میں دیر کرتا نہیں، دیر ہو جاتی ہے…

شیریں حیدر  ہفتہ 1 دسمبر 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

انتہائی کوفت ہوتی ہے جب آپ نے کسی کو دعوت پر بلا رکھا ہو اور آپ خود وقت مقررہ سے پہلے دعوت کے مقام پر پہنچ کر انتظار کرنے کو بیٹھ جائیں اور آپ کا پہلا مہمان بھی مقررہ وقت سے پچیس منٹ کے بعد پہنچے اور بجائے شرمندہ ہونے کے، حیرت سے کسی اور مہمان کو نہ دیکھ کر کہے… ’’ اوہ ! تو میں سب سے پہلے پہنچ گیا!!!‘‘

’’ جی… بلکہ بہت جلدی بھی!  ‘‘ میں  نے حنا کے اس فقرے کے جواب میں کہا، کلب میں سب کو بلا رکھا تھا اور انتظار کے پنتیس منٹ گزار کر اس کی شکل نظر آئی تھی اور وہ بھی اپنے لیٹ نہیں بلکہ جلدی آنے پر شرمندہ ہو رہی تھی۔ ایک اسی پر موقوف نہیں… ہم سب اسی ریت کے قائل ہیں، جب ہم کہیں مہمان ہوتے ہیں تو دیر سے پہنچنا اپنا پہلا حق سمجھتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ میزبان کی اس کے علاوہ کوئی اور مصروفیت بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی کی کیا بے عزتی ہو سکتی ہے کہ آپ وقت کی پابندی نہ کریں ، احترام کا تقاضہ یہی ہے کہ پابندیء وقت کا خیال رکھا جائے۔

مہمانوں کے تاخیری حربوں کا نتیجہ اب ایک اور خطرناک رجحان کی صورت میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ اب پارٹیوں میں میزبان سب سے آخر میں آنا شروع ہو گئے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ان کا دیا گیا مقررہ وقت شاید کوئی پڑھتا ہے نہ اس پر عمل کرتا ہے تو پہلے سے جا کر کوفت میں مبتلا کیونکر ہوں۔

کسی معاشرے کے انحطاط کی پہلی نشانی یہی ہے کہ وہ معاشرہ ان نعمتوں کی قدر کرنا بھول جاتا ہے جو اسے مفت میں ملتی ہیں… دھوپ، بارش، ہوا ، پانی… اس کے اعضاء، صحت، محبت، عزت، اور وقت!! یوں تو ہر نعمت اپنی جگہ اہم ہے مگر وقت… ایک مقررہ مہلت کا دوسرا نام ہے، مٹھی میں سے سلگتی ریت کی طرح، گھڑی کی ہر ٹک ٹک کے ساتھ گزرتا ہر لمحہ… ہماری ناقدری کے باعث لگتا ہے کہ ہاتھوں سے پھسل پھسل جا رہا ہے۔

ہم خود سے بارہا کہتے ہیں کہ جانے وقت کہاں جا رہا ہے… ادھر مہینہ شروع ہوتا ہے ادھر اس کا آخری دن آ جاتا ہے… ادھر ہم ایک دوسرے کو سال شروع ہونے کی مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں،ادھر ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ جانے والا برس ہمیں کیا دے کر گیا ہے اور کیا چھین کر لے گیا ہے!!

جن لوگوں کو دیر سے ایک آدھ بار جا کر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے یا اپنی ملازمت سے ڈانٹ پڑ جاتی ہے، اس سے ان کے اندر جھجک ختم ہو جاتی ہے اور وہ عادی بن جاتے ہیں… ہزار ہا بہانے ان کی دسترس میں ہوتے ہیں اور ان کی زیادہ تر توانائیاں اسی سوچ میں بسر ہو جاتی ہیں کہ اگلے روز انھیں کیا بہانہ بنانا ہو گا! اسی لیے ہم ترقی کی دوڑ میں آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں،  وقت کو دنیا کا ہر معاشرہ دولت سمجھتا ہے سوائے ہمارے… ہم چوبیس گھنٹوں کے دن اور رات میں سے چوبیس منٹ بھی سوچ سمجھ کر، پلان کر کے اور کسی مثبت کام میں صرف نہیں کرتے۔

کہیں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے ہوں گے تو  اتنی بے فکری سے گویا ہماری پیدائش کا اصل مقصد ہی یہی تھا۔ جو ٹیلی فون پر گپ شپ شروع کرتے ہیں تو بھی ہر مسئلہ پس پشت چلا جاتا ہے اور ہمارے اسی شوق کی تسکین کی لیے دنیا بھر میں سب سے سستی ٹیلی فون کی سہولیات ہمارے ملک میں میسر ہیں۔ مغربی اور ترقی یافتہ ترین ممالک میں اپنے فون پر کال سننے پر بھی رقم خرچ ہوتی ہے اس لیے لوگ نہ کسی کو بے مقصد کال کرتے ہیں نہ کسی سے فون پر لمبی بات کرتے ہیں…

ہم لوگ گھنٹوں کے حساب سے بیٹھ کر گپ شپ کر سکتے ہیں، فارغ وقت کی ’’ نعمت‘‘ ہمارے پاس کثرت سے ہے، مگر کوئی ہم سے کہہ کر دیکھ لے کہ فار غ ہو تو فلاں کام کر دو… پھر دیکھیں کہ ہمیں کیا کیا مصروفیت نظرآنے لگے گی۔ ہمارے پاس خریداری کرنے کو گھنٹوں نکل آتے ہیں مگر کسی بزرگ کو ملنے جانا ہو تو ’’ فرصت ‘‘ ہی نہیں ملتی۔ سینما میں فلم کے لیے تین گھنٹے نکالنا کوئی مشکل نہیں مگر کسی عبادت یا کسی کی عیادت کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔ بیٹھ کرٹیلی وژن دیکھنے اور کھانے پینے کو وقت نکل آتا ہے مگر اپنی صحت کی خاطر ورزش کو وقت نہیں نکلتا۔   نئی نسل کے پاس بالخصوص گھومنے پھرنے اور تفریحات کے لیے تو بہت وقت ہے مگر اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔

امتحان سے چند دن قبل بہت  panic ہوتا ہے کیونکہ سارا سال لاپروائی کی نذر ہو چکا ہوتا ہے… جس طر ح یہ نوجوان بچے سیر سپاٹے، تفریحات، پارٹیاں اور باقی پروگرام ترتیب دیتے ہیں، کاش اسی طرح وہ اپنے امتحانوں کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیں، انھیں اتنا ہی اہم سمجھیں…

صرف نوجوانوں پر ہی کیا موقوف… ہم ہر عمر، ہر نسل اور ہر طبقے کے لوگ اسی طرح ہر وقت بھگدڑ کا شکار رہتے ہیں۔ ہر گھر میں صبح قیامت کی طرح اترتی ہے، کسی کی شرٹ نہیں مل رہی، کسی کی پینٹ استری نہیں ہوئی، کسی کا لنچ باکس اسکول میں رہ گیا تھا، کسی کی وین ہارن پر ہارن بجائے جا رہی ہے اور ناشتہ تیار نہیں… اپنی گھڑی یا موبائل پر… جہاں بھی آپ صبح جاگنے کے لیے الارم لگاتے ہیں ، اس الارم کو دس منٹ قبل کے وقت پر لگا لیں اور پھر دیکھیں کہ ہر کام کس ترتیب سے اور کتنے منظم انداز میں ہو گا، مگر جلد جا گنے کے لیے جلد سونا بھی ضروری ہے جو ہم نہیں سمجھتے اور رات دیر تک جاگنے کے اس فیشن نے ہمارے طرز زندگی میں کتنی ہی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

بسا اوقات ہم دوسروں کو جن باتوں میں قصور وار گردان رہے ہوتے ہیں، ہم انجانے میں خود ہی اس کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں… اپنا وقت ضایع نہ کرنا ہی اہم نہیں، دوسروں کا وقت بچانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سوچیں کہ کیا ہم کسی کو کال کرتے وقت سوچتے ہیں کہ کہیں وہ شخص کوئی اہم کام نہ کر رہا ہو، اگر سوچا نہیں تو کم از کم کال کرنے کے بعد پوچھا تو جا سکتا ہے کہ آیا اس کے پاس ہمارے پاس بات کرنے کے لیے وقت ہے کہ نہیں۔ کہیں ان کے کھانے پکانے یا کھانے کا وقت نہ ہو، بچوں کو پڑھانا نہ ہو، جلد سونا نہ ہو… ایسا نہ ہو کہ مروت میں کوئی بتائے نہیں اور ہم اس گھر کی پوری روٹین کو متاثر کر دیں، فون پر فقط وہی بات کریں جس کے لیے کال کیا ہے۔

کیا کسی کے گھر اچانک جا ٹپکنے سے ہم کسی غلطی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے۔ ممکن ہے کہ انھیں کہیں جانا ہو،  انھیں ہماری وجہ سے مداخلت نہ ہو کہ ان کے بچوں کا امتحان کا وقت ہو، ہمارے بغیر بتائے جانے سے ان کا معمول متاثر ہو اور وہ جھجک کے مارے کہہ نہ سکیں مگر دل ہی دل میں ہمارے اٹھ کر جانے کی دعائیں کر رہے ہوں ۔ وقت ضایع کرنے سے دراصل ہم خود کو ضایع کر رہے ہوتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کا زیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کا وقت ضایع کر کے ہم خود کو ان کی نظروں سے گرا رہے ہوتے ہیں۔

جن قوموں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا ہے وہ ترقی کی دوڑ میں تاروں پر کمند ڈالنے کے مرحلے سے بھی آگے جاچکی ہیں اور ہم وہ ہیں کہ جنہوں نے وقت کو دولت نہیں سمجھا۔ وقت بھی اسی دولت کی طرح ہے جو بھلائی کے کاموں میں خرچ ہو تو اس میں برکت پیدا ہوتی ہے اور اس کا صحیح مصرف نہ کیا جائے تو ہاتھ سے ایک بار گئی ہوئی یہ دولت دوبارہ نہیں ملتی۔  اپنے وقت کا ہر ہر لمحہ سوچ سمجھ کر اور مثبت انداز میں خرچ کریں اور ہاں اس کی زکوۃ بھی ضرور دیں ،کسی کی بھلائی کے کام میں چند منٹ خرچ کر کے، جو سکون اور ذہنی خوشی ملے گی اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔