کمیشن،کرپشن کے حمام اور ہم

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 6 اگست 2016

مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا، اس نے کیمرج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی جو آگے چل کر برطانیہ کے شاہ چارلس دوم کا مشیر بنا۔ مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا لیکن جب شاہ چارلس دوم کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بدامنی، رشوت ستانی اور ظلم کا بازارگرم ہوا تو مارول نے نہایت بے باکی سے بادشاہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقید کی اور ہجویں شایع کیے۔

اس کی تحریریں جب بادشاہ کی نظر سے گزریں تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھے۔ دھمکیاں، خوشامد، لالچ، دولت اور حسن کے جال یہ سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مارول پر کسی چیز کا جادو نہیں چل سکتا تھا۔ آخرکار مارول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک دن ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے ساتھ ملا لینے کی غرض سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ہزار پونڈکا چیک دے کر چلنے لگا۔

مارول نے اس سے ایک منٹ ٹھہرنے کی التجا کی اور فوراً اپنے خدمت گار کو بلا کر پوچھا کل شام تم نے کیا پکایا تھا۔ نوکر نے جواب دیا کہ جناب کو تو معلوم ہی ہے کہ کل شام میں نے آپ کے لیے گوشت پکایا تھا۔ مارول نے پھر سوال کیا کہ آج شام کے لیے کیا بندوبست کیا ہے۔

نوکر نے کہا کہ آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں۔ پھر مارول لارڈ ڈین بی سے مخاطب ہو کر بولا ۔ حضور نے سن لیا میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے۔ آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو حکومت کو چاہیے کہ اپنے مطلب کے آدمی کہیں اور تلاش کرے میں حکومت کا آلہ کار نہیں ہوں۔ مارویل نے مرتے دم تک شرافت کا ثبوت دیا اور وہ ایماندار جیا اور ایمانداری کی حالت میں مرا۔ اس کی قبر پر آج بھی یہ الفاظ کنندہ ہیں ’’یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔‘‘

سر رابرٹ والپول کے دور وزرات میں پلیٹنی حزب مخالف کا لیڈر تھا۔ دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اس نے ایک لاطینی فقر ہ ادا کیا سر رابرٹ والپول نے اس فقرے میں غلطی بتائی اور یہ شرط کی کہ اگر فقرہ صحیح ہو تو میں ایک گنی دونگا، شرط قبول کی گئی اور لاطینی کتابوں سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ پلیٹنی کا فقرہ صحیح تھا۔ وزیراعظم نے شرط کے مطابق ایک گنی میز پر رکھ دی۔ پلیٹنی نے اسے اٹھاتے ہوئے دارالعوام کے ارکان سے کہا کہ صاحبو گواہ رہنا کہ یہ سرکاری خزانے کا پہلا سکہ ہے جسے میں لے رہا ہوں، یہ سکہ آج تک برٹش میوزیم میں پلیٹنی کی گنی کے نام سے محفوظ ہے۔

عظیم شاعر اولیور گولڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا اور مرتے دم تک بھی غربت اور قرض اس کے رفیق تھے، تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی۔ اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارہ نہ کیا۔ سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ سر رابرٹ والپول کے دور وزارت میں پانچ لاکھ روپے سالانہ کی خفیہ رقم سیاسی پروپیگنڈے کے لیے مخصوص تھی، ادیبوں اور شاعروں کو حکومت کے کارناموں کی تعریفیں لکھنے کے لیے باقاعدہ وظیفے ملتے تھے، حکومت نے یہ طے کیا کہ گولڈ اسمتھ کو اپنا آلہ کار بنا کر مضامین اور نظمیں لکھوائی جائیں چنانچہ لارڈ سینڈوچ کی طرف سے ڈاکٹر اسکاٹ کو مامور کیا گیا کہ وہ گولڈ اسمتھ کو اس کام پر راغب کرے۔ ڈاکٹر اسکاٹ اس سے جا کر ملا لیکن ناکام واپس آیا۔

اسکاٹ کے الفاظ ہیں ’’میں نے اسے برے حال میں دیکھا اور اپنا منصب اسے بتا کر یہ واضح کیا کہ اگر وہ حکومت کا کام کرے گا تو اسے نہایت معقول معاوضہ دیا جائے گا لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ اس نے مجھے یہ عجیب وغریب جواب دیا کہ میں حکومت کی طرفداری کیے بغیر اپنی ضرورت کے لائق کما سکتا ہوں مجھے حکومتی رشوت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘سقراط نے ساری زندگی غربت میں گزاری۔ ارسطائیدس کو اس کی غیرمتزلزل ایمانداری کی بنا پر ’’انصاف پسند‘‘ کا خطاب ملا۔ یونان کے ایک شہر میں جب بھگدڑ مچی تو تما م شہری اپنا اپنا قیمتی سامان لے کر بھاگے لیکن بپاس نے اپنا رتی بھر سامان نہ اٹھایا۔ اس کے دوستوں نے تعجب کا اظہارکیا تو جواب ملا کہ آپ کی حیرت بے محل ہے، میرا تمام خزانہ (جوہر ذاتی) میرے ساتھ ہے۔

اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں ڈھونڈنے بیٹھیں تو ہمیں گنتی کے چند ہی رہنما ملیں گے جنہوں نے رشوت، دھمکی، لالچ، حسن، مصائب کی پروانہ کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور ساتھ ساتھ اپنے منصب، اپنے ملک، اپنے عوام سے بھی ایمانداری و وفاداری برتی، ورنہ آج ہم دور، دور نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا رشوت، کمیشن، حسن، کر پشن کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ عہدوں، منصبوں، پرمٹوں، کمیشن پر سب کی رال اس طرح بہہ رہی ہے جیسے نلکا کھولنے پر پانی بہتا ہے۔

ہر عہدے ہر ادارے میں کر پشن، بے ایمانی، لوٹ مار کی بے مثال اور انمول داستانیں ہر ٹیبل کے اوپر نیچے بکھر ی ہوئی پڑی ہیں۔ ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہد ہ ہے وہ اتنا ہی بڑابے ایمان اور بدعنوان ہے۔ دنیا میں بے ایمانی سمیت تمام برائیوں وخرابیوں کی ایک حد ہے اگر آپ کو کہیں ہر حد پار ہوتی ہوئی ملے تو سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے۔ آپ کو ایسی بانجھ زمین اور قوم کہیں اور نہیں ملے گی جہاں، نیک، شریف، ایماندار بااختیار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہوں کہ انھیں شمارکر کے آپ کو شرم آ جائے اور آپ اپنی نظروں میں ہی گر جائیں۔ کوئی معاشرہ افراد کی اخلاقی اقدار کی وجہ سے اچھا برا بنتا ہے جیسی کسی سماج یا معاشرے کی شکل وصورت ہو گی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہونگے جیسا رہن سہن ہو گا ویسی ہی سوچ ہو گی۔ ایک مرتبہ آئن اسٹائن نے کہا تھا ہمیں کیوں پیدا کیاگیا ہے اس نے خود جواب دیا، اگر کائنات حادثہ ہے تو ہم بھی حادثہ ہیں لیکن اگر کائنات کے کوئی معنی ہیں تو ہم میں بھی معنی ہیں، زندگی کا مقصد صرف لوٹ مار کرپشن یا دولت کا ذخیرہ کر لینا نہیں انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے۔

یزد نے کہا تھا آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے، جب کہ ایمرسن نے کہا ہے ’’کہ کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود نہ غلے کی افراط اور دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کسی قسم کے انسان پیدا کرتا ہے‘‘ انسان تمام جانوروں میں واحد جاندار ہے جو کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے کے فرق کو سمجھتا ہے۔ اخلاق سے عاری معشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔

یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلاقی ناکامیاں تھیں، لالچ، خوف، دباؤ، یہ تین چیزیں اخلاقیات پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ کر دیتی ہیں، جیت کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے زندہ رہا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے صاحب اختیار صرف جیت کے لیے زندہ ہیں ان کی قبر کے کتبے پر لکھا ہونا چاہیے کہ ’’اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔