تصویر کے دو رخ

رئیس فاطمہ  ہفتہ 30 جولائی 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کئی ماہ سے الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داریوں کے حوالے سے بہت شور اٹھ رہا ہے۔ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دو رائے ہیں۔ ایک وہ جو صرف میڈیا کو قصور وار سمجھتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہر معاملے میں شخصی آزادی، عورتوں کی آزادی اوردیگر مذہبی حوالوں سے بات کرتے ہیں۔

خواہ امجد صابری کا بہیمانہ قتل ہو،خاتون اسکول ٹیچر پر تیزاب پھینکنے کا واقعہ ہو، رشتہ نہ ملنے پر جان سے مار دینے کا واقعہ یا پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کا درد ناک قتل یا پھر تازہ ترین قندیل بلوچ کا قتل۔ تمام معاملات میں صرف ایک رخ دیکھا اور دکھایا جاتا ہے۔ دوسرے پہلو پہ کوئی غور نہ کرتا ہے نہ ہی کسی دوسرے کو اختلافی نقطہ نظر سے لکھنے یا بولنے کی آزادی ہوتی ہے۔

چلیے سب سے پہلے خواتین کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ پہلے یہ یاد رکھیے کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر قبائلی معاشرہ ہے۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر قبائلی کلچر کی جڑیں بہت گہرائی میں پوشیدہ ہیں اور اب تو بڑے شہروں کی بھی تخصیص نہیں رہی۔ کیا کراچی؟ کیا لاہور؟ اور کیا اسلام آباد؟ جہاں جہاں بھی لوگ اپنے اپنے علاقوں سے روزگار کی تلاش میں ان شہروں میں وارد ہوئے وہ اپنے ساتھ اپنا کلچر لے کر آئے، پہلی مثال ہم کراچی کی لیتے ہیں۔ بیس سال پہلے تک یہ شہر کچرا کنڈی نہیں بنا تھا اور نہ ہی یہاں عورتوں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ تکلیف دہ واقعات جنم لیتے تھے، لیکن اب معاملات مختلف ہیں۔

دوسرے شہروں سے ہجرت کرکے آنے والے اپنے ساتھ اپنی قبائلی روایات بھی لے کر آئے، جن میں سر فہرست، پسندکی شادیاں، غیرت کے نام پہ قتل اور شادی شدہ عورتوں کا آشناؤں کے ساتھ گھروں سے بھاگ جانا اورکرائے کے قاتلوں سے شوہرکو مروا دینا اب ایک عام سی بات ہے۔ ذرا غورکیجیے تو فلائی اوورز کے نیچے آباد ہونے والوں کو دیکھیے۔ ان کا رہن سہن دیکھیے۔

اسی طرح جو علاقے انتہائی بدبودار ہوچکے ہیں ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ آنے والے سبزی فروش، قصاب، سموسہ، مٹھائی، شربت، برگرز، پکوڑے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے نہایت ڈھٹائی سے تمام کوڑا کرکٹ، برساتی نالوں یا فٹ پاتھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ان میں مقامی اور غیر مقامی سب شامل ہیں۔ مقامی لوگ بجائے اس کے کہ باہر سے آنے والوں کی تربیت کریں، خود بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

اب لیجیے غیرت کے نام پر قتل کو جو ہمیشہ عورتوں کا ہوتا ہے گویا غیرت صرف اورصرف خواتین سے منسلک ہے۔ طلاق کے بعد حلالہ والا مسئلہ بھی محض عورت ہی برداشت کرتی ہے جب کہ قصور وار مرد بھی ہوتا ہے لیکن زبردستی کے نکاح اور طلاق کی اذیت صرف عورت ہی سہتی ہے۔ پاکیزگی اورصاف ستھرے کردارکا ثبوت بھی صرف عورت ہی کودینا پڑتا ہے۔

بھارت میں پچھلے دنوں ایک نمایاں شخصیت نے یہ کہہ کرہنگامہ کھڑاکردیا کہ پاک دامن ہونے کا ثبوت صرف سیتا جی کوکیوں دینا پڑا؟ رام جی انگاروں پہ سے کیوں نہیں گزرے؟ آخر وہ بھی تو طویل عرصے تک سیتا جی سے الگ رہے تھے؟ ہنگامہ اور مخالفت اپنی جگہ برقرار ہے لیکن سچائی تو ہے؟

اب میں اصل بات کی طرف آتی ہوں کہ قبائلی کلچر اس قدر مضبوط ہونے کے باوجود لڑکیاں کیوں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں؟ نوجوان جوڑوں کو علم ہوتا ہے کہ ان کے رشتے دار انھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، لیکن پھر بھی وہ صلیب پہ چڑھ جاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ صدیوں کے فرسودہ نظام میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ میڈیا اگر قصوروار ہے تو یہ بھی تو اس کا ایک مثبت کردار ہے کہ ایسے واقعات منظر عام پہ آنے لگے ہیں۔ کیا غیرت کے نام پہ قتل پہلے نہیں ہوتے تھے؟

لڑکیوں کو ونی، سوارا اور وٹے سٹے کی شادیوں کی بھینٹ نہیں چڑھا دیا جاتا تھا۔ چپ چاپ سب کچھ ہوتا تھا۔ بے قصورعورتیں زندہ دفن کردی جاتی تھیں،انھیں قبائلی رسم ورواج اور روایت سے بغاوت کے جرم میں کتوں کے آگے ڈلوا دیا جاتا ہے۔ سندھ میں جائیداد پہ قبضوں کے لیے لڑکی سے شادی کا حق قرآن مجید سے بخشوا کر انھیں ’’بی بی‘‘ بنادیا جاتا ہے۔ ہوتا تو سب کچھ تھا، لیکن چند سالوں سے یہ بھیانک واقعات لوگوں کے سامنے آنے لگے ہیں۔

مختاراں مائی سے لے کر قندیل بلوچ تک۔ اور سانحہ محراب پور اور دیگر دیہی علاقوں میں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے حکم پر عورتوں کو سرعام شرمناک حالت میں بازاروں میں گھمایا جاتا تھا۔ لیکن واقعات صرف اخباروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے تھے۔ وہ بھی صرف پڑھے لکھے گھرانوں تک گاؤں، گوٹھوں میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے۔ یہ بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ سینہ در سینہ لوگ ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ وہ اپنے علاقے میں نہ تعلیم حاصل کرسکتے تھے نہ صاف ستھرے کپڑے پہن سکتے تھے۔

ہمارے ایک کالج کے ساتھی نے جب 1980 میں یہ بات بتائی تو سب ہی حیران رہ گئے۔ پھر وہ کراچی آگئے یہاں تعلیم مکمل کی اور لیکچرر کی جاب حاصل کی۔ لیکن اپنے علاقے میں جانا انھوں نے ایک واقعہ کے بعد ترک کردیا تھا کیونکہ جب وہ ملازمت حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر گئے تو سفید شفاف کپڑوں پر کسی نے سردار کے کہنے پر گندگی پھینک دی کہ ’’یہ مجال‘‘ لیکن اب یہ سب کچھ میڈیا کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔

یہ درست ہے کہ ریٹنگ کے کلچر میں بعض اوقات چوہے کے بل میں گھسے اور بلی کے درخت پہ چڑھنے کی خبر کو بھی ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنادیا جاتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ میڈیا کا شاید کوئی ضابطہ اخلاق ابھی تک طے نہیں ہو پایا۔ کیا دکھانا ہے؟ اور کس حد تک دکھانا ہے؟ ڈراموں میں کس حد تک عریانی جائز ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کسی بھی پاکستانی چینل کے پاکستانی ڈراموں میں جلوہ گر لڑکیوں اور پختہ عمر کی خواتین کا پہناوا اور جلوہ گری دیکھ لیں۔ فیملی والے گھروں میں اکثر چینل بدل دیا جاتا ہے یقینا یہ بھی ’’ریٹنگ‘‘ کا شاخسانہ ہے۔

جو قندیل بلوچ تک پہنچ کر مزید آگے جا رہا ہے لیکن پھر بھی یہ بات طے ہے کہ ہوتا تو پہلے بھی سب کچھ تھا، لیکن عام آدمی کی نظروں سے پوشیدہ تھا۔ اب ہر خبر ایک چائے والے، رکشے والے، ریڑھی والے سے لے کر کالج کے پروفیسر اورگھریلو خواتین تک صرف الیکٹرانک میڈیا ہی کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ ایک تیرہ سالہ بچے کو موبائل فون چوری کرنے کے الزام میں جیل میں بند کرنے والا واقعہ ہو، یا راہ چالتی لڑکی پر تیزاب پھینکنے والا، یا نام نہاد این جی اوز کا نمائشی کردار سب کچھ میڈیا ہی کی وجہ سے سامنے آرہا ہے حکمرانوں کے پروٹوکول، حفاظتی اسکواڈ، کرپشن، سب کچھ میڈیا کی بدولت ایک عام ناظر تک پہنچا لیکن۔

لیکن پھر بھی میڈیا کو ایک ضابطہ اخلاق کے تحت ضرور لانا چاہیے بالخصوص ایسے واقعات اور تصاویر جن سے ہیجان انگیزی بڑھتی ہو یا نئی نسل کا اس سے بے راہ رو ہونے کا امکان ہو۔ جیساکہ قندیل بلوچ کے معاملے میں ہوا کہ لڑکیاں سستی شہرت اور شارٹ کٹ کے لیے اب قندیل بلوچ کی گمشدہ راہوں پہ چل پڑی ہیں۔ چپکے چپکے لڑکیاں کیا گل کھلا رہی ہیں۔ اگر صرف چند واقعات بھی گوش گزار کردوں تو آپ کے ہوش اڑجائیں گے۔ اس لیے میڈیا کے برق رفتار اور منہ زور گھوڑے کو لگام دینا بہت ضروری ہے۔ ایک قندیل تو میڈیا پہ آگئی۔ لیکن بے شمار قندیلیں جس طرح خواہشات کے اندھے کنوؤں میں گرکر روشنی کھو رہی ہیں۔ان کا حساب کون دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔