غلاموں کی جمہوریت

جاوید قاضی  ہفتہ 6 اگست 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سندھ میں تبدیلی آ گئی مگر چہرے کی، روا نہیں، عدو کی نہیں۔ خیر جو آئی وہ تنکا ہی سہی، آئی تو سہی۔ دبئی میں رہتی پارٹی کی قیادت ٹس سے مس تو ہوئی۔ مراد علی شاہ پڑھا لکھا نوجوان تو ہے، مگر ہے سندھ کی روایتی میراث سے۔ اور جو بات سچ ہے سندھ جب تک اس روایتی میراث سے آزاد نہیں ہو گا تبدیلی آپ کو خوابوں میں ہی ملا کرے گی۔ خوامخواہ دوش دیتے ہیں قائم علی شاہ صاحب کو۔ وہ تو بنیادی ڈھانچے کا بالائی عکس تھے۔

چھوٹے چھوٹے اقتداری جزیروں کا عکس ہے سندھ۔ آج جب میں سندھی اخبار پڑھ رہا تھا جس میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے خبر تھی کہ مختلف سندھ کے حصے سیاسی خاندانوں میں بانٹ دیے گئے۔ گھوٹکی مہروں کے حوالے، خیرپور قائم علی شاہ کا، ہالا مخدوموں کا وغیرہ وغیرہ۔ اب خود ہی سمجھ لیجیے ’’یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے‘‘۔ جب چارلس نیپئر نے سندھ فتح کیا تھا تو یہی صورت گری تھی۔ میرپورخاص کے میر اپنی حکومت رکھتے تھے، خیرپور کے والی چارلس نیپئر کے قریب ہو گئے اور حیدرآباد کے میر یگانہ و یکتا رہ گئے۔

جو بھی تھا بھٹو تھا بس بڑے زمانوں کے بعد، جو ان میروں اور پیروں والے سندھ کو ایک کر گیا، تو اس زمانے کی ابھرتی آواز یعنی اشتراکیت کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلا۔ اس سے پہلے سندھی وڈیرے مسلم لیگی تھے، مارشل لا آیا تو اس کی طرف آیا، ون یونٹ آیا تو اس کی طرف۔ لیاقت علی خان وغیرہ یا یوپی کی مسلم لیگ ہجرت کر کے کراچی آئی، نہ کلکتہ لیا نہ ڈھاکہ گئے، ورنہ اس وقت بنگال کے وزیراعلیٰ شہید سہروردی تھے۔ آتے ہی آپ نے، یوپی کی مسلم لیگ نے، بنگال کی مسلم لیگ کا الو سیدھا کیا اور کراچی میں ایک خلا تھا جو بھر دیا۔ سندھ کمزور وڈیروں کا مسلم لیگ پر بنا ہوا تھا اور وڈیروں کے شرفا بالآخر بھٹو تک اپنا الگ وجود بنانے میں کامیاب ہو گیے۔

معراج محمد خان کہتے تھے کہ جب بھٹو ہمارے ساتھ بیٹھتے تو کہتے ’’تم دیکھنا ان وڈیروں کو میں چھوڑوں گا نہیں‘‘ اور جب وڈیروں کے ساتھ بیٹھتے تو کہتے یہ سارے اشتراکیت کی بات کرنیوالے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بھٹو کی چالیس سال کی حاکمیت نے اب ہمیں دیا ہے سائیں مراد علی شاہ۔ بنیادی ڈھانچہ وہی اور چہرہ تبدیل۔ خیر کچھ دنوں تک سب دفتر میں وقت پر آئیں گے اور پھر آپ ہی دیکھیے گا کیا ہوتا ہے۔ پہنچے گی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر ہے۔

صرف سندھیوں کی مڈل کلاس کیوں موقع پرست ہے، کیا ہمارے نئے سندھی بولنے والے جن کی جڑیں جاگیرداری میں کہیں بھی نہیں، ان کی مڈل کلاس موقع پرست نہیں رہی۔ آمریتوں کے ساتھ آپ بیٹھے، پھر جو بھی وڈیرے آئے، اقتدار میں آئے آپ ان کے ساتھ۔

70ء کی دہائی میں یہ سندھی مڈل کلاس والے و کراچی سے مڈل کلاس کے دانشور دہقانوں میں مل جل کر کام کرتے تھے اور وہ بھرپور تحریک تھی شاہ عنایت صوفی کی، دہقانوں کی تحریک کے بعد جو بنی تھی۔

پھر بھی مراد علی شاہ صاحب جتنی حاکمیت وڈیروں کے گٹھ جوڑ سے کریں گے، اتنی وہ سندھ کی مڈل کلاس کے گٹھ جوڑ سے بھی کریں گے۔ 90 فیصد سندھ کی مڈل کلاس نوکر شاہی پر مشتمل ہے۔ وہ جن کو اچھی جگہ تبادلے کے لیے وڈیرے کی چٹھی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی اوطاق کے چکر کاٹنے ہوتے ہیں یا تو اس کے ذات پات کے ووٹر بہت ہوتے ہیں، جو وڈیرے کی کمزوری ہوتے ہیں یا پھر وہ جو کماتا ہے اس کا کمیشن وہ پہنچاتا ہے۔

یہ ہے میرا وطن سندھ، جس کو زرداری صاحب نے ماضی کی جاگیرداری سے تبدیل کر کے جدید جاگیرداری میں بدلا ہے۔ ایک شاہ سے دوسرے شاہ کی طرف سفر۔

یہ ڈاکٹر مالک تھے جس کے پاس قیصر بنگالی ڈھائی سال لگ کر کام کر سکے، قائم علی شاہ کے پاس تو ایک سال بھی نہ چل سکے، وہ بتاتے ہیں اتنے برے نہیں تھے قائم علی شاہ، مگر ان کی چلتی نہیں تھی۔ وزیراعلیٰ ہاؤس بس صرف پوسٹ آفس تھا۔ چلاتا اس کو کبھی اویس ٹپی تھا تو کبھی فریال تالپر، یا پھر ہمارے شرجیل میمن اور جام خان شورو۔ یہ ماجرا ہے، گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ جس طرح متحدہ نے کراچی کو چلایا، جس طرح سے زرداری صاحب نے سندھ کو چلایا، تو رینجرز کا آنا اور چھا جانا ایک فطری عمل ہے۔ ہاں لیکن مجھے یہ جمہوریت پھر بھی بہتر لگنی چاہیے، کتنا بھی آمر ان سے اچھا ہو۔ کتنے بھی میرے دہقاں ان وڈیروں کے غلام ہوں، لیکن ان کا ان کو دیا ہوا ووٹ سر خم تسلیم کرتے ہیں اور کرنا بھی ہوگا کہ آگے کے راستے ان غلاموں کی جمہوریت سے ہی نکلیں گے۔

بات ہے سندھ کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی۔ اور وہ تبدیلی تب ہی آئے گی جب پورے سندھ میں توڑ پھوڑ ہو گی، یعنی انفرا اسٹرکچر آئے گا۔ (صرف کراچی میں نہیں) بیسویں صدی میں صرف ایک انفرااسٹرکچر کے حوالے سے تبدیلی آئی، وہ تھا سکھر بیراج، جس نے پورے سندھ کا معاشی نقشہ تبدیل کر دیا۔ بھٹو صاحب صرف سندھیوں کے ووٹ کا شعور دے گئے، وڈیروں کو گالیاں دینے کی رسم دے گئے، باقی کچھ نہیں۔

اور اب سنا ہے سی پیک کے ذریعے ایک بہت بڑی انفرااسٹرکچر میں تبدیلی آئے گی۔ یہ بات کس حد تک درست ہے، اس کا تو مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کا اثر سندھ کے بنیادی ڈھانچے پر پڑے گا اور وہ ہو گا صحیح معنی میں ایک انقلاب، جس سے زراعت کے علاوہ بھی یا سرکاری نوکریوں کے علاوہ بھی ذرایع روزگار نکلیں گے۔ جب جاگیرداروں، وڈیروں کی زمینوں سے یہ غلام دہقاں آزاد ہوں گے، جب نوکری پیشہ سندھی مڈل کلاس، انٹرپرینیور مڈل کلاس ابھرے گی، تب راج کرے گی خلق خدا۔ فی الحال یہ سب ڈھکوسلا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔