حکمرانی کے مسائل اور سیاسی عمل

مقتدا منصور  اتوار 2 دسمبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت پاکستان میں گورننس اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بیشمار سوالات زبانِ زد عام ہیں۔اس میں شک نہیں کہ تعلیم یافتہ اور صاحب الرائے حلقے کی اکثریت ملکی مسائل کے حل کا واحد راستہ سیاسی عمل ہی کو سمجھتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوجی آمریت میںگزرے مجموعی طورپر 32 برس پاکستان کے مسائل ومصائب کو کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔اس لیے کوئی بھی متوشش شہری اس آپشن کاحامی نہیں ہے۔

لیکن یہاں ایک اورسوال یہ پیداہوتا ہے کہ آیا موجودہ سیاسی جماعتیں اور جاری سیاسی عمل گورننس اور اس سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے؟اگر نہیں تو پھر سیاسی عمل یا سیاسی جماعتوں کے رویوں میں کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے اس کے تمام پہلوئوں پر اکیڈمک بحث کی ضرورت ہے ۔لہٰذاسب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جدید دنیا میں گورننس کی تعریف کیا اور اچھی گورننس کے کیا اہم نکات ہیں۔پھراس کے تناظر میں پاکستان میں جاری سیاسی عمل اور سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

جدید دنیا میںحکمرانی( گورننس) سے مرادکسی مخصوص علاقے یا خطے کا نظم ونسق چلانا اورانسانی اورقدرتی وسائل کی تنظیم کاری (Management) ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت قائم ہوتی ہے جو نظم ونسق چلانے اورعوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے قانون سازی کرتی ہے ،اس پر عمل درآمدکا میکنزم تیار کرتی ہے اور ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے فیصلہ سازی کرتی ہے۔حکمرانی اچھی یا بری دونوںطرح کی ہوتی ہے،جس کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔عوام کو اگر سہولیات میسر ہیں اور انھیں حقوق حاصل ہوں اور زندگی میں مشکلات پیش نہیں آرہیں، تو بلاشبہ ایسی حکمرانی اچھی حکمرانی کہلائے گی۔اس کے برعکس اگر عوام عدم تحفظ، بے یقینی اور خوف وہراس کا شکار ہوںاور انھیں انصاف میسر نہ آرہاہو،تو لازمی طورپروہ بری حکمرانی کے زیراثر کہلائیں گے۔

اچھی حکمرانی کی کوئی واضح اور مربوط تعریف نہیںکی جاسکتی۔لیکن ایک عام تصور یہ ہے کہ اچھی حکمرانی جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے ۔جمہوری عمل کے ذریعے منتخب حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پورے ملک کے لیے یکساں قوانین تیارکرکے نافذ کرے گی۔ان قوانین پرعمل درآمداور انصاف کی فراہمی کویقینی بنائے گی اورماتحت ریاستی اداروںکی رہنمائی کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کی نگرانی کرے گی۔اس سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے عوام کوبلاامتیاز تعلیم، صحت اور روزگار کے حصول میں معاونت کرے گی۔عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرے گی،جن میںسیاسی،معاشی اور ثقافتی حقوق شامل ہیں۔انسانی اور قدرتی وسائل کی بہتر انداز میں تنظیم کاری(Management)کرے گی۔عوام کے عقائد، فکری میلانات اور طرزحیات میں مداخلت نہیں کرے گی۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں اچھی حکمرانی کے لیے چند اصول طے کیے گئے،جو پوری دنیاکے مختلف معاشروںمیں تقریباًیکساں ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اچھی حکمرانی کے چند اصول متعین کیے ہیں۔جن میں 1) (ریاستی منصوبہ سازی کے ہردرجہ اور مرحلے میں عوام کی اپنے نمایندوں کے ذریعے شرکت،(2) احساس ذمے داری، (2) جوابدہی،    -4)میرٹ، -5) شفافیت اور6 ) – احتساب شامل ہیں۔تجربات نے ثابت کیا ہے کہ ان اصول وضوابط کے بیشتر نکات پر عمل کرنے والی حکومتوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ اپنے عوام کو اچھی حکمرانی دے رہی ہیںاوران کے عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اچھی حکمرانی کے بغیر پائیدار ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

اچھی حکمرانی کے اصولوںاورمتعین کردہ صفات کی روشنی میں پاکستان کے سیاسی عمل اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو خاصی حدتک مایوسی ہوتی ہے۔سیاسی جماعتیں،جو جمہوریت کے لیے رطب اللسان رہتی ہیں، خود ان کے اندر جمہوری کلچر کا فقدان ہے اور شخصی آمریتیں قائم ہیں۔جس کی وجہ سے تقریباً ہر سیاسی جماعت اقتدار واختیارکی مرکزیت قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کے راستے میں روڑے اٹکاتی ہے۔

پالیسی سازی میں شفافیت، جوابدہی اور احتساب سے دامن بچاتی ہے۔چونکہ ان کے اپنے اندر میرٹ کا کوئی تصور نہیں ہوتا،اس لیے اقتدار میں آنے کے بعد عوامی معاملات میں بھی میرٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے اقربا پروری اور بدعنوانیوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔معاشرہ قبائل، برادریوں اور نسلی ولسانی کے علاوہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم ہے،جس کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ہر سیاسی جماعت اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔یوں انتظامی ڈھانچے میںStatus quoبرقرار رہنے کی وجہ سے عوام کی اکثریت بہت جلد جمہوری عمل سے بیزار ہوکرآمریت کی طلب گار نظر آنے لگتی ہے۔

لیکن مسئلے کا یہ حل نہیں کہ ہربار چند برس کے لیے جمہوریت اورپھر طویل آمریت کا سیاہ دور۔ اس لیے حکمرانی کے نظام کو دیرپابنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں میں موجود خامیوں کو دور کرنے انھیں اچھی حکمرانی کی طرف مائل کرنے کے بظاہر دو طریقے نظر آتے ہیں۔اول یہ کہ موجودہ سیاسی عمل کو صبروسکون کے ساتھ جاری رہنے دیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیاجائے جب ارتقائی عمل سے گذرتے ہوئے سیاسی جماعتیں خود اپنی اصلاح پر آمادہ نہ ہوجائیںاور نظام صحیح راہ پر آجائے ۔

یہ ایک طویل اور تھکادینے والاعمل ہے، جس کے نتیجے میں معاشی وسماجی ترقی کے معکوس سمت میں جانے کے علاوہ ریاست کی سلامتی کو خطرات لاحق ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پر سول سوسائٹی اور میڈیا دبائو ڈالے کہ پارلیمانی عمل(Act of Parliament)کے ذریعے انتخابی عمل میں معمولی تبدیلی لائی جائے اورکچھ عرصہ کے لیے متناسب نمایندگی کے طریقے کو رائج کردیا جائے۔

یہ طریقہ کار انتخابی حلقوں اور ووٹر لسٹ میں کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر بھی ممکن ہے۔اس طریقہ کار میں حسب معمول سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ ہوں۔ہر جماعت انتخابات سے پہلے اپنے اراکین کی ترتیب وار فہرست الیکشن کمیشن میں پہلے سے جمع کرادے(جیسا کہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے لیے طریقہ کار رائج ہے)۔الیکشن کے روز عوام اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دیں۔پورے ملک میں ہر صوبے سے مختلف سیاسی جماعتوںکو حاصل ووٹوں کے تناسب کے لحاظ سے قومی اور صوبائی اسمبلی نشستیں تفویض کردی جائیں۔

اس طرح تین فائدے حاصل ہونے کا امکان ہے۔ اول،ہر سیاسی جماعت اسمبلی میں پہنچ جائے گی اور یوں عوام کی مکمل نمایندگی ہوسکے گی۔دوئم،سیاسی جماعتیں Electableکے جھنجھٹ سے آزاد ہوکر اہل اراکین کو اسمبلیوں میں بھیجنے کی پابندہوجائیں گی،جس سے پارلیمان اورحکومت کی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوگی۔سوئم، آزاد امیدواروں سے چھٹکارامل جائے گا جو کرپشن کاسبب سے بڑاسبب ہیں۔یوں یہ جواز ختم ہوجائے گا کہ فلاں شخص کی اہمیت کے پیش نظر اسے ٹکٹ دیا گیا اور وزارت میں شامل کیا گیا۔

دنیا میں اس وقتTechno Politicsکا دور ہے، یعنی ہر سیاسی جماعت دیگر کارکنوں کے علاوہ ایسے افراد کو اپنی صفوں میں شامل کرتی ہے، جواپنے اپنے شعبے کے ماہرہوں۔ لیکن ایسے بیشتر اراکین براہ منتخب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔پاکستان جیسے سیاسی نظاموں میں ایسے افراد کواکثروبیشتر سینیٹ میں منتخب کرایاجاتا ہے۔لیکن پاکستان میںسینیٹ کی نشستیںبھی فروخت کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اکثر وبیشترماہرین اس ایوان میں پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں تھنک ٹینک قائم کرنے اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کا کلچر بھی نہیں ہے۔

اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان جیسے غیر مستقل سیاسی ماحول میں سیاسی جماعتیں کس بنیاد پرطویل المدتی منصوبہ بندی کریں جب انھیں یہ یقین ہی نہیں کہ سیاسی عمل کتنے عرصے جاری رہ سکے گا۔یہ  موقف گو کہ کسی حد تک درست ہے لیکن حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔اگر سیاسی جماعتوں میں ہوم ورک اورمنصوبہ بندی کرنے کی عادت ہوتی،تو شاید ہم اس ایڈہاک ازم کا شکار نہ ہوتے جس سے آج گذررہے ہیں۔

تجاویز کا مقصد کسی طورنظام کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ سوچ اور فکر میں وسعت پیدا کرتے ہوئے مختلف متبادل پر غور کرنے پر مائل کرنا ہوتا ہے۔درج بالاتجویز کا مقصد بھی نظام میں بہتری اور عوامی مایوسی کا خاتمہ ہے۔اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان میں نظم حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ فرسودگی کی انتہاء کو پہنچ چکاہے، جسے تبدیل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسابقت کے اس دور میں جہاں قومیں اور ممالک ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بیتاب ہیں،ہم اپنی ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے سبب خاصے پیچھے رہ گئے ہیں۔ لہٰذااب وقت آگیا ہے کہ بعض دور رس فیصلے کیے جائیں،چاہے یہ انتخابی عمل میں کسی نوعیت کی تبدیلی کے ذریعے ہوں یا سیاسی جماعتیں خود اپنے طریقہ کار کو تبدیل کرکے لائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔