٹ ناول ’’سوینی ٹوڈ‘‘ سے لی گئی جسے جیمز میلکم رائمر اور تھامس پیکٹ پریسٹ نے لکھا تھا۔

Sleepy Hollow

سرکٹے انسان کی دیومالا تقریباً ہر خطے میں پائی جاتی ہے۔’’سلیپی ہالو‘‘ بھی ایک سرکٹے انسان کے بارے میں ہے جو اپنی قبر سے نکل کر انسانوں کا شکار کرتا ہے۔اس فلم کی کہانی واشنگٹن ارونگ کی شارٹ اسٹوری ’’دی لیجنڈ آف سلیپی ہالو‘‘ سے لی گئی ہے جس میں ہیرو کا کردار جونی ڈیپ نے کیا ہے۔’’سلیپی ہالو‘‘ نام کے ایک گائوں میں یکے بعد دیگرے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے جبکہ ان کے سر غائب ہوتے ہیں۔نیویارک سے ایک پولیس کانسٹیبل اچابوڈ کرین (جونی ڈیپ) کو تحقیقات کے لیے بھیجا جاتا ہے جس پر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ قتل انسان نہیں بلکہ ایک سرکٹا گھڑسوار کرتا ہے جو رات کی تاریکی میں اپنی قبر سے نکلتا ہے اور انسانوں کو اپنا شکار بناتا ہے۔

پھر یہ سرکٹا انسان گائوں کے گھروں پر حملے کرنے لگتا اور لوگوں کے سرکاٹ کر لے جانے لگتا ہے۔ اس عفریت کو ختم کرنے کے لیے ہیرو حرکت میں آتا ہے اوراس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے۔’’سلیپی ہالو‘‘ باکس آفس پرسپرہٹ رہی ہے اور کئی شعبوں میں اس نے آسکر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

28 Days Later…..

یہ 2002ء میں ریلیز کی جانے والی ایک برطانوی تھرلر ہارر فلم ہے جس کے ہدایت کار ڈینی بوئل ہیں جو ’’سلم ڈوگ ملینیر‘‘ جیسی آسکرایوارڈ یافتہ فلم بھی بناچکے ہیں۔اسکرین پلے ایلکس گارلینڈ کا ہے جبکہ نمایاں اداکاروں میں سیلیان مرفی ، نومی ہیرس ، برینڈن گلیسن ، میگان برنز اور کرسٹوفر ایکلسٹن ہیں۔کہانی کے مطابق جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنیوالے چند افراد ایک تحقیقی مرکز پر ہلہ بولتے ہیں اور وہاں پرموجود بندروں کے پنجرے کھول کر انھیں آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بندر ایک خطرناک وائرس ’’ریج‘‘ میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے ایک بندر ایک خاتون کارکن کو کاٹ لیتا ہے اوراس میں وائرس منتقل ہوجاتا ہے اور اس کے ذریعے دیگر ساتھیوں میں بھی آجاتا ہے۔ اس کے اٹھائیس دن بعد کے مناظرمیں دکھایا جاتا ہے کہ وائرس پھیلنے کے نتیجے میں پورا لندن شہر زندہ لاشوں میں تبدیل ہوچکا ہے جو انسانی خون اور گوشت کی بھوکی ہیں۔شہر میں صرف چند ہی لوگ بچتے ہیں جو اپنی جان بچانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔پورا شہر تباہ ہوجاتا ہے۔ یہ فلم بھی زومبی سیریز کی بے شمار فلموں کی طرح ہولناک مناظر سے بھری ہوئی ہے۔

The Texas Chainsaw Massacre: The Beginning

یہ 1974 کی اسی نام کی فلم کا ری میک ہے جس کے ہدایت کار جوناتھن لائبزمین اور معاون پروڈیوسر کم ہینکل اور ٹوبی ہوپر ہیں۔فلم کی کہانی کے مطابق ایک خاتون ورکر مذبح خانے میں بچے کو جنم دیتے ہوئے انتقال کرجاتی ہے۔ مذبح خانے کا مالک نومولود بچے کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتا ہے جہاں سے ایک بھکارن خوراک تلاش کرتے ہوئے اسے دیکھ لیتی ہے اور اٹھاکر گھر لے جاتی ہے۔ وہ بچے کو اپنا بیٹا بنالیتی ہے اوراس کانام تھامس رکھتی ہے۔

تھامس جب بیس سال کا ہوتا ہے تو اسی مذبح خانے میں ملازم ہوجاتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔پھر وہ بدتمیزی کیے جانے پر ہتھوڑے سے اپنے مالک کو قتل کردیتا ہے اور وہاں سے ایک آرا لے کر فرار ہوجاتا ہے۔پھر وہ منہ بولے بھائی چارلی ہیوٹ کے ساتھ مل کر اس آرے سے بہت سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور پورا خاندان ان کا گوشت کھاتا ہے۔یہ فلم بہت زیادہ بھیانک ہونے کی وجہ سے پابندی کی زد میں بھی رہی ہے اور بچوں کے لیے سختی سے ممنوع سمجھی جاتی ہے۔

Hostel

یہ فلم انسانی اذیت پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔تین دوست یورپ کے غریب ملک سلواکیہ کی سیر کو جاتے ہیں جہاں پران کا واسطہ ایک ایسے اذیت کدے سے پڑتا ہے جہاں اذیت پسند سفاک لوگ بھاری رقم دے کر اپنی اذیت پسندی کی فطرت کو تسکین دیتے ہیں۔ہوسٹل کہلانے والے اس اذیت کدے میں وہ لوگوں کو سفاکی کے ساتھ تڑپا تڑپا کر قتل کرتے ہیں۔بعدازاں ان کے جسم کے ٹکڑوں کو بھٹیوں میں جلا کر غائب کردیا جاتا ہے۔

اس اذیت کدے میں شکار، جو زیادہ تر سیاح ہوتے ہیں، کو گھیرگھار کر لایا جاتا ہے اور پھر سفاک اذیت پسندوں کے حوالے کردیا جاتا ہے کہ وہ ان پر جس بھی طریقے سے چاہیں تشدد کریں۔تینوں دوست بھی اس اذیت کدے میں پھنس جاتے ہیں جن میں دو مارے جاتے ہیں اور ایک جان بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔اس کی نمایاں کاسٹ میں جے ہرنینڈز ، ڈیرک رچرڈ سن اور ایٹور گڈجانسن شامل ہیں۔

Wrong Turn5

میوٹنٹ آدمخوروں کے سلسلے کی یہ پانچویں فلم بھی ہٹ رہی ہے۔کہانی کے مطابق مغربی ورجینیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہالووین تہوار کے سلسلے میں ایک میلہ ہورہا ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کے لیے آرہے ہیں۔ ہالووین کے سلسلے میں انھوں نے ڈرائونے چہروں والے نقاب اوڑھ رکھے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اسی میلے میں ایک ایسا خاندان بھی شریک ہے جو آدمخور ہے۔یہ خاندان میلے میں شریک کچھ لوگوں کو گھیر کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتا ہے جہاں یہ ان کو اپنا شکار بناتا ہے۔فلم کے نمایاں اداکاروں میں ڈو بریڈلے ،کمیلا ویڈسن اور سائمن جنٹی ہیں جبکہ ڈائریکٹر ڈیکلان اوبرائن اور کہانی ڈیکلان اوبرائن کے ساتھ ایلن میکلاری کی ہے۔

Freddy vs. Jason

فریڈی ورسز جیسن 2003ء میں ریلیز ہوئی۔اس میں ’’اے نائٹ میئر آن ایلم اسٹریٹ‘‘ کے عفریت کردار فریڈی اور ’’جیسن‘‘ کے عفریت کردار’’جیسن وورہیس‘‘ کو مدمقابل دکھایا گیا ہے۔کہانی کے مطابق فریڈی اپنے مذموم مقاصد کے لیے جیسن کو زندہ کرتا ہے اور اس کے ذریعے شہر کے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا اور قتل وغارت کرتا ہے لیکن پھر جیسن ، فریڈی کے میدان میں مداخلت کرنے لگتا ہے جس پر دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتے ہیں اور ایک بھیانک مقابلہ شروع ہوجاتا ہے جو دل دہلادینے والا مناظر سے بھرپور ہوتا ہے۔فلم کی ڈائریکشن رونی یو نے دی ہے جس کے نمایاں اداکاروں میں کین کرزنگر ، جیسن رٹر ، کیلی رولینڈ ، لوچلن منرو اور گریم ریول شامل ہیں۔فلم کی تیاری پر تین کروڑ ڈالر لاگت آئی اور اس نے گیارہ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔