- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
لوگ کیا کہیں گے؟؟
’’ میں ٹھیک لگ رہی ہوں نا؟‘‘ اس نے آئینے کے سامنے اپنا کم و بیش بیس منٹ تک مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد مجھ سے پوچھا-
’’ بالکل ٹھیک اور بہت پیاری لگ رہی ہو بیٹا!! ‘‘ میں نے اسے بیسویں بار تسلی دی-
’’ سوٹ کا رنگ زیادہ شوخ تو نہیں، دیکھنے والوں کو برا تو نہیں لگے گا ؟ ‘‘ اگلا سوال- کیونکہ ہمیں بہت پہلے سکھا دیا جاتا ہے کہ کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا، جگ کو خوش رکھنا اہم ہے، اپنی مرضی کا لباس بھی نہیں پہن سکتے-
’’ بیٹا دلہن کے سوٹ کا رنگ شوخ ہی ہوتا ہے… ‘‘ میں نے اپنی چڑچڑاہٹ کو دبا کر کہا-
’’ پھر بھی میری تو دوسری شادی ہے نا!! ‘‘ اس کے لہجے میں کچھ تھا کہ میرے اندر کچھ چھن سے ٹوٹا-
’’ شادی تو خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس میں پہلی یا دوسری کی کیا شرط؟ ‘‘ میں نے اسے تھپکا-
پھر بھی… لوگ کیا کہیں گے!!!‘‘ اس کی تان اسی فقرے پر آ کر ٹوٹی تھی جو ہماری زندگیوں کا بنیادی ستون ہے-
دنیا بھر میں یہ مرض کسی نہ کسی شدت، حالت، شکل ،انداز یا طرز میں موجود ہے مگر میں اسے صرف اپنے ملک کے تناظر میں دیکھ کر اس کی وضاحت کروں تو ہماری زندگیوںکے تین ادوار کی آسان وضاحت ، بقول شخصے کچھ اس طرح ہو سکتی ہے… پیدائش، لوگ کیا کہیں گے اور موت!! یہ فقرہ، ’’ لوگ کیا کہیں گے… ‘‘ ہماری فطرت ثانیہ ہے، کیونکہ ہماری تربیت ہی ان لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہے جن کے اندر اللہ سے زیادہ لوگوں کا خوف ہوتا ہے اور یہی بات ہماری تربیت کے بنیادی برسوں سے ہمارے اندر اگائی جاتی ہے-
… بیٹا، آپ بچوں کو مارو گے تو لوگ کہیں گے کہ علی گندا بچہ ہے!!!
… چندا آپ پڑھو گے نہیں تو فیل ہو جاؤ گے اور لوگ کہیں گے تانیہ نالائق بچی ہے!!!
… بیٹا ایسے کپڑے پہن کر جاؤ گے تو لوگ کہیں گے کہ اس کے پاس کوئی اچھے کپڑے ہی نہیں ہیں!!
… تمہیںیوں کھاتے دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے، اسے کھانے کی تمیز ہی نہیں!!
… یوں نہ کرو بیٹا لوگ باتیں کریں گے…
یہ فقرے ہم اپنی تربیت کے اولین برسوں میں سنتے ہیں اور جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہماری حرکتیں اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے رد عمل کی دھمکی کی نوعیت بدل جاتی ہے-
… وقت پر گھر آ جایا کرو، لوگ کیا کہیں گے ملک صاحب کا بیٹا رات بھر آوارہ گردی کرتا رہتا ہے-
… یوں ہر وقت لیٹی نہ رہا کرو، دیکھنے والے کیا کہیں گے اسے کیوں سستی چڑھی رہتی ہے-
… یوں مرے ہوئے رنگ پہنو گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ اتنے شوخ رنگ نہ پہنا کرو، لوگ…
… بیوہ ہو کر تم نے لال رنگ پہن لیا، دیکھنے والے سوچیں گے!!!
… آپ نے بیوی کے مرنے کے دو ماہ کے اندر دوسرابیاہ رچ لیا، یہ بھی نہ سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے!
غرض اگر صرف مواقع کی مثالیں ہی دینا شروع کر دوں تو جانے کتنے ہی صفحات کالے ہو جائیں، ہم اپنی عمر اللہ کی رضا سے زیادہ لوگوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے بلکہ ان کے خوف میں مبتلا رہ کر گزار دیتے ہیں- ہمیں لوگوں کی باتیں چھلنی کر دیتی ہیں کیونکہ ہم نے بچپن سے سیکھا ہے کہ لوگ ہماری زندگیوں میں مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں- بچہ زمین پر گر کر یا اپنی کسی ناکامی پر رونے لگتا ہے تو ہم اسے یہ نہیں کہتے کہ اچھے بچے روتے نہیں، اللہ کا شکر ادا کرو کہ آپ کو چوٹ نہیں لگی… الٹا ہم اسے کہتے ہیں، ’’ دیکھو کتنے لوگ دیکھ رہے ہیں، کیا کہیں گے اتنا بڑا بچہ رو رہا ہے!!‘‘
کسی بھی محفل میں ہم دو لوگ سر جوڑ کر اس محفل میں موجود اور غیر موجود، سب کی برائیاں اور غیبتیں کر رہے ہوتے ہیں، ہر بات سے بے نیاز، ہر فکر سے ماورا مگر جونہی کوئی اور قریب آ کر بیٹھے تو ہم ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرتے ہیں اور بات کا موضوع بدل دیتے ہیں- غیبت کرتے وقت ہمیں اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ ہم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہوتے ہیں، اس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، یہ بھی بھول جاتے ہیں… صرف اس وقت رکتے ہیں جب ہمیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کوئی اور سن لے گا تو کیا کہے گا-
ہمارا مذہب سادگی کا سبق دیتا ہے اور ہم اس سے احتراز برتتے ہیں، اپنی زندگیوں میں سادگی سے دور ہو کر ہم نے اپنے لیے مشکلات کے انبار اکٹھے کر لیے ہیں- بچے کی پیدائش پر نام رکھنے، گھٹی دینے، بچے کے کان میں اذان دینے سے مشکلات شروع ہو جاتی ہیں، فلاں نے گھٹی دی تو فلاں ناراض ہو جائے گا، دادا نے بچے کے کان میں اذان دی تو نانا ناراض ہو جائیں گے… بچے کے والدین نے خود نام رکھ لیا تو لوگ کہیں گے کہ لو جی انھوں نے تو پہلے سے ہی بچے کا نام سوچ لیا تھا!! لڑکی پیدا ہو جائے تو لوگ کہیں گے کہ لڑکا نہیں ہوا، لڑکا پیدا ہو جائے تو لوگ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اب بھائیوں کی جوڑی ہونا چاہیے، اسی طرح ان کی پرورش اور شادیوں کے وقت ، غرض عمر بھرسلسلہ یونہی چلتا ہے-
بچے کو کس اسکول میں بھیجنا ہے، اس وقت بھی ہمیں سوچ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے… اگر غریب ہیں تو اپنے آپ کو بیچ کر بھی دنیا کے سامنے ناک اونچی رکھنے کو بچوں کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر کسی اسکول میں بھیجیں گے- دنیا کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہم زندگی بھر مرتے رہتے ہیں، کسی کے گھر جا کر ہم فرض نماز بھی نہیں پڑھتے کہ دیکھنے والے سمجھیں گے ہم دکھاوے کی نماز پڑھ رہے ہیں- روزے نہ رکھیں اور چھپ چھپ کر کھائیں تو بھی دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے، جو ہم سب کو ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہوتا ہے ہم اس سے کتنے لاپروا ہوتے ہیں… نماز چاہے پڑھیں نہ پڑھیں مگر حج پر حج اور عمروں پر عمرے کیے جائیں گے کیونکہ وہ لوگوں کو نظر آ رہا ہوتا ہے اور وہ ہمیں پرہیز گار اور نیک سمجھنے لگتے ہیں، غرض ہم اپنی مرضی سے سانس تک نہیں لیتے-
اس کے لیے ہم سب مجرم ہیں، ہم صرف لوگوں کی باتوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ لوگ بھی ہم سے اتنے ہی خوف زدہ ہوتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں باتیں کریں گے، جب ہمیں لوگوں کی باتوں سے ڈرایا جا رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ انجانے میں ایک ایسی غلط عادت کی آبیاری کی جا رہی ہوتی ہے جس کا کسی کو اس وقت اندازہ نہیں ہوتا، یعنی ہم بھی لوگوں کے بارے میں بات کرنے کا اسی طرح حق رکھتے ہیں جس طرح کہ وہ ہمارے بارے میں بات کر سکتے ہیں… ہم سب تجزیہ نگار ہیں، نقاد ہیں ، جراح ہیں اور ظالم ہیں-
’’ تنقید کے لیے علم کی ضرورت ہوتی ہے اورنکتہ چینی کے لیے جہالت کی ڈگری کافی ہے!‘‘
کوئی ہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کر نہ ملے، کبھی کوئی ہاتھ نہ ملائے، کوئی گلے نہ ملے، کوئی ہمارے قریب بیٹھ کر بات نہ کرے… تو میں اور آپ ہم سب ایک لفظ کہیں گے، ’’ مغرور!‘‘ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ممکن ہے اس نے ہمیں فاصلے سے یا نظر کی کمزوری کے باعث پہچانا ہی نہ ہو، اسے ٹانگ میں درد ہو یا وہ تھکا ہوا ہو… اس کے ہاتھ میں کوئی زخم ہو یا چوٹ لگی ہو، ہو سکتا ہے کہ اس کی پسلیوں میں درد ہو تو وہ گلے نہیں مل رہا، ہو سکتا ہے کہ اس کی سانس میں ناگوار بو آتی ہو تو وہ ہمارے قریب نہیں آنا چاہتا یا قریب بیٹھ کر ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا- ہر گز نہیں، ہم اتنے judgemental ہوتے ہیں کہ بے سوچے سمجھے اس کے لیے ایک غلط رائے قائم کر لیتے ہیں، ا سے شک کا فائدہ بھی نہیں دیتے اور خود ہی نہیں بد گمان ہوتے، لوگوں کو بتاتے ہیں اور سب کے اذہان میں اس کا ایک منفی تاثر قائم کروا کر ہی دم لیتے ہیں- بعد ازاں اگر علم ہو بھی جائے کہ ہم غلط تھے اور فلاں وجہ سے ایسا ہواتو بھی ہم شرمندہ… میرا آئینہ بھی مجھے کہہ رہا ہے کہ مجھے لوگوں کی باتوں کا سب سے زیادہ ڈر ہے، آپ کا آئینہ کیا کہتا ہے؟؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔