ڈبلیو بی سی سلور ٹائٹل بڑی کامیابی، حکومت باکسنگ کے فروغ کے لیے اقدامات کرے

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  اتوار 31 جولائی 2016
عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد وسیم و دیگرکی ’’ایکسپریس فورم کوئٹہ ‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد وسیم و دیگرکی ’’ایکسپریس فورم کوئٹہ ‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

کوئٹہ کے ایک چھوٹے سے باکسنگ کلب سے تربیت حاصل کرنے والے باکسر محمد وسیم اب عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ حال ہی میں سیؤل میں منعقد ہونے والے مقابلے میں انہوں نے ورلڈ ٹائٹل اپنے نام کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا ہے۔

محمد وسیم نے سات سال کی عمر میں ہی باکسنگ کی تربیت حاصل کرنا شروع کردی تھی اور صرف 27سال کی عمر میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انہوں نے 33میڈلز حاصل کیے ہیں۔ ان شاندار کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں ’’ایکسپریس فور م کوئٹہ ‘ ‘ میں مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے اپنے کوچ اور چچا کے ہمراہ خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد وسیم (باکسر)

مجھے 7 سال کی عمر میں ہی باکسنگ کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ باکسنگ کلب کے باہر کھڑے ہو کر تمام باکسرز کو دیکھتا تھا اور اس طرح باکسنگ کا لگاؤایک جذبے کی صورت اختیار کرگیا۔ ایک دن میں نے اپنے چچا محمد آصف سے اپنے اس شوق کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے عطاء محمد کاکڑ کے یوتھ باکسنگ کلب میں داخلہ دلوادیا جہاں میری ٹریننگ شروع ہوگئی۔

کافی عرصے تک میں اسی کلب میں باکسنگ سیکھتا رہا اور پھر میںنے کوئٹہ لیول سے منی اولمپکس کی تیاریاں کیں ، آل بلوچستان چیمپئن شپ 1998ء میں حصہ لیا اور33کلو گرام کیٹگری میں گولڈ میڈل جیتا۔ اس کے بعد36 کلو گرام میں بھی اسی سال میڈل جیتا۔ پھر میں نے نیشنل لیول پر باکسنگ کھیلنے کا سوچا مگر مجھے پاکستان باکسنگ فیڈریشن سے کسی بھی قسم کی پذیرائی نہیں ملی۔ میں نے 2001ء میں واپڈا جوائن کیا اور محکمے کی طرف سے باکسنگ کھیلتارہا۔اس کے بعد میں نے پاکستان باکسنگ ٹیم جوائن کی جس کا میں کپتان بھی رہا۔

میں نے 2004ء میں تھائی لینڈ اور بعدازاں استنبول(ترکی) کے مقابلے میں میڈل جیتے ۔2009ء اور 2010ء میں بھی میں نے مختلف مقابلوں میں میڈل جیتے ،اس کے بعد ساؤتھ ایشین گیمز کھیلی ۔ وہاں 2010ء میں میڈل جیتا جبکہ 2011ء کی ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز میں بھی حصہ لیا۔ سکاٹ لینڈ میں کامن ویلتھ گیمز 2014ء میں، میں نے سلور میڈل جیتا اور پھر ایشین گیمزمیں براؤنز میڈل جیتا۔ سیکرٹری پاکستان باکسنگ فیڈریشن نے میرے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا، میں نے اپنی مدد آپ کے تحت سب کیا۔

افسوس ہے کہ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کا رویہ ہم کوئٹہ والے باکسروں کے ساتھ کبھی بھی بہتر نہ تھا۔ پھر میں نے تاجکستان میں ہونے والے مقابلوں میں سلور میڈل جیتا ۔ اگر مجھے روس یا کیوبا بھیجتے تو ہم مزید ٹائٹل جیت سکتے تھے مگر پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی سوچ یہ تھی کہ ہم کوالیفائی نہیں کرسکیں گے۔ میں نے اب جو ورلڈ ٹائٹل جیتا ہے ،یہ سلور میڈل ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے میں خود اپنے خرچے پر کوئٹہ سے اسلام آباد گیا۔ باکسنگ کے مقابلوں کیلئے مختلف سفارتخانوں کے چکر لگاتا رہا۔

میں خوش قسمت تھا کہ مجھے کوریا میں ایک پروموٹر مل گیا جو مجھے سپورٹ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے اعلیٰ معیار کی بیرون ملک ٹریننگ دلوائی جس پر دس سے بارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے ۔ میں پاکستانی ہوں اور اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں مگر ہمارے ملک میں کسی نے مجھے سپورٹ نہیں کیا ۔ مجھے پاکستانی سپورٹرز چاہئیں جو مجھے سپورٹ کریں تاکہ میں مزید فائٹ لڑوں اور ملک کا نام مزید روشن کر سکوں۔ ورلڈ ٹائٹل جیتنے پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے میری بے انتہا پذیرائی کی اور مجھے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا جس پر نہ صرف میں بلکہ میرے استاد اور اہل خانہ بھی ان کے مشکور ہیں۔

ہمارا یوتھ باکسنگ کلب انتہائی خستہ حال ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے، 300 کے قریب بچے روزانہ کی بنیاد پر ایک چھوٹے سے کمرے میں آکر ٹریننگ حاصل کرتے ہیں مگر نہ صوبائی سطح پر اور نہ ہی وفاقی سطح پر کسی نے اس کلب پر توجہ دی۔ خستہ حال کلب سے ہی میں ٹریننگ حاصل کرکے آج اس مقام تک پہنچا ہوں اور صرف میں ہی نہیں رشید بلوچ جیسے نامور باکسر بھی اسی کلب کی پیداوار ہیں۔ میں نے امریکا میں جس جگہ پر ٹریننگ حاصل کی وہ دُنیا کا مہنگا ترین کلب تھا، پاکستان حکومت کو چاہیے کہ وہ مجھے پیسے بے شک نہ دے لیکن میرے لئے پروموٹر کا بندوبست کردیں کیونکہ مستقبل میں امریکا کے شہر لاس ویگاس میں میری فائٹ ہونی ہے جس کیلئے میں بھرپور تیاریاں کررہا ہوں مگر اس کے لیے پیسے چاہئیں۔

پاکستان باکسنگ فیڈریشن نے ہم باکسرز کیلئے کچھ نہیں کیا ، ہمیں پیسے دینے کے بجائے اُلٹا ہم سے پیسے لئے ہیں۔ میں نے بڑے بڑے میڈلز جیتے جس پر صرف پاک آرمی اور ایف سی نے میری حوصلہ افزائی کی۔چیمپئن شپ کے مقابلوں سے قبل میں جب امریکا میں کسی کو اپنے کلب کی ویڈیو دکھاتا تھا تو وہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ تم اس ایک کمرے کے کلب میں کیسے پریکٹس کرتے تھے ؟ ان کا کوچ وہاں کے دیگر باکسرز کو بلا کر دکھاتا تھا کہ تمہارے پاس کتنی جدید سہولیات ہیں اور یہ پاکستان سے آنے والا باکسر ایک کمرے کے کلب میں کس طرح سے پریکٹس کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔

افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں باکسنگ پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ اگراس پر توجہ دی جائے تو مزید ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے۔ امریکا میں باکسر کی بہت عزت ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ باکسنگ ایک جان لیوا کھیل ہے ۔ میں جب ان مقابلوں کیلئے فزیکل فٹنس کیلئے میڈیکل کروانے گیا تو وہاں پر مجھ سے پوچھا گیا کہ تم کتنے بڑے ٹائٹل جیت چکے ہو تو میں نے انہیں کہا کہ پروفیشنل میں تین کھیلے ہیں اور اب ورلڈ ٹائٹل لڑرہا ہوں جس پر وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے میرا ’’ایم آئی آر‘‘ ٹیسٹ کیا اور کہا کہ تمہاراآئی کیو لیول بہت اچھا ہے جس پر اُنہوں نے میرا میڈیکل فری کردیا۔

باکسنگ میں میرے آئیڈیل محمد علی کلے ہیں، ان کی وفات کے وقت میرے کوچز نے مجھے وہاں جانے نہیں دیا کیونکہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد میرا ورلڈ ٹائٹل کا مقابلہ تھا، مجھے ان کے نماز جنازہ میں شریک نہ ہونے کا دکھ رہے گا۔ ہمارے یوتھ باکسنگ کلب میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے، اگر اسے نکھارا جائے تو بہت بڑے بڑے نام سامنے آسکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ورلڈ چیمپئن کا ٹائٹل پورے ایشیاء میں صرف تین ممالک کے پاس ہے۔ میرے استاد عطاء محمد کاکڑ نے مجھ پر کافی محنت کی ہے لہٰذا یہ ٹائٹل میں اپنے یوتھ باکسنگ کلب کے نام کرتا ہوں کیونکہ یہی میری بنیاد ہے اور میں اس کو ایک تاریخ کے طور پر دیکھتا ہوں۔

عطاء محمد کاکڑ (کوچ)

وسیم نے ٹائٹل جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ وسیم ایک محنتی فائٹر ہے جو عید کے دنوں میں بھی پریکٹس کرتا تھا۔ میرے شاگردوں میں یہ ایک محنتی شاگرد ہے ،دن رات کی پریکٹس کے نتیجے میں اس نے یہ ٹائٹل جیتا ہے اور اس مقام پر پہنچا ہے۔ میں تمام باکسرز سے کہوں گا کہ وہ اپنے کھیل سے مخلص ہوجائیں۔ بلوچستان اولمپکس میں محمد وسیم نے33 کلو گرام کیٹگری میںگولڈ میڈل جیتا جہاں سے ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس دن ان کا ورلڈ چیمپئن شپ کا مقابلہ تھا میرے گھر میں نہ صرف ان کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی بلکہ نوافل بھی ادا کیے گئے۔

میری حکومت بلوچستان سے اپیل ہے کی کہ وہ محمد وسیم جیسے دیگر باکسرز کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ یوتھ کلب کی چالیس سال میں کوئی فنڈنگ نہیں ہوئی، اب بھی ہمارے اکاؤنٹ میں مشکل سے دو ہزار روپے ہونگے۔ جہاں تین سو کھلاڑی روزانہ ٹریننگ کرتے ہوں اور ایک کمرے میں پنچنگ بیگ پر نوجوان صرف شوق کی خاطر آتے ہوں، اس کلب کی خستہ حالی سب کے سامنے ہے ۔ میں حکومت اور سپورٹس کے حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یوتھ باکسنگ کلب پر توجہ دیں تاکہ محمد وسیم جیسے اور بھی نامور باکسرز سامنے آسکیں۔

محمد آصف (چچا محمد وسیم)

وسیم نے نہ صرف ہمارا بلکہ ملک و صوبے کا نام روشن کیا ہے۔ اس نے جو تاریخ رقم کی ہے وہ ہم سب کیلئے مثال ہے۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ بلوچستان میں موجود باکسروں کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کیے جائیں ۔ وزیراعلیٰ اور کمانڈر سدرن کمانڈ نے جو تعاون کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ بچوں کو اس کھیل کی جانب لانے کیلئے حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے تاکہ محمد وسیم جیسے کھلاڑی مزید سامنے آسکیں۔

محمد وسیم جب ورلڈ ٹائٹل جیت کر کوئٹہ پہنچاتو ایئرپورٹ پر ان کے دوستوںاور خیرخواہوں نے ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔ جس روز ٹائٹل کیلئے وسیم فلپائنی باکسر کے مدمقابل تھے تو کوئٹہ میں ان کے گھر پر سینکڑوں لوگ جمع تھے اور ٹی وی پر اس مقابلے کو دیکھتے رہے۔اس دوران ہر شخص محمد وسیم کی کامیابی کیلئے دعائیں کرتا رہا۔ ان کی کامیابی پر لوگ خوشی سے جھوم اٹھے، مبارکباد کے ساتھ ساتھ مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔کوئٹہ شہر میں ہر طرف وسیم کی کامیابی کے ہی چرچے تھے، ان کے والدین سمیت تمام لوگوں کی اب یہی دعا ہے کہ محمد وسیم عالمی چیمپئن کا ٹائٹل جیت کر ملک و قوم کے وقار میں مزید اضافہ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔