دہشت گرد کون؟

نسیم انجم  ہفتہ 30 جولائی 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

مقبوضہ کشمیر کی صورت حال نے امت مسلمہ اور انسانیت کا بول بالا کرنے والوں کی آنکھوں کو نم کر دیا ہے اور دل تڑپ رہا ہے، ہزاروں نوجوانوں، معصوم بچوں اور مرد و زن کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے، ایسا، ایسا ظلم و ستم ڈھایا ہے کہ ہندوستانی افواج کی شقی القلبی کو دیکھ کر شدت غم سے قلب پھٹا جاتا ہے۔ سفاکی اور درندگی کی ایسی مثالیں کہ انسانیت نوحہ کناں ہے۔

مغرب کو بھارت کا یہ چہرہ نظر نہیں آتا ہے۔ دہشتگرد پاکستان نہیں ہندوستان ہے۔ گجرات کا واقعہ بھی بھلایا نہیں جاتا، وقت نے جبر کی کالک بھارتی وزیراعظم مودی کے چہرے پر مل دی ہے، جو آج تک نہیں چھوٹ سکی۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پوری بستی پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ اور آج پھر مودی کی حکومت کشمیر میں یہی کہانی دہرا رہی ہے۔

30 سال کا عرصہ مختصر نہیں طویل ترین ہوتا ہے، 30 سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی افواج جس کی تعداد دس لاکھ ہے۔ یہ فوجی ہر روز کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں، لیکن افسوس تھکتے نہیں، گزرے برسوں میں بہت سے فوجیوں نے آتما ہتھیا کر لی تھی کہ وہ خون کی ہولی کھیلتے کھیلتے تھک چکے تھے، بیزار آ گئے تھے۔

اپنے ہی اسلحے سے خودکشی کر لی کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ بھارت نے ایسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے تازہ کمک بھیج دی۔ یہ خطہ ان کا نہیں تھا۔  بٹوارے کے وقت بھی ان کا نہیں تھا۔ بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے جبری الحاق کا ڈرامہ اکتوبر 1947ء میں ریاست کے ڈوگر مہاراجہ ہری سنگھ اور نیشنلزم کے بانی اور علم بردار شیخ عبداﷲ کی سازش کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس کی حیثیت نہ آئینی تھی اور نہ اخلاقی۔

یہ الحاق تقسیم کے دو قومی نظریے کے اصول کے منافی تھا جس میں یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی تھی کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے اور غیر مسلم اکثریت کے بھارت میں، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور بھارت نے شروع دن سے ہی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی دھڑلے سے کی لیکن ان ہی دنوں برطانوی مصنف و دانشور السٹر لیمب (Alster Lamb) نے ایک خاص حقیقت کی طرف نشان دہی کی کہ بھارت نے جس نام نہاد دستاویز الحاق کو بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں اس الحاق کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔

یہ ساری کارروائی جعلی اور من گھڑت تھی، جس کا مقصد مسلم ریاست پر غاصبانہ تسلط جمانا تھا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’’ہماری پالیسی کیمطابق الحاق کا مسئلہ متنازعہ ہوا تو الحاق کا سوال وہاں کی عوام کی مرضی کیمطابق طے کیا جانا چاہیے، میری حکومت چاہتی ہے کہ کشمیر کی سرزمین حملہ آوروں سے پاک ہو جائے تو ریاست کے الحاق کا سوال وہاں کے عوام کے مرضی کیمطابق طے کیا جانا چاہیے‘‘۔

بھارت کے بانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ملک کے اس موقف کو اس سے بھی زیادہ دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو بھارت نے پہلے ہی دن سے اپنے اس اصول کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ ریاست کے بارے میں آخری فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ ہم اپنے عہد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹیںگے۔ اسی طرح 18 مئی 1954ء کو پنڈت نہرو ہندوستانی ریاستوں کے سربراہوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنی بین الاقوامی یقین دہانیوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کا اب بھی پوری طرح پابند ہے۔

اس طرح 31 مارچ 1955ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے پنڈت نہرو نے ایک بار پھر منافقت و ریاکاری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے بھارت یا پاکستان ہڑپ کر لے، بلکہ کشمیر کا اپنا ایک وجود ہے اور اپنی ایک روح ہے، اسی لیے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کشمیری عوام کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ لیکن اس ملک کا بانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو جسے امن و آشتی کا بہت بڑا علم بردار سمجھا جاتا تھا، وہ ہی ہندوستان کا لیڈر اپنی بات سے اس وقت مکر جاتا ہے جب اسے اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ ان کے غاصبانہ تسلط کو استحکام حاصل ہو رہا ہے، اسی لیے وہ بین الاقوامی وعدوں سے مکر گئے اور یہ سلسلہ روز اول سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔

ان دنوں پھر مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم، جبر و تشدد کی پر زور آندھی چل رہی ہے، اس آندھی نے ہزاروں نوجوانوں کو شہادت کی منزلوں پر پہنچا دیا ہے، بچوں کو ان کے گھر اور والدین سے جدا اور دوشیزاؤں کے سروں سے آنچل کھینچ لیا گیا ہے۔ ہر روز بے شمار کشمیری جوان، معصوم بچے بھارتی فوج کے عقوبت خانے میں پہنچائے جا رہے ہیں اور عنقریب وہ گوانتا ناموبے جیسی ایک نئی جیل بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

دنیا کے وہ ادارے، وہ لوگ جو امن کے نعرے بلند کرتے ہیں، انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے فلاحی کاموں اور مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا چاہتے ہیں کیا انھیں مظلوم کشمیری ان کے جلتے ہوئے گھر، بے گھر ہونیوالے زخمی بے یار و مددگار افراد نظر نہیں آتے؟ بے شمار زخمی بے سہارا بچے جنھیں ماؤں کی آغوش سے چھین لیا گیا ہے، ہزاروں لاشے بے گور و کفن سلامتی کونسل اور اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں سے سوال کر رہے ہیں کہ کشمیر میں خون سے ہولی کھیلنے والوں کو آخر کھلی چھٹی کیونکر دی گئی ہے؟ اتنی کڑی سزا؟

چھوٹے سے خطے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس لاکھ بھارتی افواج نے معصوم و بے خطا انسانوں کا قتل عام شروع کر رکھا ہے اور اس کی اجازت اس دہشتگرد نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کو بے قصور انسانوں پر ستم ڈھانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ منوہر پاریکھ نے ڈی ڈی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم فوج کو صرف جدید اسلحہ ہی فراہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں، وزیراعظم نریندر مودی بھی فوج کی پشت پر کھڑے ہیں، کشمیر میں ہم نے فوج کو کھلی چھٹی دی ہے۔ اس بیان کے بعد منوہر پاریکھ کا اگلا بیان سامنے آتا ہے وہ فخریہ کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے دفاع کے لیے بنائے گئے کالے قوانین ختم نہیں ہوںگے۔

اسی قانون کے تحت کشمیری مظاہرین پر کھلے عام گولیاں برسائی جاتی ہیں، زہریلی گیس پھینکی جاتی ہے۔ آج بھارت میں سیکڑوں کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارت کے اس جارحانہ اور بزدلانہ عمل پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ جدوجہد آزادی کی جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ ماؤں کے لال، بہنوں کے بھائی، ماں اور باپ کا سہارا، سہاگنوں کے سہاگ، اپنے سروں پر شہادت کا تاج سجا چکے ہیں۔

بے شمار مجاہدین جسمانی و ذہنی طور پر معذور ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ املاک راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے اور دس ہزار کشمیری لاپتہ ہیں، ایک لاکھ بچے یتیم ہو چکے ہیں لیکن 55 صوبوں والا ملک بھارت کی زمین گیری کی ہوس ختم نہیں ہو رہی۔ اپنی زبان اور وعدوں کا پاس ہے اور نہ رحم کے جذبات اسے ظلم کرنے سے روکتے ہیں۔10 ہزار خواتین کی عصمت کو تار تار کرنیوالا یہ ملک بھارت اپنے آپ کو سیکولر اور جمہوریت پسند کہلوانا پسند کرتا ہے۔ ہر معاملے میں جھوٹ، الزام تراشی کرنا اس کا شیوہ ہے، پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دینے والوں کو ہندوستان کا مکروہ چہرہ نظر نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔