تم کسی سے نہ کہنا !!

شیریں حیدر  اتوار 7 اگست 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

عموماً ہم اپنی چیزیں دوسروں کو دکھا کر ، ان سے داد وصول کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہماری نہ ہو مگر اسے دکھا کر نہ صرف ہم دوسروں کو بھی خوش کرتے ہیں بلکہ ہمارے دلوں کو بھی کمینی سی خوشی محسوس ہوتی ہے اور یہ وہ چیزہے کہ جسے اللہ تعالی نے بھی ظاہر نہ کرنے کو کہا ہے،  ہماری اپنی ہو تو ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اسے کسی کو نہ دکھائیں!!!  جی آپ درست سمجھے، میں عیوب کی بات کر رہی ہوں۔

لازم نہیں کہ یہ بڑے بڑے عیوب ہی ہوں ، کسی کی کوئی بھی غلطی، کسی کی شخصیت کی کمی یا کجی، کسی کا کوئی راز جو اصولا ہمارے پاس امانت ہوتا ہے مگر ہم ایسی کسی امانت کا بوجھ نہیں سہار پاتے جس سے کسی کی سبکی ہوتی ہو۔ اپنے گزشتہ کالم  ( لوگ کیا کہیں گے)کے بعد، بلکہ اس سے کچھ عرصہ پہلے سے میں نے خود پر ایک self check لگایا، پہلے تو ظاہر ہے کہ احساس ہوا کہ صرف دوسروں میں ہی نہیں بلکہ خود مجھ میں بھی یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح موجود ہے، سو میں نے خود کو سمجھایا اور اس کے بعد محتاط ہوئی کہ کوئی ایسی بات کسی سے نہ کروں جس سے کسی کو تکلیف ہو، کوئی اور بات کرنے لگے تو میں کہتی ہوں ، کیا واقعی یہ بات کرنا اتنا ضروری ہے؟ یا یہ کہ مجھے اس بات کو سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے!

اس سے دو فوائد ہوئے ہیں، ایک تو میرے پاس وقت بچنے لگا ہے اور دوسرے ایک غلط عادت کی بیخ کنی ہو گئی ہے۔ ہم سب اس قدر عادی ہیں بے مقصد باتوں اور لگائی بجھائی کے اور بالخصوص جن باتوں سے کسی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمیں ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہمارا بھی ان باتوں سے کوئی تعلق واسطہ تک نہیں ہوتا نہ ہی ہم کسی ایسی بات کے براہ راست متاثرین میں سے ہوتے ہیں،ساری بات زبان کے چسکے کی ہوتی ہے،  ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک برائی کی دلدل میں اتر رہے ہوتے ہیں۔  اللہ تعالی خود بھی ستارالعیوب ہے اور ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو دوسروں کے عیوب کی تشہیر نہیں کرتے اور رازوں کو امانت کی طرح رکھتے ہیں۔

ہم عجیب سی قوم ہیں، مارکیٹ جائیں، کوئی آدمی آپ کو خریداری کرتا ہوا نظر آئے تو غور فرمائیں، جو بھی چیز خریدے گا، خواہ وہ ٹوتھ برش ہو یا گاڑی، یہ ضرور چیک کرے گا کہ آیا اس کا کور( غلاف) بھی ہے یا کہ نہیں!! پہلے پہل ہمارے گھروں میں ٹیلی وژن کو بھی ان اوقات میں مغلف رکھا جاتا تھا جس وقت وہ زیر استعمال نہیں ہوتے تھے۔ چھت کے پنکھوں کو اخباروں میں لپیٹ دیا جاتا تھا کہ چھ ماہ تک ان پر مٹی  اور گرد نہ پڑے، سردیوں میں فرج بند کر کے اس پر غلاف چڑھا دیا جاتا تھا، سردیوں میں اے سی اور گرمیوں میں ہیٹروں پر اب  تک بھی غلاف چڑھا دیے جاتے ہیں ، دھوپ سے محفوظ رکھنے کو ہم گاڑیوں پر بھی کور چڑھا دیتے ہیں۔

ان مادی چیزوں کو ہم کس طرح بچا کر اور محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں،  ہم جانتے ہیں کہ جس چیز پر کور ہو گا وہ دست برد ہونے سے محفوظ ہو گی، تو یہی کلیہ ہم ان باقی چیزوں پرکیوں لاگو نہیں کرتے جو کوئی شخص کسی راز کی امانت ہمارے حوالے کرنے پر کہتا ہے؟

تم تخلص کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

فراز تو یہ کہہ گئے مگر ہم پھر بھی ہر کسی کو دوست سمجھ بیٹھتے ہیں  اور اس سے دل کی باتیں کہنے لگتے ہیں۔ شنید ہے کہ جب تمہارا کوئی رازدار دوست تمہارا دشمن بنتا ہے تو وہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ اس کے پاس ہماری قیمتی ترین چیزیں یعنی کہ ہمارے راز ہوتے ہیں۔ سوچیں کہ کسی کو اپنے دل کی بات کہنا یا کسی سے راز کی بات کہنا کس قدر اہم ہے۔  دوسروں سے راز صرف اس وقت کہیں جب آپ جانتے ہوں کہ اس راز کا جان لینا کسی کے لیے  انتہائی لازم ہو ورنہ جس راز کا بوجھ آپ خود نہیں سہار سکے،  اسے کسی دوسرے کو کہہ کر یہ نہ کہیں، ’’صرف تم سے کہہ رہا ہوں، کسی اور سے نہ کہنا!! ‘‘ کیونکہ اس راز کا بوجھ اسے بھی اتنا ہی بھاری لگے گا جتنا آپ کے لیے تھا اور وہ بھی اسے اپنے ناتواں کندھوں سے اتارے گا اور کسی اور کے حوالے کر دے گا، یہ کہتے ہوئے ، ’’ صرف تم سے کہہ رہا ہوں ،کسی اور سے نہ کہنا۔

اچھے سے اچھے دوستوں سے بھی صرف مسائل کی بابت گفتگو کریں تو اس صورت میں جب آپ کو علم ہو کہ اس کا حل اس کے پاس ہو گا اور آپ مشکل سے نکل سکتے ہیں، راز کی بات کرتے وقت دس دفعہ سوچیں۔

… کیا وہ راز ایسا ہے کہ اس سے کسی دوسرے کی دل آزاری یا کردار کشی نہ ہوتی ہو؟… کیا یہ راز کی بات آپ کو کسی اورنے امانت کے طور پر تو نہیں دی تھی؟… اس رازکا جاننا اس کے لیے کس حد تک ضروری ہے جسے آپ کہنے جا رہے ہیں؟ … اس راز کے کہہ دینے سے کسی کا گھر تو نہیں ٹوٹے گا؟ … راز کی یہ بات، غیبت کے زمرے میں تو نہیں آئے گی؟ … اگر آپ سے رازکی کوئی بات کہی گئی ہے تو آپ کے لیے اسے کسی اور سے کہنا کس قدر ضروری ہے؟

اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ کہنے والا کسی کے بارے میں کوئی غلط بات کہہ رہا ہے یا وہ بات آپ سے غیر متعلقہ ہے، یا اس راز کا  نہ جاننا آپ کے لیے بہتر ہے تو ایک بار ہمت کر کے ، کہنے والے سے کہہ دیں ، ’’ بھائی میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ تمہیں مجھ سے یہ بات کہنا چاہیے، بہتر ہے کہ تم مجھے اس معاملے سے باہر ہی رکھو،ہمیں کسی ایسے شخص کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہیے جو یہاں موجود نہیں ہے!‘‘ ان میں سے کوئی بھی بات آپ کہہ دیں، کہنے والا محتاط ہو جائے گا، آپ کو بتاتے ہوئے رک جائے گا، آیندہ کے لیے آپ سے کوئی رازکی بات نہیں کہے گا! یہ آپ کے حق میں بہتر ہے اور آپ کو کئی برائیوں سے روکنے کے عمل کی ابتدا ء ہے۔

ہمارے ہاں سب سے زیادہ بولا جانے والا فقرہ… لوگ کیا کہیں گے! اس کے بعد، ’’  صرف تمہیں بتا رہا ہوں، اور کسی سے نہ کہنا!‘‘  صرف ہم ہی کسی سے یہ فقرہ نہیں کہتے بلکہ وہ شخص ہماری کہی ہوئی بات کو جب کسی اور کو بتاتا ہے تو وہ بھی اس کے آخر میں اس جملے کا اضافہ ضرور کرتا ہے ، جانتے ہوئے بھی کہ یہ سلسلہ جاری رہنے والا ہے، تا وقتیکہ یہ بات سارے لوگوں میں گھوم کر واپس وہیں پہنچتی ہے جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا اور اس دوران اتنے کردار اس لڑی کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں کہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کس نے ، کس کو، کس وجہ اور کس طریقے سے بات بتائی تھی۔

ہم بچپن میں ایک کھیل کھیلا کرتے تھے، Chinese whisper  کے نام سے، اس کھیل میں ہم سب بچے ایک نیم دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے تھے اور جس کی باری ہوتی تھی تو اس دائرے کے ایک سرے والی سیٹ پر چلا جاتا تھا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کے کان میں ایک چھ یا سات لفظی… یا اس سے بھی طویل فقرہ کہتا تھا، اسے یہ فقرہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کے کان میں سرگوشی میں کہنا ہوتا تھا، اسی طرح ہر کوئی اس فقرے کو اسی طرح پاس کرتا تھا، جب یہ فقرہ آخری بچے تک پہنچتا تو اس کے الفاظ مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہوتے تھے…  جیت اس کی ہوتی تھی جس کا فقرہ کم سے کم ہئیت تبدیل کر کے آخری بچے کے منہ سے ادا ہوتا تھا۔

اسی طرح مختلف محکموں میں جاسوسی کا نظام کام کرتا ہے، آپ کو دشمن کو جو غلط معلومات دینا ہو یا اسے misguide کرنا ہو تو اپنے ماتحتوں سے اسے کہہ دیں اور ساتھ ہی تاکید کر دیں کہ کسی سے کہنا نہیں اور بالخصوص ہمارے دشمنوں تک تو یہ بات بالکل نہیں پہنچنا چاہیے۔ گولی سے زیادہ تیز رفتار سے وہ ڈس انفارمیشن آپ کے دشمنوں تک پہنچ جاتی ہے۔ صرف فوج اور پولیس یا مختلف محکمے ہی نہیں ، یہی پالیسی اپنے خاندانوں ، سول محکموں اور دوستوں میں بھی کام کرتی ہے۔ جہاں خاندان میں کسی کو کسی سے اختلاف کروانا ہوتا ہے، دوستوںمیں لڑائی کروانا ہوتی ہے تو بھی یہی ٹیکنیک استعمال کی جاتی ہے۔ رازوں کی تشہیر انسانی فطرت کا خاصہ ہے، اس بوجھ کو ہر کوئی نہیں اٹھا سکتا، بالخصوص اس وقت جب آپ خود اپنے رازکے بوجھ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ارشاد باری تعالی ہے

’’ اے ایمان والو، زیادہ تر گمانوں سے بچ کر رہا کرو بے شک بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں

اور عیب نہ تلاش کیا کرواور تم میں سے کوئی بھی دوسرے کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے

کوئی شخص یہ پسند کرے گاکہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے لگے، تمہیں یقینا یہ

بات ناپسند ہو گی اور اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو بے شک اللہ تعالی توبہ قبول کرنے والا اور بڑی رحمتوں والا ہے!‘‘ ( سورۃ الحجرات، آیت نمبر، 12)

یقین کریں ، آپ کا راز صرف اس وقت تک راز ہے جب تک یہ آپ کے اپنے سینے میں محفوظ ہے، جہاں اس نے آپ کی زبان کے راستے آپ کے سینے سے فرار اختیار کیا، اس کے بعد جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے سے اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اپنے وجود کو وہ کنواں بنا لیں کہ جس میں کوئی چیز غلطی سے گر جائے، کوئی اور اس میں سنبھالنے کی نیت سے کچھ رکھے یا آپ خود کچھ سنبھال کر رکھیں، اسے دوبارہ کوئی بازیاب نہ کر سکے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔