سندھ حکومت کی تبدیلی

مقتدا منصور  پير 1 اگست 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آٹھ برس بعد سندھ کی حکمرانی ایک شاہ کی جگہ دوسرے شاہ کو مل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بزرگ شاہ کی رخصتی اور قدرے جوان شاہ کی آمد، آیا سندھ کا مقدر سنوارنے کا باعث بن سکے گی؟ اسی طرح یہ بھی ملین ڈالر سوال ہے کہ کیا نئے شاہ انتظامی معاملات میں خود کو Assert کرتے ہوئے صوبے کے اہم امور و معاملات پر صوابدیدی فیصلے کر سکیں گے؟ اگر صوبے کی فیصلہ سازی صوبائی حکومت اور اسمبلی کے بجائے پارٹی کی ہائی کمان اور صوبے سے باہر کی قوتوں کے اشارہ ابرو کی محتاج رہے گی، تو پھر تبدیلی بے معنی اور محض دکھاوے کی ہو گی۔

اس تبدیلی پر مختلف حلقے مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختیارات کی تفویض کے حوالے سے پیدا شدہ ڈیڈ لاک وقت گزرنے کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا تھا۔ جس کے نتیجے میں گورنر راج کے نفاذ کے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ لہٰذا اس سے بچنے کے لیے یہ تبدیلی لائی گئی ہے۔ جب کہ کچھ دیگر حلقوں کی رائے ہے کہ سندھ میں حالیہ تبدیلی کے پیچھے میاں نواز شریف کی خواہش بھی شامل ہے، جو سندھ کے معاملات میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے خائف تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب یہ سمجھ رہے تھے کہ قائم علی شاہ کے کمزور موقف اور طرز عمل کی وجہ سے وفاقی وزیر داخلہ کو سندھ کے معاملات میں مداخلت کا موقع مل رہا تھا۔

دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری قائم علی شاہ کی نرم خوئی اور رینجرز کے ساتھ معاملت میں کمزور موقف اختیار کرنے پر ان سے نالاں تھے۔ وہ رینجرز کو اندرون سندھ اختیارات دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح اندرون سندھ پارٹی کی سیاسی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ وہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور اس حوالے سے سندھ حکومت کے کردار سے بھی غیر مطمئن تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نیا وزیراعلیٰ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بامقصد ڈائیلاگ کے ذریعے آپریشن کے دائرہ کار کو اندرون سندھ تک بڑھانے سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں باخبر حلقے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ سندھ کے اقتدار اعلیٰ کی تبدیلی کا اصل فیصلہ خود آصف علی زرداری کا ہے۔ جب کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ تبدیلی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی پارٹی میں متحرک اور فعال قیادت کو آگے بڑھانے کی خواہش کا نتیجہ ہے۔

سندھ ویسے تو قیام پاکستان کے وقت سے مختلف پیچیدہ مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے، لیکن جنرل ضیا کے دور سے اس کے مسائل دوچند اور سنگین ہوتے چلے گئے، جنھیں بعد میں آنے والی سویلین حکومتیں کچھ اپنی نااہلی اور استعداد (Capacity) میں کمی کی وجہ سے حل نہیں کر سکیں اور کچھ وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کی صوبے میں بے جا مداخلت کی وجہ سے پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خطے کی تبدیل ہوتی تزویراتی صورتحال کے نتیجے میں پاکستان کے لیے عالمی امداد کا حجم کم ہو رہا ہے، لہٰذا حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ آمدنی کے تمام ذرائع کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے۔ کراچی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، جس کی آمدنی کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس شہر پر وفاق کا مکمل کنٹرول ہو۔

کراچی پر کنٹرول کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مینڈیٹ منقسم ہو اور کوئی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہ ہو کہ وفاقی حکومت کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔ یہی سبب ہے کہ جن چار اہداف کو بنیاد بنا کر کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تھا، انھیں ثانوی حیثیت دیتے ہوئے آپریشن کا رخ اربن سندھ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی کرپشن اور مجرمان کی اندرون سندھ منتقلی کو بنیاد بناتے ہوئے آپریشن کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی اور سندھ سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مل کر بدترین کرپشن میں ملوث ہیں۔ مگر ریاستی ادارے بھی کرپشن کی آڑ میں سندھ پر کنٹرول قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ لہٰذا پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ آپریشن کے دائرہ کار کو اندرون سندھ تک وسیع کیے جانے کا مقصد اس کے مینڈیٹ کو بھی محدود کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی آپریشن کے دائرہ کار کو وسیع کیے جانے کی شدید مخالف ہے اور اسے روکنے کے لیے آخری حد تک جا سکتی ہے۔

لیکن اس صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ سندھ کی دو اہم ترین سیاسی جماعتیں (پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم) جن کے ہاتھوں میں سندھ کا 85 فیصد مینڈیٹ ہے، ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ اس وقت صوبے میں سہ رخی لڑائی جاری ہے۔ ایک طرف ریاستی ادارے آپریشن کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دو بڑی جماعتوں کا ناطقہ بند ہے ، تو دوسری طرف یہ دونوں جماعتیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ جس کے نتیجے میں سندھ کی مجموعی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی لوکل گورنمنٹ کو اختیارات تفویض کیے جانے میں اس لیے سردمہری کا مظاہرہ کر رہی ہے، کیونکہ اس طرح ایم کیو ایم کو اربن علاقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع ملے گا، جو پیپلزپارٹی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

سندھ میں انتشار اور بدامنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی اس ملک کی اپنی تاریخ ہے۔ اگر سندھ کی 69 برس پر محیط تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو یہ پاکستان کا وہ واحد بدنصیب صوبہ ہے، جو قیام پاکستان کے وقت ہی سے نت نئے مسائل کی گرداب میں گھرا چلا آ رہا ہے۔ جب کہ بیرون اور اندرون ملک سے آبادی کے تسلسل کے ساتھ بہاؤ کے نتیجے میں Demography کے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ اس کی بندرگاہ جو ایک ٹرسٹ کے تحت کام کرتی ہے، اس کی آمدنی بھی وفاقی حکومت کو جاتی ہے۔ حالانکہ جب یہ ٹرسٹ قائم ہوا تھا تو بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی کراچی میونسپل کارپوریشن کو ملتی تھی۔ یہ سلسلہ 1955ء میں ون یونٹ کے قیام تک جاری رہا۔

کراچی کے بارے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس شہر میں ہونے والے سنگین جرائم میں 85 فیصد صوبے سے باہر کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ مگر حکومت اور اس کے ادارے اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔ صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بدانتظامی کی ذمے داری صوبے کی دو بڑی جماعتوں کے غیر ذمے دارانہ رویوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جن کی سیاسی چپقلش نے گزشتہ تین دہائیوں سے صوبے کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔

سندھ کا وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے دو طرح کے دباؤ کے زیر اثر ہے۔ ایک طرف پارٹی کی ہائی کمان ہے، جو منتخب حکومت کو اس کی اپنی بصیرت اور سیاسی عزم کے مطابق چلنے نہیں دیتی اور تسلسل کے ساتھ مداخلت کرتی رہتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کا سندھ کی حکومت، منتخب نمایندوں اور عوام کے ساتھ معاندانہ رویہ اور امتیازی سلوک بہتر حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کوشش کریں کہ ہائی کمان سے مشورے ضرور لیں، لیکن انتظامی امور میں اس کی مداخلت نہ ہونے پائے۔ دوئم، اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم ازکم اس سطح پر لے آئیں، جہاں ترقیاتی امور میں اس کا تعاون حاصل کیا جا سکے۔ سوئم، وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کی صوبائی نظم ونسق میں مداخلت کو کم سے کم کرانے کی کوشش کریں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس سمیت صوبے کے تمام انتظامی اداروں کی میرٹ کی بنیاد پر تطہیر اور تشکیل نو کریں اور انتظامی ڈھانچہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عزم کا مظاہرہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔