وزیراعلیٰ سندھ کی تبدیلی کا فیصلہ

پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو سبکدوش کرنے اور کابینہ میں تبدیلیوں سمیت کئی دور رس فیصلے کیے ہیں


Editorial July 26, 2016
وقت کا تقاضہ ہے کہ سندھ حکومت وفاق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک عمل سے سندھ کے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے مستفید کرے۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD: پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو سبکدوش کرنے اور کابینہ میں تبدیلیوں سمیت کئی دور رس فیصلے کیے ہیں۔ اتوار کو پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت دبئی میں اجلاس ہوا جس میں پیپلز پارٹی کا ملک بھر میں ہنگامی بنیاد پر تنظیم سازی اور آزاد کشمیر میں تنظیمی تبدیلی کرنے کا فیصلہ بھی اہداف کا حصہ ہے۔

ذرایع کے مطابق سندھ کے سینئر صوبائی وزیر خزانہ، منصوبہ بندی و ترقیات اور توانائی مراد علی شاہ کا نام وزارت اعلیٰ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر لیا جارہا ہے، نثار کھوڑو، سراج درانی اور منظور وسان کے نام بھی زیر گردش ہیں، چیئرمین بلاول بھٹو دبئی سے واپس آ کر نئی کابینہ کا اعلان کریں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ کا اجلاس منگل کو طلب کرلیا گیا ہے جس میں بلاول بھٹو شریک ہوں گے اور اسی اجلاس میں وزیراعلیٰ اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔

سید قائم علی شاہ بلاشبہ سندھ کے انتہائی سنجیدہ ، بردبار اور منجھے ہوئے سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کی تبدیلی کا فیصلہ 21جولائی کے بعد سے اوپن سیکرٹ بن چکا تھا، میڈیا نے پیشگوئی کردی تھی کہ ان کی جگہ کوئی اور ''شاہ'' آرہے ہیں، قائم علی شاہ کو پی پی نے سندھ میں انتہائی مخدوش حالات میں بھی تبدیلی کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کیا ۔

آصف زرداری کے لیے وہ مرد بحران کا درجہ رکھتے تھے ، سندھ حکومت کی سربراہی کا تین بار پارٹی نے انھیں اعزاز بخشا، اس لیے پیپلز پارٹی کے لیے ان کو ہٹانے کا فیصلہ اگرچہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا تاہم شاہ صاحب کی گرتی ہوئی عمر اور اس کے مقابل سندھ کی سیماب صفت سیاست کے بار گراں کو مد نظر رکھتے ہوئے پی پی قیادت نے ایک احسن اور جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے، قائم علی شاہ کے دور حکومت میں جہاں کئی اہم اقدامات اور فیصلے ہوئے وہاں کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال، پی پی اور ایم کیو ایم کے مابین کشیدگی اور محبت و عداوت کی آنکھ مچولی نے آتش فشاں کا کام کیا، رفتہ رفتہ شہر قائد قانون کی حکمرانی کے نام پر مذاق بن گیا جہاں مسلسل قتل وغارت اور لاشوں کی سیاست کی بہیمانہ رسم چلی، مختلف قسم کی داخلی و بیرونی مافیاؤں نے علاقوں پر قبضے جما لیے، طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں نے موقع پاکر اپنے نیٹ ورک یہاں قائم کیے، لیاری میں گینگ وار کی بادشاہی پی پی کے ووٹ بینک کی بربادی کی نوید ثابت ہوئی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ حکومت نے چند کرپٹ بلائیں(monsters) اپنے دامن میں خود چھپائے رکھیں جن سے نمٹنے کے لیے پولیس کو جب ناکامی کا سامنا ہوا اور چوہدری اسلم کے تمام آپریشن اور چھاپے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے تو وفاق نے رینجرز کو مکمل اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ، یہیں سے سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان ایک خاموش کشمکش اور زیریں جنگ چھڑ گئی، اور ہر بار اختیارات اور رینجرز کی سندھ میں میعاد میں توسیع کا جھگڑا چلتا رہا۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بیان چھپا کہ سندھ حکومت صرف ''ایک شخص'' کی خاطر کراچی آپریشن کو خطرے میں ڈال رہی ہے، ادھر پی پی قیادت نے مشاورتی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ سندھ حکومت رینجرز کے قیام کی مدت میں ایک سال کے اضافے اور خصوصی اختیارات صرف کراچی تک تفویض کرے گی۔

اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ، اور عسکری قیادت سے رابطہ اور اس بات کا اظہار کریں گے کہ اگر وہ صوبہ کے وزیراعلیٰ اور آپریشن کے کپتان ہیں تو تمام سیکیورٹی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی کارروائی سے قبل ان کو اعتماد میں لیا جائے، جوفیصلہ کیا گیا اس کے مطابق رینجرز کو صرف کراچی کی حد تک انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چھاپے مارنے، گرفتار و تفتیش کے اختیارات حاصل ہوںگے تاہم اس امر کی احسن طریقے سے وضاحت بھی کی گئی کہ پیپلز پارٹی کو رینجرز کے قیام کی مدت میں اضافہ اور خصوصی اختیارات قانون و آئین کے مطابق دینے میں کوئی اعتراض نہیں۔

بہرحال پی پی قیادت نے بعد از خرابیٔ بسیار جو فیصلہ کیا ہے اسے اب نتیجہ خیز بنانے کے لیے نئے وزیراعلیٰ کو فری ہینڈ بھی دے، کراچی ملک کا معاشی انجن ہے، اس شہر کی ترقی ملکی سالمیت اور عوام کی اقتصادی آسودگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، کراچی کا امن نئے وزیر اعلیٰ کے لیے سب سے بڑا اور کڑا امتحان ہوگا، آج بھی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز موجود ہیں، اسلحہ کی بہتات ہے ، بھتہ خور و اغوا برائے تاوان گروہوں نے کراچی کو لاوارث شہر بنا کر رکھ دیا تھا اس لیے رینجرز کا یہ کارنامہ ہے کہ مجرمانہ مافیائیں اب اتنی طاقتور نہیں رہیں کہ شہر کو یرغمال بنالیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ سندھ حکومت وفاق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک عمل سے سندھ کے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے مستفید کرے۔ اس بات کا فیصلہ سندھ کی سیاسی تاریخ کریگی کہ قائم علی شاہ کی انتظامیہ اپنی کارکردگی سے اعتبار سے ریٹنگ کا کس مقام پر پرکھی جائے گی تاہم امید کی جانی چاہیے کہ رینجرز اور سندھ حکومت کے مابین پرامن طریقے سے اختیارات اور مدت میں توسیع کے امور پر جلد مفاہت ہوجائے گی۔

مقبول خبریں