انگمار برگمین

عارف عزیز  اتوار 7 اگست 2016
پادری کا بیٹا بنا ہدایت کار، جس کی فلمیں اس کے خوابوں کا عکس ہیں جو فلم کی دنیا میں چمکا ۔ فوٹو : فائل

پادری کا بیٹا بنا ہدایت کار، جس کی فلمیں اس کے خوابوں کا عکس ہیں جو فلم کی دنیا میں چمکا ۔ فوٹو : فائل

(ہر فلم ایک بستی ہوتی ہے، جسے ہدایت کار درجنوں سے لے کر سیکڑوں اور کبھی کبھی ہزاروں افراد کی ٹیم کے ساتھ مل کر بساتا ہے۔ سیٹوں کی صورت بسنے والی یہ بستی اُجڑ کر سنیما کے پردے آباد ہوتی ہے۔ فلم بیں فلمی دنیا کے چمکتے تاروں یعنی اداکاروں کے بارے میں تو باریک سے باریک تفصیل بھی جانتے ہیں، مگر ان تاروں کے لیے آسمان بچھانے والے ہدایت کار کو بس نام ہی کی حد تک جانا جاتا ہے۔ ہمارا یہ نیا سلسلہ دنیا کے نام ور اور کام یاب ترین فلموں کے خالق ہدایت کاروں کی زندگی کے مختلف گوشے آپ کے سامنے لائے گا)

عرصۂ طفلی میں انگمار برگمین (Ingmar Bergman)کا اشتیاق، لڑکپن کا تجسس اور مہم جُوئی، نوجوانی میں تخیل اور تصور کی بلند پرواز کا بھی اُس عمارت سے گہرا تعلق ہے، جس کی چھت اونچی، ستون بھاری اور وہ خوب صورت محرابوں سے آراستہ تھی۔ وہ دراصل ایک عیسائی معبد تھا، جس کی پُرشکوہ عمارت کے اندر منعقدہ مذہبی اجتماعات میں کم عمر برگمین کی دل چسپی شاید نہ ہونے کے برابر تھی۔

اُسے تو معبد کے روزنوں سے بے دھڑک اندر آجانے والی سورج کی کرنیں اور در و دیوار پر چڑھ جانے والی دھوپ کا نظارہ بھاتا تھا۔ چھت اور محرابوں میں عجیب سی کشش محسوس ہوتی اور وہ ان میں خود کو گُم کرلیتا۔ گزرتے ہوئے ہر دن کے ساتھ لڑکپن کی پگڈنڈی پر اس کا سفر جوانی کی سرحد کے نزدیک ہوتا جارہا تھا اور اسی تیزی سے اس کا تخیل بھی مسافت طے کررہا تھا۔ وہ ایک افسانوی دنیا بسا لیتا، جس میں تمام کردار اس کے من چاہے اور پسندیدہ ہوتے۔ چشمِ تصور کے سہارے کہانی آگے بڑھتی، یہاں تک کہ وہ حقیقت کی دنیا میں لوٹ آتا۔ اسی انگمار برگمین کو آج دنیاسنیما کی تاریخ کے بہترین ہدایت کاروں میں شمار کرتی ہے۔ جان دار اسکرپٹس اور شان دار ہدایت کاری نے سوئیڈن کے اس ہدایت کار کو دنیا بھر میں شہرت اور نام دیا۔ ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ برگمین کے اسکرپٹ اور ہدایت کاری کے ساتھ شاہ کار فلمیں مانی جاتی ہیں۔ برگمین نے متعدد دستاویزی فلمیں، اسٹیج اور ریڈیو کے لیے پروڈکشن کے علاوہ اپنے کیریئر میں پینتالیس فلمیں بنائیں، جن میں سے پانچ ٹیلی ویژن کے لیے تھیں۔

انگمار برگمین نے 14جولائی 1918 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ گردوپیش اور ماحول کو ذرا سمجھنا شروع کیا تو جانا کہ ان کے والد ایرک برگمین ایک سخت مزاج اور قدامت پرست شخص ہیں۔ وہ شاہی دربار سے منسلک پادری تھے اور یہی وجہ تھی کہ انگمار کے گھر کے ماحول میں مذہبی تعلیمات اور موضوعات کا زیادہ چرچا ہوتا تھا۔ والدہ کا نام کیرن تھا جو پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کا خوف ایسا تھا کہ ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حساس، متجسس، فطرت کے دل دادہ اور رومانوی مزاج کے مالک انگمار کی نجی زندگی کی کشاکش، اتار چڑھاؤ، طبیعت سے میل نہ کھاتا ماحول اسے الگ ہی دنیا میں لے گیا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں اس سے متعلق حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے:

’’میری فلمیں ہمیشہ میری سوچ، جذبات، زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ میرے خوابوں اور خواہشات کا عکس ہوتی ہیں۔‘‘ برگمین نے بالکل درست کہا تھا۔ اس کا اندازہ کوئی بھی کرسکتا ہے، کیوں کہ ان کی بیش تر کہانیوں کا موضوع عام اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، محرومیاں اور مذہب بھی ہے۔

انگمار نے اپنے والد کے حوالے سے لکھا: چرچ میں اُن کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔ کم عمری میں اپنے تخیل و تصور کا تذکرہ یوں کیا،’’چرچ کی محرابوں اور مضبوط دیواروں کے اسرار میں گم ہو جاتا، میں ایسی خوش بُو محسوس کرسکتا تھا جو ابدیت اور ہمیشگی کا احساس دلاتی تھی، چرچ کی دیواروں پر آویزاں تصاویر اور نقش و نگار پر جب سورج کی روشنی پڑتی تو وہاں مزید عکس ابھر آتے۔ مجھے فرشتوں، برگزیدہ ہستیوں، پیغمبروں کے علاوہ افسانوی پیکر نظر آنے لگتے، جیسے ڈریگن اور بہت سے آسیبی کردار۔‘‘ برگمین کی عام زندگی اور پیشے میں بظاہر تضاد اور تفاوت نظر آتا ہے۔ ایک پادری جو سخت مزاج باپ بھی ہے۔

گھر کی فضا میں قدامت پسندی کا رنگ گہرا ہے، لیکن اسی ماحول میں پرورش پاتے برگمین نے سنیما سے ناتا جوڑا اور خوب نام کمایا۔ طرفہ تماشا یہ کہ عقیدے اور مذہبی تعلیمات کے چرچے میں ہی آٹھ سالہ برگمین نے اپنا ایمان گویا کھو دیا تھا۔ وہ مذہب اور اس کی تعلیمات پر سوال اٹھانے لگا تھا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پردے پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ اور ڈائریکشن برگمین کی تھی جسے اُس کی زندگی کا عکس بھی کہا گیا۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی تھی، جسے مذہب کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین اسے اپنی پسندیدہ فلم قرار دیتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے دوبارہ مذہب کے بارے میں جانا اور مختلف تعلیمات ان کے سامنے آئیں۔

ابتدائی عمر کا تذکرہ کرتے ہوئے برگمین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تخیل کے سہارے ایک ایسی عجیب و غریب دنیا سے جڑ گئے تھے جس کا ان کی بعد کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ ان کا زیادہ تر وقت گھر پر اپنے کھلونوں اور تصوراتی دنیا میں گزرتا۔ 16سال کی عمر میں، موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے کے لیے برگمین کو جرمنی میں کسی عزیز کے گھر بھیج دیا گیا۔ وہاں ایک ریلی میں شرکت کے دوران ہٹلر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اپنی خود نوشت میں برگمین نے لکھا ہے کہ جرمنی میں ہر طرف ہٹلر کی تصاویر نظر آتی تھیں۔ وہ بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ برگمین کے مطابق ہٹلر کی کام یابی کی خبر پر انہیں دلی خوشی محسوس ہوتی اور اس کی شکست انہیں رنجیدہ کردیتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ہٹلر کی شخصیت ناقابل یقین حد تک کرشماتی تھی، وہ ہزاروں کے مجمع میں گویا بجلی سی دوڑا دیتا تھا۔

1937 میں برگمین نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیا۔ تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع تھا۔ وہ فلم اور اسٹیج کے رسیا شمار ہونے لگے اور چھوٹے موٹے اسکرپٹس لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1942میں برگمین کو تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کھیل (Caspar’s Death) کا اسکرپٹ بھی انہی کی تخلیق تھی۔ سوئیڈن کے ایک معروف فلم پروڈکشن ہاؤس(Svensk Filmindustri) سے وابستہ شخصیات نے اس کھیل کو بہت سراہا اور برگمین کو اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔ یوں انگمار برگمین کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ اگلے ہی برس، یعنی1943  میں انہوں نے ایلس میری فشر کو اپنی رفیقِ حیات بنا لیا، مگر یہ رشتہ چند برس ہی قائم رہ سکا۔ 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ مرتبہ شادی کی اور چار ناکام رہیں۔

تھیٹر اور سنیما کے اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے دیکھا جائے تو برگمین کا سفر 1941 ہی میں شروع ہو گیا تھا، مگر یہ کسی تخلیق کار کے اسکرپٹ میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرنے تک محدود تھا۔ 1944 میں ان کا پہلا اسکرین پلے Torment کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ انسانی جنون اور قتل کی ایک کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس فلم کی شہرت کے بعد ایس ایف پروڈکشن ہاؤس نے برگمین کو بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے ساتھ کام کرنے آمادہ کیا۔ اس کے اگلے دس برس میں برگمین نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ان کی ہدایت کاری کا کام بھی نبھایا۔ 1955میں  Smiles of a Summer Nightکی دھوم ہوئی اور یہ برگمین کی ڈائریکٹ کردہ تھی۔ اگلے برس یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی، جہاں اسے بہت سراہا گیا۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل کا سامنے آئی، جس پر برگمین کو جیوری نے خصوصی انعام دیا اور ایک مرتبہ پھر کانز کے میلے میں برگمین کا نام گونجا۔ 1957میں وائلڈ اسٹابریز جیسی شاہ کار فلم سامنے آئی۔

جس نے برگمین اور فلم کے ہیرو کے نام پر متعدد ایوارڈز اکٹھے کیے۔ اسی برس دی سیونتھ سیل بھی ریلیز ہوئی اور برگمین نے سنیما بینوں اور ناقدوں سے اس کہانی اور عمدہ ڈائریکشن پر خوب داد سمیٹی۔ یہ اُس دور کی کہانی ہے، جب دنیا کو طاعون کی آفت کا سامنا تھا اور انسان اس بیماری میں اپنی جانیں گنوا رہے تھے۔ 1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، ایمان اور اس حوالے سے شکوک و شبہات کے گرد گھومتی ہیں۔

ان میں Through a Glass Darkly, Winter Light اورThe Silence  شامل ہیں۔ 1966 میں فلم پرسونا کا شہرہ ہوا جسے خود برگمین نے اپنی بڑی کام یابی قرار دیا ہے۔ اس کی کہانی ایک فیمیل نرس اور مریض کے گرد گھومتی ہے۔ یہ دراصل انسانی رویوں اور زندگی کے مختلف روگ کا قصہ ہے۔ بعض ناقدین نے اسے کیفیات اور نفسیاتی الجھنوں کی بہترین عکاسی قرار دیا۔ اس فلم کو متعدد ایوارڈز ملے اور یہ ماسٹر پیس شمار کی گئی۔ برگمین نے تھیٹر اور فلم کے ساتھ ٹیلی ویژن کے لیے بھی فلمز بنائیں اور اس کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ان میں ڈائریکشن اور پروڈکشن خاص ہیں۔

1976میں انگمار برگمین نے سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سرکار کی جانب سے ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتاری تھی۔ جلد ہی متعلقہ ادارے کی تحقیقات مکمل ہوئیں اور اس کی گرفتاری کو غلطی مان کر معذرت کی گئی۔ تاہم انگمار نے فیصلہ کیا کہ وہ سوئیڈن میں کوئی فلم نہیں بنائیں گے۔ اس نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ اس عرصے میں اس نے امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کیا۔ تاہم ان کے نزدیک سوئیڈن سے ہجرت کرنا ان کی بربادی سے کم نہیں تھا۔  1982میں وہ فلمFanny and Alexander  کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ مذکورہ فلم بھائی بہن اور ان کی بڑی فیملی کے گرد گھومتی ہے۔ 1984ء میں اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا۔ 2003 میں سوئیڈن میں ٹیلی ویژن کے لیے ان کا تیار کردہ ڈراما Saraband پیش کیا گیا، جو 84 سال کی عمر میں ان کا آخری کھیل ثابت ہوا۔ بعد میں اس ڈرامے کے اسکرپٹ میں ضروری تبدیلیوں کے ساتھ امریکا و دیگر ملکوں میں تھیٹر پر پیش کیا گیا۔

1972  کی ایک فلم Cries and Whispers کی کہانی اور ڈائریکشن پر بھی برگمین نے ناقدین سے زبردست داد وصول کی اور اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ یہ کہانی انسانی جذبات، سفاکی اور جنسی الجھنوں کا احاطہ کرتی ہے۔ مذہب اور اس حوالے سے سوالات کے علاوہ جنس نگاری اور پیش کاری بھی برگمین کا ایک حوالہ ہے۔ 1964 میں اس فلم ساز ایک جریدے کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ جنسی موضوعات اور اس کی عکس بندی کو اپنی فلموں میں بہت اہمیت دیتے ہیں۔

سوئیڈن اور دنیا بھر میں سنیما کے حوالے سے مشہور برگمین کی تھیٹر میں دل چسپی آخری عمر تک برقرار رہی۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں اپنی یونیورسٹی کے تھیٹر گروپ سے وابستہ رہے اور ٹرینی ڈائریکٹر کے طور پر صلاحیتوں کے اظہار کا آغاز کیا۔ چھبیس سال کی عمر میں تھیٹر منیجر کے طور پر ایک یورپی گروپ سے وابستہ ہو گئے اور تین سال بعد سوئیڈن کے گوتھنبرگ سٹی تھیٹر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ سلسلہ 1946 سے  1949تک جاری رہا۔  1953میں ایک اور معروف تھیٹر کے لیے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سات برس تک یہ تعلق قائم رہا۔ 1960 میں برگمین نے سوئیڈن ہی کے رائل ڈرامیٹک تھیٹر سے خود کو جوڑا اور اس پلیت فارم سے تھیٹر کے لیے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

1976 کا سورج برگمین کے لیے مشکلات لے کر آیا جب وہ ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتاری کے بعد شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گئے۔ وہ اسے اپنی بربادی کا عرصہ قرار دیتے تھے۔ 2003 کی رخصت پر برگمین نے مکمل طور پر فلم میکنگ ترک کردی۔ اس کے تین برس بعد انہیں کولہے کی سرجری کروانے کی ضرورت پیش آئی اور مکمل صحت یابی مشکل ثابت ہوئی۔30  جولائی 2007 کو ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ ان کا انتقال 89 برس کی عمر میں ہوا۔ انفرادی طور پر برگمین کو نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا اور تین بار ان کی فلموں نے اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیے۔ ہالی وڈ نے 1970ء ہی میں انہیں آسکر ایوارڈ دے کر سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت مان لیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی دو فلموں نے برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ حاصل کیے جب کہ چار پر سیزر ایوارڈ اور ایک فلم کو گولڈن گلوب ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ 1997ء میں مشہورِ زمانہ کانز فلمی میلے میں میں برگمین کو ان کی سنیما کے لیے خدمات پر ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔