ہماری فلم انڈسٹری… عبرت سرائے دہر ہے

شاہد سردار  اتوار 31 جولائی 2016

پاکستانی فلم ٹریڈ بھی ہمارے ملک کی طرح کسی اچھے ’’لیڈر‘‘ کے انتظار میں پڑی سوکھ رہی ہے، فلم ٹریڈ میں اس وقت جو لوگ موجود ہیں وہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر یا پھر کسی وجہ کے بغیر ہی اپنے اپنے دفتروں،گھروں یا جائے پناہ میں پناہ گزین ہیں اور کوئی عملی اقدام کرنے سے گریزاں ہیں، ایسے حالات میں فلموں کی تیاری، سینماؤں کی تعمیر اور مابعد ان کی ریلیزکا سوال ہم کس سے اور کس طرح کریں؟

گنتی کے نئے جدید سینماؤں کی تعمیر اورگنتی کی ’’کامیاب ترین‘‘ فلموں سے جو لوگ پاکستانی سینما کے ریوائیول کے بارے میں پر امید بیٹھے ہیں وہ غالباً احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فلم آرٹ، ادب اور سائنس کے حسین امتزاج سے تخلیق پاتی ہے۔ ان اجزائے ترکیبی میں سے کوئی بھی جزو کمزور ہو تو فلم کا تاثر برقرار نہیں رہتا۔

یہ صنعت جسے مخلص، ہنرمندوں اور تخلیق کاروں نے حکومت کی امداد اور سرپرستی کے بغیر سالہا سال تک جدوجہد اور ان تھک محنت کے بعد بام عروج تک پہنچایا تھا وہ حکومت کی غفلت، بے پرواہی یا بے حسی کے باعث بھی رفتہ رفتہ پستی کی طرف گامزن ہوتی رہی، ستم بالائے ستم فلم کے کرتا دھرتاؤں نے بھی اس موثر ذریعہ ابلاغ کا حشر پیٹ کر رکھ دیا۔

فلم کتنا طاقتور اور موثر میڈیا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، پوری دنیا میں جہاں جہاں فلم سازی کی جاتی ہے وہاں یہ اپنے کلچر اور اپنے نظریات کا پرچار کرتی ہیں یہاں ہم صرف امریکا اور بھارت ہی کی مثال دیتے ہوئے یہ کہیں گے کہ پہلے امریکا نے اپنی فلموں کے ذریعے ساری دنیا کو متاثر کیا، ان کے ذہنوں میں اپنی ثقافت اور اپنے عقائد و فلسفے کو اجاگر کیا اور اب یہی کام طویل برسوں سے بھارت اپنی فلموں کے ذریعے کر رہا ہے، عالم یہ ہے کہ جو کام یا کارنامے بھارتی سفیر نہیں کر سکے وہ بھارتی فلموں نے سر انجام دے دیے ہیں اور آج نتیجے میں ساری دنیا بھارتی تہذیب و ثقافت اور ان کی مذہبی رسوم سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس کی تعریف میں رطب اللسان بھی ہے۔

اس وقت بھارتی فلمیں دنیا بھر میں نمائش کے لیے  پیش کی جاتی ہیں، اپنے ملک اورمذہب و تہذیب کا پروپیگنڈا بھی کرتی ہیں اور کروڑوں اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ کما کر اپنی حکومت کو دیتی ہیں۔دور جدید میں فلمیں محض تفریح ہی کا ذریعہ نہیں رہیں بلکہ نظریات اور افکار کے پرچار کے ذریعے کی حیثیت بھی حاصل کر چکی ہیں، افسوس ہمارے ہاں اتنے موثر میڈیم کو حرص و ہوس اور لاپرواہی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ 2016ء کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی بنی پراڈکٹ صرف 13 تھیں، جن میں 8 اردو، 3 پشتو اور 2 پنجابی فلمیں تھیں اور ان میں کامیابی کے لحاظ سے صرف دو فلمیں قرار پا سکیں۔

ہماری فلمیں برسہا برس سے قومی زبان اردو کے بجائے علاقائی زبانوں کی فلموں بالخصوص پشتو فلموں کی پروڈکشنز تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور ان فلموں کی تعداد بھی محدود ہوتی ہے۔ فلموں کی تعداد کے ساتھ ساتھ سینماؤں کی کمی کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ تجارتی دارالحکومت کراچی کی 18 ملین سے زاید آبادی کے لیے صرف 38 سینما باقی بچے ہیں، باقی ماندہ کمرشل املاک کی صورت تبدیل ہو گئے۔ اس وقت پاکستانی سینما گھروں کی رونق کا سب سے بڑا سبب بھارتی فلمیں ہیں کیونکہ سال میں صرف 8 یا 10 پاکستانی فلمیں 180 ملین آبادی کے ذوق کی تسکین کے لیے ناکافی ہیں۔

ہماری فلمی صنعت کے زوال یا تباہی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی ذمے داری نہ طالبان پر عائد کی جا سکتی ہے، نہ داعش کو اس کا ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا سبب ’’را‘‘ کو کہا جا سکتا ہے، ہماری خفیہ ایجنسیوں کو بھی اس سلسلے میں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عمارت کتنی ہی مضبوط اور بلند و بالا ہو وہ پہلے باہر سے نہیں اندر سے ٹوٹتی ہے، بالکل اسی طرح ہماری فلمی صنعت و تجارت کی تباہی و بربادی کے ذمے دار اس ٹریڈ سے وابستہ لوگ ہیں جنھوں نے معیاری، بامقصد اور منفرد فلموں کی تیاری کا کام پس پشت ڈال کر روایتی موضوعات پر انتہائی گھسی پٹی فلمیں بنانی شروع کر دیں، ان فلموں میں کہانی، اداکاروں کی یکسانیت، کمزور ٹریٹمنٹ اور موسیقی و نغمات کی پستی کے باعث ان فلموں کا دم بھی نکل گیا اور ایک دور ایسا آیا کہ ہماری فلمیں مذاق بن کر رہ گئیں۔

ہماری فلموں کے میکرز کا کام دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کہ قدرت نے ان کے ذہنوں پر مہر لگا دی ہے یا پھر کسی نے انھیں شاہ دولا کا چوہا بنانے کے لیے سروں پر فولادی ٹوپی پہنا دی ہے، جس کی وجہ سے ان کے دماغوں اور سروں کی ساخت اور صلاحیت وہیں کی وہیں منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا ہماری فلم انڈسٹری کے ذمے دار، شومین، گاڈ فادر کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟

آج پوری دنیا کو گلوبل ولیج کا روپ دھارے بھی عرصہ دراز ہو چلا ہے، ہمارے ہاں فلم کے زوال کے حوالے سے ایک کڑوی سچائی یہ ہے کہ ہمارے فلم والوں نے کبھی کسی دور میں نئے ٹیلنٹ کو آگے نہیں آنے دیا، خواہ وہ رائٹر ہو، ایکٹر ہو، سنگر ہو یا اور کوئی ہنرمند۔ ٹیلنٹ کو دبانے، اسے مارنے، اسے مسترد کرنے یا ان کی حوصلہ شکنی کرنے میں ہمارے فلم کے ’’اہلکاروں‘‘ کو ہمیشہ سے ملکہ حاصل رہا ہے۔ یوں بھی تخلیق بالخصوص اوریجنل کاوش خالصتاً ایک حساس کام ہے جسے عقل عام (Common Sense) کا معاملہ بھی کہا جا سکتا ہے اور ہماری فلم میکنگ سے وابستہ غالب اکثریت کے پاس ہمیشہ سے اس کی کمی چلی آ رہی ہے۔

شوبز سے وابستہ ہمارے ہر قسم کے تخلیق کاروں کو وقت کی اس سچائی کو قبول کر لینا چاہیے کہ جس کلچر میں زیادہ لذت اور زیادہ تھرل ہو وہ کمزور، بوسیدہ اور’’پینڈو ثقافت‘‘ کو نگل جاتا ہے۔ آج کا کلچر کیا ہے؟ نیٹ پر عالمی افق کو دیکھیں، اخبارات و رسائل سے ملکی اور غیر ملکی کلچر اور اس کے تقاضوں کو جانچیں، انھیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ آج کا دور جدید سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کا ہے، اب سوشل میڈیا کے فروغ یا اس کی وسعت نے ہر چھوٹے بڑے ذہن کا آئی کیو حد درجہ بڑھا دیا ہے، اب بھارتی فلموں کے بھونڈے چربے، وحشی جٹ، بدمعاش گجر اور جنگل کوئین وغیرہ کو دیکھنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔

آج کا انسان اپنے پرابلم کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی تفریح کو بھی دیکھنا چاہتا ہے، آج کا انسان حد درجہ ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار ہے اور اس کے چہرے سے مسکراہٹ چھن گئی ہے اور یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ جس معاشرے میں قہقہے مر جائیں وہاں مسکراہٹ بیوہ ہو جاتی ہے۔ بہرکیف اس وقت جس تباہی و بربادی یا ابتری سے ہمارا پاکستانی سینما دوچار ہے اس میں ہمارے ہاں آئے دن جنم لینے والی سیاسی، انتظامی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی پیچیدگیوں اور تبدیلیوں کا بھی ایک بہت بڑا کردار ہے۔

ملکی منظرنامے پر آئے دن کی بدامنی، تخریب کاری، دہشت گردی یا خوں ریزی یا پھر ڈر و خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ پہیہ جام، دھرنوں، ہڑتالوں نے بھی ایک دور میں فلم بزنس کو تباہ کرنے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کیا، مظاہرے یا سیاسی لسانی جماعتوں کی طرف سے جلسے جلوسوں نے بھی پاکستانی فلموں اور سینماؤں کا جلوس نکال کر رکھ دیا۔

لاقانونیت، بدامنی اور افراتفری اور مختلف سیاسی ایشوز کی بنا پر بھی بڑی بڑی فلمیں تیار ہو کر بھی ریلیز نہیں ہو پا رہیں یوں فلم انڈسٹری کا اربوں روپے کا سرمایہ منجمد پڑا ہے، ان حالات کی بنا پر شوبز اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت، ایران اور چین فلم سازی میں عالمی افق پر چھائے ہوئے ہیں اس کے قطعی برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے ماضی میں اور حال میں معیاری فلم سازی کے ذریعے دنیا کے جن ممالک میں جو شہرت اور مقام بنایا تھا وہ سب ختم ہو چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔